خوراک کا بحران نائجیریا میں 80 ہزار بچے موت کے دہانے پر

تصدیق شدہ اعدادوشمار کے مطابق نائجیریا میں چار لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔


ندیم سبحان میو January 15, 2017
چینی حکومت کی سرمایہ کاری کی وجہ سے یوگنڈا میں ترقی کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

ROME: براعظم افریقا کی تاریخ جنگوں اور خانہ جنگیوں سے عبارت رہی ہے۔ اس براعظم میں شامل کوئی ملک ایسا نہیں جو پڑوسی ممالک کے ساتھ مسلح تصادم یا پھر داخلی لڑائی کا شکار نہ رہا ہو۔ آج بھی پندرہ افریقی ممالک ہم سایوں کے ساتھ جنگ کررہے ہیں یا پھر خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ مسلح تصادم چاہے داخلی ہو یا خارجی، دونوں صورتوں میں اس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

دیگر افریقی ممالک کی طرح نائجیریا بھی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ 2009ء سے اس ملک میں بوکوحرام نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ داعش سے الحاق رکھنے والا یہ گروپ بیس ہزار بے گناہوں کی جانیں لے چکا ہے، جب کہ اس کی کارروائیوں کے نتیجے میں تیس لاکھ کے لگ بھگ نفوس اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

بوکوحرام اور ملکی فوج کے درمیان جاری جنگ کے نتیجے میں نائجیریا زبردست داخلی انتشار کا شکارہے۔ ملک میں غذائی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے جس کی وجہ سے آبادی کی اکثریت کو ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر نائجیریا میں خوراک کا بحران دور کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ایک عظیم انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ قلت خوراک سے سب سے زیادہ بچے متأثر ہورہے ہیں۔

عالمی ادارے کی چلڈرن ایجنسی کے مطابق اگر نائجیریا میں امداد اور سہولتیں نہ پہنچائی گئیں تو اگلے چند ماہ کے دوران اسّی ہزار بچے موت کا لقمہ بن جائیں گے۔ تصدیق شدہ اعدادوشمار کے مطابق نائجیریا میں چار لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں مگر یونیسیف کے چیف ایگزیٹیو ڈائریکٹر انتھونی کہتے ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ بوکوحرام کے زیرقبضہ علاقے ناقابل رسائی ہیں۔ کسی بھی ادارے کو وہاں محصور آبادی کے لیے امداد پہنچانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ بوکوحرام امدادی اداروں کے قافلوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

جولائی میں ریاست بورنو کے دارالحکومت مائدوگوری سے ستّر کلومیٹر دور فوج کی حفاظت میں جانے والے ایک قافلے پر بوکوحرام نے راکٹ سے حملہ کیا۔ بلٹ پروف گاڑیوں میں ہونے کے باوجود اس حملے میں یونیسیف کے ایک ورکر سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔



دل چسپ بات یہ ہے کہ نائجیریا کے صدر محمدو بوہاری ہزاروں افراد کی ہلاکت کے باوجود یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ صورت حال انتہائی خراب ہے۔ بوہاری کہتے ہیں کہ بوکوحرام ایک سال قبل تیکنیکی طور پر شکست کھا کر چھوٹے سے علاقے تک محدود ہوچکی ہے۔ بوہاری نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے عطیات حاصل کرنے کے لیے نائجیریا کی صورت حال کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔

صدر بوہاری کے الزامات سے قطع نظر ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے جاری کردہ بیانات صورت حال کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ گذشتہ ماہ مذکورہ تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ بوکوحرام کے زیرقبضہ علاقوں میں ہزاروں بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ تنظیم مائدوگوری میں ایک سو دس بستروں پر مشتمل ہنگامی طبی امدادی مرکز چلا رہی ہے۔ تنظیم کے مطابق اس اسپتال میں لائے جانے والے ایک چوتھائی بچے ناکافی خوراک اور بیماریوں کے ہاتھوں چل بسے۔



بچوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سرکاری اداروں کو بھی ٹھہرایا جارہا ہے۔ یہ اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ سرکاری ادارے ملنے والی امدادی خوراک کی خوردبُرد میں ملوث ہیں۔ غذائی اشیاء متأثرہ علاقوں میں مناسب مقدار میں نہ پہنچے کی وجہ سے قلت خوراک نے بحران کی شکل اختیار کرلی جو ہزاروں نونہالوں کی زندگیاں نگل چکا ہے اور مزید ہزاروں بچے اس کا شکار ہونے والے ہیں۔ نائجیریا کی سینیٹ نے ان الزامات کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔

