بلاگرز
خون دل میں ڈبو دی ہیں جو انگلیاں میں نے، تو پھر جو تحریریں بنی ہیں وہ میری قاتل بنیں۔۔۔
KARACHI:
خون دل میں ڈبو دی ہیں جو انگلیاں میں نے، تو پھر جو تحریریں بنی ہیں وہ میری قاتل بنیں، مگر تھا تو کچھ بھی نہیں، ہاں مگر ان تحریروں میں میرے قبیلے کا پتہ ملتا ہے اور میری فکر کی وکالت ملتی تھی یہ بلاگرز تھے، بے چارے سلمان حیدر ہو یا ثمر عباس جنھوں نے پڑھنے والوں کے پاس اپنی جگہ بنائی، وہ گھپ اندھیروں میں رہتے تھے، ان کے رہبر تھے، یہ ان کے زخموں کے مرہم تھے۔
یہ نہ اِن کو اُن کا پتہ تھا، نہ اُن کو اِن کا۔ پھر بھی تعلق جو تھا وہ فکر و خیال کی وجہ سے بہت گہرا تھا۔ یہ لوگ لبرل تھے اور جیسے ایک جمنا کا چوراہا تھا، استاد بڑے غلام علی کی ٹھمری کی طرح تھا وہ۔ کنکر مار کر جگا گئے وہ جمنا کے چوراہے ہائے رام۔ وہ جو بینظیر کہتی تھیں کہ تم کتنے بھٹو مارو گے، گھر گھر سے بھٹو نکلے گا، تو بات کچھ اس طرح بنی کہ تم کتنے لبرل ماروگے، تم کتنے سیکولر ماروگے، تم کتنے کافراعظم مارو گے، گلی گلی، نگر نگر، ڈگر ڈگر چلو اور تمہیں لبرل ملیں گے۔ بھلا آخر یہ لبرل ہوتے کیا ہیں؟ میں نے جب گوگل کیا، اس کے معنی یہ ملے۔
وہ شخص جو خندہ پیشانی سے دوسرے کی رائے کا احترام کرے، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کے دین و مذہب کا احترام کرے، چاہے کتنے بھی وہ ان خیالات اور دین و مذہب سے مختلف کیوں نہ ہوں اور بہت سے پہلو ہیں، تاریخیں ہیں، مختلف قوموں کے اندر جہد ہے، جس نے ان جمودوں کو توڑا، خیالوں کا ٹکراؤ ہوا اور پھر اس طرح سے مغرب کے ان سماجوں میں جب مشین آئی، اس مشین نے جو ان کی جاگیرداری کو توڑ پھوڑ کے پھینک دیا۔ نئے پیداواری ذرائع بنے اور یوں نئے خیالوں نے جنم دیا، نئے آئین بنے اور ان آئینوں کے انسانی حقوق ریڑھ کی ہڈی کے مانند بنے۔ یہ وہ انسانی حقوق تھے جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری خطبے سے تسلسل رکھتے ہیں کہ عربی کو عجمی، عجمی کو عربی، گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ یہ وہی ہے جو میگناکارٹا ہے، آج سے ایک ہزار سال قبل برطانیہ کے کلیسا نے دیا تھا۔
جس بھیڑ کی کھال پر وہ لکھا ہوا ہے، وہ اب بھی محفوظ ہے، اس جگہ جہاں سے محمد علی جناح نے بار ایٹ لاء کیا تھا۔ یہ سارے وکیل تھے۔ جو گاندھی تھے، نہرو تھے، ذوالفقار علی بھٹو تھے، جو اسی میگناکارٹا کو اپنے آئین کا حصہ بنا بیٹھے، مگر میگناکارٹا بارہ سو عیسوی کے بعد چار سو سال برطانیہ کی تاریخ میں ماند رہا۔
یہ وہ میگنا کارٹر تھا جو بالآخر امریکا کے اندر اپنے نقوش چھوڑتا گیا اور اس میگناکارٹا نے ''Bill of Rights'' کی شکل بنائی، اور یہ ''Bill of Rights'' اٹھارہ مختلف ترمیموں کے ذریعے امریکا کے آئین کا حصہ بنے اور پھر اٹھارہ ترمیمیں امریکا کے آئین کا محور بنیں، لیکن ایک ترمیم جوکہ چودھویں ترمیم تھی، وہ اس محور کا بھی محور بنی، وہ یہ تھی کہ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں ہے، سب آنکھ میں ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہرو اور امبیدکر نے امریکا کی اسی چودھویں ترمیم کو ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل چودہ کے حصہ بنایا۔
