ایک بدلے ہوئے نواز شریف
1964ء کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو منصوبہ بند شکست دی گئی۔۔۔
ضلع چکوال میں چوا سیدن شاہ کے قریب نو سو برس پرانا تاریخی کتاس راج مندر ہے، جو ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ یہ کئی مندروں کا مجموعہ ہے جو اب سے 900 برس پہلے تعمیر ہوئے تھے۔ ان میں سے کئی کو وقت کی دیمک کھا گئی اور کئی اب بھی اپنی جگہ کھڑے ہیں اور ہماری بے اعتنائی پر شکوہ کناں ہیں۔
اس علاقے کے بارے میں ہندو دیومالا یہ کہتی ہے کہ یہاں شیو دیوتا کی پیدائش ہوئی تھی، شیو نے ساری زندگی وہیں گزاری اور جب اس کی چہیتی پتنی جان سے گزر گئی تو اپنی شریک حیات کی جدائی پر شیو دیوتا نے اتنے آنسو بہائے کہ ان آنسوؤں سے وہاں 2 بڑے اور گہرے تالاب بن گئے۔کہا جاتا ہے کہ بڑے تالاب کی گہرائی 200 فٹ سے زیادہ ہے۔ اسے بلندی سے دیکھیں تو یہ انسانی آنکھ سے مشابہہ نظر آتا ہے۔
ضلع چکوال کا یہی کتاس راج مندر تھا جہاں چند دنوں پہلے کھڑے ہوکر وزیراعظم نواز شریف نے یہ اعلان کیا کہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں، پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے وزیراعظم ہیں۔ ان کی یہ تقریر بہت سے حلقوں میں حیرت سے سنی گئی۔ کچھ حلقوں سے اعتراض بھی ہوا۔
معترضین کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے، وہاں 3 فیصد کی تعداد میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو یوں مخاطب کرنے یا پاکستان کے جغرافیے میں واقع مندروں، گردواروں، گرجاگھروں اور دوسری عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کے لیے وزیراعظم کی طرف سے سرگرمی دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ معترضین اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان کے لیے جب ووٹ ڈالے جارہے تھے تو مغربی علاقے میں رہنے والے غیر مسلموں نے اس کے حق میں ووٹ دیے تھے اور بانی پاکستان نے یہاں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں، پارسیوں، یہودیوں، بہائیوں اور دوسرے غیر مسلم گروہوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کی عبادت گاہیں یہاں محفوظ رہیں گی، وہ یہاں آزادانہ اپنی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے اور انھیں پاکستان کے مسلمان شہریوں کی طرح روزگار اور تجارت کی سہولتیں حاصل ہوں گی۔ ان کی جان، مال اور عزت کی ذمے دار حکومت ہوگی۔
11 اگست 1947ء میں آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے اس بات پر اصرار کیا تھا اور پاکستان کی پہلی کابینہ میں جوگندر ناتھ منڈل، کرن شنکر رائے اور سرظفر اللہ خان شامل کیے گئے تھے۔
70 برس بعد میاں صاحب کی جنوری 2017ء کی جس تقریر پر بعض حلقوں کی طرف سے اعتراض ہوا اسے پڑھتے ہوئے، احمد سلیم کی کتاب 'پاکستان اور اقلیتیں' یاد آتی ہے، جس میں انھوں نے مختلف افراد کی تحریروں اور تقریروں کے حوالے دیتے ہوئے تقسیم کے فوراً بعد ہونے والے بلووں کا حوالہ دیا اور لکھا ہے کہ: قائداعظم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تقسیم نئی مملکت کے عوام کی زندگیوں کو کس حد تک اور کس بری طرح متاثر کرے گی۔ اس صورت حال سے وہ انتہائی دلبرداشتہ اور دکھی تھے اور ان کی زندگی کے آخری دنوں کا سب سے بڑا مشن یہی رہ گیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کی جاسکے۔ وہ اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کا رہنما سمجھنے کے بجائے تمام پاکستانی عوام کا رہنما قرار دینے پر اصرار کرتے تھے۔
اس بات کا ثبوت کہ وہ صرف مسلمانوں کے رہنما نہیں ہیں، انھوں نے قیام پاکستان کے دو روز کے اندر اندر دے دیا۔ 17 اگست کا دن پاکستان کا پہلا اتوار تھا۔ اس دن انگلستانی کلیسا کے آرچ ڈیکن (Archdeacon) نے کراچی کے گرجا گھر میں نماز شکرانہ کا اہتمام کیا۔ نماز کے لیے آرچ ڈیکن نے ایک خاص دعا لکھی جس میں مسٹر جناح کا بھی ذکر تھا۔ قائداعظم کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے بھی سربراہ مملکت کی حیثیت سے اس نماز میں شرکت کی اجازت چاہی۔
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ولفیڈرسل لکھتے ہیں: ''جناح خوب جانتے تھے کہ ان کے معتقدوں میں بہت سے کٹر اور جوشیلے مسلمان ہیں جو مسیحیوں کی اس دلجوئی سے خوش نہ ہوں گے، مگر انھوں نے دیدہ و دانستہ یہ سیاسی خطرہ مول لیا''۔