چینی مردوں اور یوگنڈین عورتوں کی شادیاں
افریقی ملک اور چین کے تعلقات تناؤ کا شکار
ایک عشرے سے براعظم افریقا دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت، چین کی خصوصی دل چسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افریقا میں چین اب تک 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ صرف گذشتہ ایک سال کے دوران 14ارب ڈالرافریقی ممالک میں کھپائے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی حکومت اور سرمایہ کار اس ترقی پذیر خطے میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ لگارہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ چین بیشتر افریقی ممالک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ ان میں افریقا کے مشرقی حصے میں واقع یوگنڈا بھی شامل ہے۔ یوگنڈا انویسٹمنٹ اتھارٹی کے مطابق 2014ء اور 2015ء کے درمیان ملک میں نصف سے زیادہ بیرونی سرمایہ چین سے آیا تھا۔ افریقا میں چین نے بیشتر سرمایہ کاری تعمیراتی شعبے میں کی ہے۔ درجنوں چینی کمپنیاں افریقی ممالک میں شاہراہیں، پُل ، ہوائی اڈے وغیرہ تعمیر کررہی ہے۔

یوگنڈا میں چینیوں کی آمد کا سلسلہ کوئی دس برس قبل شروع ہوا تھا جب دونوں حکومتوں کے مابین معاہدے کے بعد یوگنڈا میں چینی کمپنیوں نے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ان کمپنیوں کے ملازمین ہی افریقی ملک کے ہوائی اڈوں پر اتر رہے تھے مگر پھر عام چینی بھی یوگنڈا کا رُخ کرنے لگے۔ آج یہاں چینی باشندوں کی تعداد دس سے پچاس ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان میں کمپنیوں کے ملازمین کے علاوہ نمایاں تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے یہاں اپنے کاروبار شروع کردیے ہیں۔ فیکٹریاں اور کارخانے قائم کرنے سے لے کر چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرنے تک، چینی بہت سے شعبوں میں مصروف عمل ہوچکے ہیں۔ چین کی ارزاں مصنوعات کی طلب دیکھتے ہوئے ایک بڑی تعداد آبائی وطن سے مصنوعات درآمد کرکے فروخت کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہوگئی ہے۔



افریقی ملک میں چینی کمپنیاں کئی بڑے منصوبے مکمل کرچکی ہیں جن میں منڈیلا نیشنل اسٹیڈیم، پونے دو ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہائیڈروپاور ڈیم اور دارالحکومت کمپالا کو انتیبے سے ملانے والی ہائی وے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد منصوبے زیرتکمیل ہیں۔

چینی حکومت کی سرمایہ کاری کی وجہ سے یوگنڈا میں ترقی کا نیا دور شروع ہوا ہے، مگر اب دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کھنچاؤ کا شکار ہونے لگے ہیں۔ اس کا سبب کوئی سیاسی تنازع نہیں بلکہ چینی مردوں کا مقامی خواتین سے شادی کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے!

گزرے برسوں کے دوران یوگنڈا میں آنے والے چینی باشندے یہاں اپنے کاروبار جما چکے ہیں۔ ان کا مستقبل اس سرزمین سے وابستہ ہوچکا ہے، مگر کاروباروں کو جاری رکھنے کی خاطر ان کے لیے یوگنڈا کی شہریت حاصل کرنا ضروری ہے، اور اس مقصد کے لیے وہ مقامی سیاہ فام خواتین کو سیڑھی بنارہے ہیں۔ شہریت کی ضرورت نے یورپی ممالک کی طرح یوگنڈا میں جعلی شادیوں کے رجحان کو جنم دے دیا ہے۔ چینی باشندے مقامی خواتین سے معاوضہ طے کرکے شادی کرتے ہیں، اور پھر شہریت کا پروانہ ملتے ہی یہ تعلق ختم ہوجاتا ہے۔

حکومت کو جعلی شادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ گذشتہ ماہ اس معاملے کی گونج پارلیمان میں بھی سنائی دی جب ایک رکن نے چینی مردوں اور مقامی عورتوں کے درمیان شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سدباب کرنے کا مطالبہ کیا۔ متعلقہ وزارت اس ضمن میں اقدامات کررہی ہے۔ جولائی میں جعلی شادیاں کرنے پر ایک درجن چینی باشندوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا۔

