عالمی گاؤں اور بیگانگی پہلاحصہ

شاید اسی لیے اقوام عالم اپنی تاریخی غلطیوں اور عظمتوں کے افسانے بیان کرتے ہوئے ملتی ہیں۔۔۔



غیر تحریری قانون: جدید دور کی تیز ترین ترقی وایجادات کے باعث آج کرۂ ارض کی وسعتیں سمٹ چکی ہیں اور دنیا عالمی گاؤں کی سی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس گاؤں کے مکینوں (قوموں) نے اپنی بقائے حیات کے جو جدید ترقی یافتہ معیار رائج کیے ہوئے ہیں، ان سے انسان کا موجودہ ارتقائی مرحلہ مضحکہ خیز صورت حال کا غماز بنا ہوا ہے۔ ان معیاروں کے حتمی ولازمی نتائج کے طور دکھ، تکلیف، خوشی جیسے لطیف احساسات کے ساتھ ساتھ اعصاب شکن جدید مسائل انفرادی وعلاقائی نہیں رہے۔ انفرادی طور پر اپنے یا اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ترتیب دیا جانے والا لائحہ عمل ہو یا قومی سطح پر ہونے والے فیصلے ہوں، وہ اس عالمی گاؤں کے کسی نہ کسی محلہ (ملک) کے مخالف وموافق حالات، مفادات وتجربات کی حاصلات کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو سامنے رکھ کر کیے جانے لگے ہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود موجودہ ترقی نے انفرادی سطح سے لے کر قومی سطح تک نگر نگر جس آپسی بیگانگی کا بیج بویا ہوا ہے، اسی ''شجر باکمال'' کے پھل نے لاتعلقی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ افراد واقوام کے سامنے ایک دوسرے کی ترقی وخوشحالی کو اس طرح ماڈل بناکر پیش کیا ہوا ہے کہ آج جذبۂ رقابت اپنی معراج کو چھونے لگا ہے۔ اس رقابت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے لاتعلق ہوچکے ہیں کہ سیکیورٹی سے بڑھ کر ہمیں اپنی پرائیویسی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس عالمی گاؤں میں رائج نظری طلسم ہوشربائی نے اسی بیگانگی کو ایسا روپ دے ڈالا ہے کہ اس گاؤں کا ہر ایک فرد ایک دوسرے کی زندگی میں سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کی وسیع النظری دکھانے میں سرگرداں ہے۔ شاید یہ سوچ اس لیے بھی مقبول ہونے لگی ہے تاکہ ان کی اپنی پرائیویسی کی حفاظت کی جانی ممکن بن سکے۔ بلاشبہ اس عالمی گاؤں کا مغربی حصہ اس سوچ کو اپنانے میں مشرقی حصے سے لگ بھگ پانچ چھ صدی کی مسافت جتنی ترقی اور جدید یت کو حاصل کیے ہوئے ہے۔ جہاں لوگوں کی زندگی میں آزاد خوشحالی کی فراہمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نظاروں کا زور مشرق کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ جب کہ وہاں فلیٹس وبنگلوںکے سامنے یا دائیں بائیں رہنے والوں کے نام تک سے ناوافقیت کا چھایا Fogg اسی پرائیویسی کا مرہون منت رہتا آیا ہے۔ مکان تو وہاں اب رہے نہیں ہیں، اسی لیے اس عالمی گاؤںکے مشرقی حصے میں بھی فلیٹس یا بنگلوں کی حاصلات کی سوچ کو تقویت دی جانے لگی ہے جو کہ اس ترقی یافتہ جدید عالمی گاؤں کا پہلا غیر تحریری و متفقہ قانون تصور کیا جانے لگا ہے۔