ہم نے بھی اسی امریکا کی ترمیم کو آرٹیکل 25 کی شکل میں اپنے آئین کا حصہ بنایا۔ مگر ہے یہ سارا سماجی معاہدہ، جو روسو اور ہابس نے اٹھارویں صدی کے قانونی فلسفے کی نگاہ سے تحریر کیا اور یہی تھے جارج واشنگٹن والے یا بنجمن فرینکلن وغیرہ، جنھوں نے روسو کے سوشل کانٹریکٹر کو امریکا کے آئین میں ڈھالا، اور یہ وہ ہی سوشل کانٹریکٹ ہے جو ہمارے آئین کا حصہ (دو) اور باب اول یا اس کا محور آرٹیکل 25 ہے، کہ کسی مہذب سماج کے آئین کو دیکھیے، یہ اس کا مغز ہے۔ جس طرح رومی اپنی مثنوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کا مغز اس میں سمودیا ہے اور اس طرح کی بات شاہ بھٹائی بھی اپنے رسالو کے بارے میں کہتے ہیں۔ جس طرح ن م راشد کہتے ہیں:
آدمی زباں بھی ہے
آدمی بیاں بھی ہے
حرف اور معنی کے رشتہ آہن سے
آدمی ہے وابستہ، آدمی کے دامن سے
زندگی ہے وابستہ
یہی تو ہیں وہ بلاگر، جن کو بنگلہ دیش میں وہاں کے رجعتوں نے اٹھا اٹھا کر مارا۔ یہی بلاگرز ہیں جو فیض کی زباں میں کہتے ہیں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
یہ وہی بات ہے جو سچل اناالحق کے نام سے کہتے ہیں، منصور حلاج و سرمد، پوری مشرقی تہذیب کا تاریخی تسلسل ہے، جس کو صوفی و بھگتی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ وہی تو ہے جو میگناکارٹا ہے، روسو کا سماجی معاہدہ ہے، لبرل ہے، بلاگر ہے، کہ تم اپنا دین اپنے پاس رکھو اور میں اپنا دین اپنے پاس رکھوں، کہ تم سے اختلاف رکھتا ہوں مگر میں تمہاری رائے کا احترام کرتا ہوں، کہ تم بھی بولو اور میں بھی بولوں، کہ تم بھی جیو اور میں بھی جیوں۔ سلمان حیدر کا قصور کیا تھا؟ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ بہت بولتا تھا۔ ہم نے بلوچوں کو اٹھا کر گم کردیا اور یہ روایت سندھیوں کے ساتھ بھی روا ہے، اب تو کراچی کے اندر اور یوں پنجاب میں بھی یہ رسم چلی ہے۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
اب کی بار یہ رسم یوں لگتا ہے بہت منظم ہے، جب ریاست خود قتل کا کاروبار کرتی ہو اور یہ کاروبار چھوڑ دے تو قاتل بیروزگار ہو جاتے ہیں اور وہ کیوں ہوں بیروزگار، وہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں، وہ ہماری صفوں میں رہتے ہیں اور ہم جیسی شکلیں ہوتی ہیں ان کی۔ ہم جیسے ہنستے مسکراتے آدمی ہوتے ہیں۔
آدمی سے ڈرتے ہو
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے
مگر ماجرا یہاں مختلف ہے، یہ قاتل بلاگر کی تحریروں سے ڈرتے ہیں، ان کے الفاظ میں پڑے حرف و معنی سے ڈرتے ہیں، اور یوں پاکستان کا سماجی معاہدہ کمزور ہوتا ہے، یعنی 1973ء کا آئین اپنے معنی کھو دیتا ہے۔ آرٹیکل 19، 20، 25 کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ جسے چاہے جب چاہے نوکری کی خاطر ملک سے باہر جا کر ایسا عہدہ پکڑ لے، جسے یہاں کا سماجی معاہدہ اور کمزور ہو۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ فیڈریشن ہے، کوئی اجدادکی چھوڑی ہوئی جاگیر نہیں۔ یہ مختلف مذاہب، رنگ و نسل، قوموں اور قومیتوں کا ملک ہے۔
یہ ملک مختلف زبانوں، خیال و فکر رکھنے والوں کا ملک ہے۔ یہ سب کی عزت قائم و دائم، تحفظ دینے کی گارنٹی دیتا ہے اور اس گارنٹی کی پامالی ہو، کہ قندیل بلوچ ماری جائے یا نائلہ رند کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اس ایٹمی طاقت اور اس کی سرحدوں کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے، مگر اندر سے اس کو دیمک کھاتا جارہا ہے۔ آئیے ہوش کے ناخن لیں، اس کے لیے پہلی کوشش یہ ہوگی کہ سلمان حیدر اور ثمر عباس کو بازیاب کرانے کے لیے کونا کونا، چپہ چپہ چھان ماریں، تاکہ جناح کے پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 19، 20، 25 کی پاسداری ہو۔