حکومتی ادارے اس سلسلے میں اب زیادہ مستعد ہوگئے ہیں۔ مقامی خواتین اور چینی مردوں پر مشتمل جوڑوں کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی موقع پر شادی کے جعلی ہونے کا شک پیدا ہوجائے تو پھر چینی شوہر کو پکڑ کر ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ شادی شدی جوڑوں کی نگرانی کے علاوہ غیرقانونی طور پر رہائش پذیر چینیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے ویزے کی تجدید کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

چینی باشندوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے یوگنڈا اور چین کے باہمی تعلقات میں تناؤ آگیا ہے۔ دوسری جانب چینی کمپنیوں کو دیے جانے والے ٹھیکوں کی جانچ پڑتال بھی شروع کردی گئی ہے۔ گذشتہ ماہ یوگنڈا کے اراکین پارلیمان نے چین کی سرکاری کمپنی چائنا کمیونی کیشن کنسٹرکشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو طلب کرکے اس سے وضاحت مانگی کہ کمپنی نے انتیبے میں شاہراہ کی تعمیر کا ٹھیکا کیسے اور کن حالات میں حاصل کیا۔ اراکین پارلیمان کے سوالات پر زچ ہوکر ژونگ وی ڈونگ نے جواب دیا،''چین افریقی ممالک کی ترقی میں تعاون کررہا ہے۔ اگر آپ کو پسند نہیں تو پھر یہ تعاون ختم ہوسکتا ہے۔''

''مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کے کسی امتیازی منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے''
امریکی آئی ٹی کمپنیوں کا عزم
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں قدامت پسندوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کھرب پرتی بزنس مین اسلام اور مسلمان مخالف امریکی باشندوں کی بھی پسند ٹھہرے جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیانات دیے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ جائزوں کے مطابق نصف سے زاید امریکیوں نے ڈونلڈ کے اس بیان کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح نومنتخب صدر نے امریکی مسلمانوں پر نگاہ رکھنے کی غرض سے ان کا علیٰحدہ اندراج کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ یہ صریحاً مسلمان امریکی شہریوں کے خلاف امتیازی اقدام ہوتا۔



اس تجویز کے خلاف مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر سلیکون ویلی میں قائم مختلف آئی ٹی کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین نے، انفرادی حیثیت میں ایک آن لائن عہد نامے پر دستخط کیے تھے کہ اگر ان سے ' مسلم رجسٹری' کی تیاری پر کام کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ انکار کردیں گے۔

امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے بیان کی طرح، انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بہ ظاہر یہ تجویز بھی واپس لے لی تھی، مگر نومنتخب صدر کی کابینہ کے ممکنہ رکن کے ہاتھوں میں ایسی فائلیں دیکھی گئی ہیں جن کے عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر نظر رکھنے اور ان سے پوچھ گچھ کے منصوبوں پر مبنی ہیں۔ مذکورہ رکن کی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں ان کے ہاتھ میں موجود فائلوں کے عنوانات نظر آرہے ہیں۔

مذہب کی بنیاد پر اندراج کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے ہزاروں آئی ٹی کے ماہرین پہلے ہی ایسے کسی منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں، اور اب مائیکروسوفٹ، آئی بی ایم سمیت کئی بڑی آئی ٹی کمپنیوں نے بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق سے متعلق منصوبوں پر کام نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ چند روز قبل ٹیکنالوجی کمپنیوں کے کرتا دھرتا افراد نے نیویارک میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ یہ اعلان اس ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ مائیکروسوفٹ کے ترجمان نے اس ضمن میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،''ہماری اقدار بہت واضح ہیں جن میں کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک کی حمایت کی گنجائش نہیں۔ اسی لیے ہم امریکی مسلمانوں کے علیٰحدہ اندراج یا الگ ڈیٹا تیار کرنے میں کوئی تعاون نہیں کریں گے۔''

مائیکروسوفٹ کی طرح آئی بی ایم نے بھی اس منصوبے پر کام نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ کمپیوٹر ساز کمپنی کے ترجمان نے ادارے کا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے کہا،''نسل، جنس، اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے بھی خلاف تفریق کی مخالفت ہماری کمپنی کی پالیسی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