جدید زندان خانہ: بڑا ہی دلکش نظریہ ہے جو عالم انسانیت نے اپنی تاریخ کی روشنی میں نہ صرف مرتب کیا ہوا ہے، بلکہ اس پر سچائی اور دیانت داری سے اس طرح عمل کیا ہے کہ آج کرۂ ارض کے بہت سارے حصے (ممالک) میں مغربی ترقی و جدیدیت کا دور دورا ہے۔ جس سے حیرت انگیز طور پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس عالمی گاؤں کی پرتعیش زندگی کو اپنانے کے لیے اپنے قدیم وتاریخی محلوں (ملکوں) سے بیگانگی کو اپنانا ضروری بن جاتا ہے۔ شاید اسی لیے ریاستیں اس عالمی گاؤں کے قوانین کے آگے بے اثر ہوتی ہوئی دکھائی دی جانی لگی ہیں۔ اعلانا ت وارسائی و باالفور کے تسلسل میں حالیہ امریکی انتخابات اس کی سمجھ میں آنے والی مثالیں ہیں۔ مزیدار پہلو یہ کہ اس عالمی گاؤں کی تمدنی زندگی کا عملی خاکہ کچھ اس طرح بنتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے کہ اس گاؤں میں چھائی بیگانگی کا باضابطہ اعلان بچے اپنی اٹھارہ سال کی عمر کا احساس دلانے سے اور والدین اپنی باقی زندگی اولڈ ایج ہوم میں گزارنے کے منصوبے بنانے اور اولڈ ایج ہوم میں سہولیات زندگی کی اصلاح وترقی کے نکات پر بحث کرنے سے کرتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ حضرت انسان کی زندہ دلی اور وسیع النظری پر مبنی حکمت عملی تو ملاحظہ فرمائیے کہ اولڈ ایج ہوم بنائے ہی اس لیے گئے ہیں تاکہ لوگ اپنی پرائیویسی پر مبنی زندگی کی غلطیوں وخامیوں کو اور اپنے گھر سے اس اولڈ ایج ہوم کے زندان خانے میں پہنچنے تک کی تاریخ بیان کرنے میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزار سکیں۔

نیا نصاب: اس عالمی گاؤں کے فکری وتعلیمی شعبے کے سربراہ جیسے ترجمان اسٹیفن ہاکنگ کی جانب سے اس گاؤں کے مکینوں کو کرۂ ارض پر ہانگ کانگ، لاس ویگاس، اورلینڈو اور دبئی جیسی ''پرتعیش محفلوں'' کی فخریہ پیش کش کے بعد فلکی اجسام پر نئے محلے بنا کر دینے کے اعلان کو یہ کہہ کر موخر کردیا ہے کہ ''فلکی اجسام پر منتقل ہونے کے لیے سو سال بھی لگ سکتے ہیں اور ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اس لیے اس گاؤں میں جدیدیت پر مبنی یکسانیت کو اپنایا جائے۔'' ان صاحب کے اس طرح کے فرمان کی روشنی میں ساری دنیا اب ایک اولڈ ایج ہوم بنی ہوئی نظر آنے لگی ہے، جہاں سے نکلنے کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں وقت درکار ہے۔

شاید اسی لیے اقوام عالم اپنی تاریخی غلطیوں اور عظمتوں کے افسانے بیان کرتے ہوئے ملتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے اکثر اب اپنی تاریخ سے منحرف ہوکر اس عالمی گاؤں کے جدید تمدنی قوانین کو بخوشی اپناتے جارہے ہیں، جس سے یہ منظر واضح ہوا چاہتا ہے کہ اب وہ اپنی تاریخی غلطیوں کو دہرا تو سکتے ہیں لیکن اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے قانونی حق سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ جس کے اقرارمیں اب وہ اس عالمی گاؤں کی ترقی یافتہ جدیدیت کے رنگ میں رنگتے ہی جارہے ہیں اور اپنے قدیم محلوں (یعنی اپنے جدی پشتی ملکوں اور تہذیبوں) سے بیگانگی اختیار کرتے جدید محلوں (جدید و مغربی ممالک) کی جانب نقل مکانی کرنے میں جتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ ان کی اس طرح کی نقل مکانی کی داستان کا ابتدائیہ پاناما لیکس کے نام سے شائع بھی کیا جاچکا ہے۔ مزیدار بات کہ اس بتدائیے کی قسطوں پر مشتمل کتابیں اس عالمی گاؤں میں نئے نصاب کے طور جلد ہی جاری کیے جانے کے امکانات بھی پائے جانے لگے ہیں۔