اس تقریب میں ان کی بہن اور سیاسی رفیق محترمہ فاطمہ جناح نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ سروس جو پاکستان کی مضبوطی اور خوشحالی کے نام منسوب کی گئی تھی، اس کے اختتام پر قائداعظم نے مسیحی عوام کے سامنے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔
اس پس منظر میں دیکھئے تو میاں نواز شریف کی کتاس راج میں کی جانے والی تقریر بانی پاکستان کے خیالات کا تسلسل ہے۔ اس پر بعض حلقے حیران ہیں اور معترض بھی۔ بات اتنی سی ہے کہ ہمارے یہاں نصاب میں قیام پاکستان کی سچی تاریخ شامل نہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو یہ نہیں معلوم کہ پاکستانی پرچم میں سفید پٹی دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ ہی اس میں اقلیتیں بھی موجود ہیں۔ یہ پرچم اس وقت بنا تھا جب مشرقی پاکستان بھی ہمارے وجود کا حصہ تھا جہاں ہندوؤں کی ایک قابل ذکر تعداد رہتی تھی اور اس کی موجودگی کی وجہ سے یہ سفید پٹی اب سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔
پاکستان ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ ہمارے یہاں اگر ابتدا سے جمہوری روایات پر عمل ہوتا تو گزشتہ 70 برسوں میں جمہوری اقدار اور اصول ہماری سیاست میں راسخ ہوچکے ہوتے لیکن افسوس کہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ 1948 سے ہی ہماری سیاست میں جمہوری روایات کا عمل دخل کم ہوتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم ایک نام نہاد جمہوریہ بن گئے۔
ہمارے یہاں فوجی آمریتوں اور قدامت پسندی نے اس طرح اپنے پنجے گاڑے کہ جمہوریت نے جب بھی سر اٹھانے کی کوشش کی، اسے کچل دیا گیا۔ اس کے سب سے المناک مظاہر کا جائزہ لیا جائے تو 1964ء کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو منصوبہ بند شکست دی گئی، 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کی تاریخی کامیابی کے باوجود انھیں اقتدار منتقل کرنے کے بجائے کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا اور پھر یہ ہوا کہ وہ بنگالی جن کے ووٹوں کی قوت سے پاکستان وجود میں آیا تھا، وہی غدار وطن ٹھہرے، پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص سولی پر چڑھا دیا گیا جو ہندوستان کی قید سے 90 ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لایا تھا۔
اسی طرح جس وزیراعظم نے ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کیا، اسے موت کی سزا دلوانے کی کوشش کی گئی، تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور جبری طور پر جلاوطن کردیا گیا۔ پاکستان کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز دلانے والی بہادر عورت کو پہلے جلاوطن ہونے پر مجبور کیا گیا اور وطن واپسی پر اسے دہشت گرد حملے کا نشانہ بنوا دیا گیا۔1977ء سے 2008 ء تک وقفے وقفے سے جب بھی جمہوریت نے آمریت کے گدلے نالے سے سر نکالنے اور سانس لینے کی کوشش کی، اسے بوٹوں کی ٹھوکروں سے واپس گدلے نالے میں دھکیل دیا گیا۔
یہ عوام کی خوش بختی ہے کہ 2008ء سے 2017ء تک روتے پیٹتے 2 منتخب حکومتوں نے اپنی مدت تقریباً مکمل کرلی ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ اس دوران نام نہاد جمہوریت پسندوں کا ایک بہت طاقتور طبقہ پروان چڑھ چکا ہے جو ملکی سیاست کے وجود سے جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے اور انتہا پسندی، تنگ نظری اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش ہے۔
قوموں کی برادری میں پاکستان کو اگر ایک روادار، روشن خیال اور دوسرے مذاہب کا حقیقی احترام کرنے والے اور اپنی اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے والے ملک کی طرح ابھر کر آنا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایسے ہی سیاسی رہنماؤں کی ضرورت ہے جو یہ سمجھیں کہ ملک میں تمام مذاہب اور فرقوں کی ایکتا ہی ملک کے وقار، اس کی سربلندی اور اس کی ترقی کے لیے لازم ہے۔ میدان سیاست میں طویل عرصہ گزارنے والے میاں نواز شریف اب ایک بدلے ہوئے انسان ہیں۔ ہم امید کرسکتے ہیں کہ ان کی یہ کایا کلپ ملک کو ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جائے گی۔