اہل دانش اور تکون حصہ: معروضی حالات کے جدید امکانات کی روشنی میں تاریخ کا ایک طالب علم یہ سمجھنے میں حق بجانب قرار دیا جائے گا کہ یہ نصاب عالمی گاؤں کے صرف اس حصے کے محلوں میں رائج کیا جانے لگا ہے جو ایک طرف مصر اور قدیم فارس سے ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیتے ہوئے چین تک ایک تکون کی شکل پر مشتمل ہے۔ یہ تکون حصہ اس عالمی گاؤں میں حضرت انسان کی غلطیوں وعظمتوں کی عظیم داستانوں کی قدیم ترین یادگیریوں کے تاریخی ثبوتوں پر مشتمل حصہ ہے۔ زمین کا یہ حصہ جدید ترقی یافتہ ارتقائی دور میں پہنچنے کے لیے ایندھن کی فراہمی کا سب سے اہم اور بنیادی کام سرانجام دیتا آیا ہے، جو موجودہ ارتقائی مرحلے پر بھی جدید وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے ہر ایک ارتقائی مرحلے پر اس کی عظمتوں کو بیان کرتی عظیم الجثہ عمارتوں کا مرکز بھی ہے۔ اس تکون حصے کا ہر ایک محلہ (تہذیب یا قوم) اپنی جداگانہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں ان میں سے بعض اپنی عظمتوں کے گواہ ہیں اور بعض ''من ترا حاجی بگویم، تو مرا غازی بگو'' کی عملی مثال بنے ہوئے ہیں۔ عالمی گاؤں کے اس حصے کے مکینوں (ممالک) کے مابین غیرضروری تنازعات اور ان کی روشنی میں عالمی گاؤں کے ترقی یافتہ حصے کو ہونے والے نقصانات وفوائد کی عملی داستان آج بھی زمین کے اس تکون حصے کی مرکزیت کو ظاہر کرتی ہے۔

بلاشبہ اس تکون حصے پر عالمی گاؤں کے جدید قوانین انتہائی تیز رفتاری سے مروج کیے جانے لگے ہیں۔ بلاشبہ ان قوانین نے کرۂ ارض کے انگریزی کے لفظ C کے زمینی حصے پر اپنا اطلاق مکمل کرلیا ہوا ہے۔ بلاشبہ ان قوانین کا اطلاق ہی آخری معرکہ قرار پایا جاچکا ہے۔ بلاشبہ ان قوانین میں ترمیم واضافے کا حق بھی تکون حصے کے مکینوں کے پاس ہی ہے، اس لیے ضروری بن جاتا ہے کہ عالم انسانیت کو دعوت فکر دی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے خطرناک وہیبت ناک ارتقائی دور میں داخل ہورہے ہیں۔ انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان قوانین کا اطلاق کون اور کیوں کروا رہا ہے؟ اور ان قوانین کے اطلاق میں تکون کے نشان میں ایک آنکھ سے نظارہ دیکھنے والا ڈالر کون سا کام سرانجام دیتا آیا ہے؟ خوش حالی اور آزادی کے اس عالمی گاؤں کی تھانہ داری میں ظلم وجبر کی عظیم الشان علامت اہرام کی شکل رکھنے والے ڈالر کی عملداری کن کے پاس ہے؟ تب یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس عالمی گاؤں میں ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس جدید، عقلی وشعوری دور میں کیا اتنے سارے غور طلب تاریخی پہلوؤں سے بیگانگی اختیار کیے رکھنا صاحب عقل و دانش حضرات کے حضور ممکن ہوسکے گا؟

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