احتجاج کی جنت
حکمرانوں کی نفسیات میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل پڑے تو کہیں ان کی بھی باری نہ آجائے۔۔۔
آپ کسی بھی دن مثلاً 4 جنوری کی ہی مثال لے لیجیے، اس روز کراچی کو پورے ملک سے ملانے والی سپر ہائی وے پہ سہراب گوٹھ سے آگے ہائی وے پہ کئی میل تک اور سہراب گوٹھ کی دوسری جانب شہر کی طرف شارع پاکستان پر بھی کئی میل تک کئی گھنٹے بدترین ٹریفک جام رہا اور سیکڑوں مسافر اور مال بردار گاڑیوں میں ٹھنسے ہزاروں لوگ ناگہانی اذیت سے گزرتے اپنی جانوں کو روتے رہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب سرکاری عملے نے سہراب گوٹھ کے قریب اندرون ملک جانے والی بسوں کے ایک اڈے پہ قائم تجاوزات کو ہٹانے کی کوشش کی تو ٹرانسپورٹ مافیا کے کارندوں نے گاڑیاں سڑک پہ کھڑی کرکے ٹریفک بلاک کردیا۔ پھر کیا ہوا؟ اس مافیا کا ''احتجاج'' ارکان سے ''مذاکرات'' کیے اور بالآخر معاملہ ''افہام و تفہیم'' کے ساتھ ختم ہوگیا، مگر سیکڑوں گاڑیوں میں پھنسے ہزاروں لوگوں کو اس ''احتجاج'' سے ہونے والی ٹریفک جام سے نکلنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ ادھر اسی روز لاہور کے شہریوں پہ شہر کے رستے بند تھے۔ برکت مارکیٹ، گارڈن ٹاؤن سے لے کر صدیق سینٹر گلبرگ تک جگہ جگہ کنٹینر لگے ہوئے تھے۔ سڑکیں، انڈر پاس، فلائی اوور سب ہی کچھ لوگوں پہ بند تھا، یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کو بھی گزرنے نہیں دیا گیا، شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے گڈ گورننس کے مزے لوٹتے رہے۔ کیوں؟ ،دو مختلف خیالات رکھنے والے گروہوں میں اختلافات کا مسئلہ تھا،سزا مگر ملی لاہور کے ہزاروں لوگوں کو کہ سارا دن ٹریفک جام میں رُلتے پھرے۔
اور یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں، سڑکوں پہ احتجاج روز کا معمول ہے، مذہبی و سیاسی گروہ، لسانی و فرقہ وارانہ تنظیمیں، ٹرانسپورٹ مافیا، لینڈ مافیا، واٹر ٹینکر مافیا، ناجائز پارکنگ مافیا، بجلی چور، بھتہ خور، چائنا کٹنگ ایکسپرٹس، چوری کے موبائل فون بیچنے والے دکاندار، زہریلا دودھ اور ملاوٹ زدہ کھانے، دوائیاں بیچنے والے، مختلف ملزمان و مجرمان کے لواحقین و حامی کبھی نہ ختم ہونے والی ڈیمانڈز رکھنے والے ینگ ڈاکٹرز، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ قبضہ جمانے والے یہاں تک کہ اسکول کے طلبا تک، جب چاہیں نہ صرف شہروں کی سڑکیں بلکہ ہائی وے اور مین ریلوے لائن تک جتنے گھنٹوں تک چاہیں، دھڑلے سے بند کردیتے ہیں۔ پھر انتظامیہ سے مذاکرات ہوتے ہیںاور اپنے مطالبات کی منظوری یا منظوری کی یقین دہانی پہ ہی یہ لوگ راستے کھولنے پہ آمادہ ہوتے ہیں۔
ابھی صرف 12 جنوری کو ہی ایک طرف ایک اسکول کے لڑکوں نے حافظ آباد میں بین الاضلع ہائی وے بند کردی تو دوسری طرف ایک اسکول کے لڑکے راولپنڈی میں مری روڈ بند کیے بیٹھے تھے۔ سب کو ''احتجاج'' کی آزادی ہے۔ لال بجھکڑ دانشور ہمیں سمجھاتے ہیں کہ احتجاج لوگوں کا جمہوری حق ہے۔ جناب اپنے رزق و روزگار، دوا، علاج، تعلیم و تفریح کے راستوں کی آزادی تو جمہوری حق سے بھی بڑھ کر لوگوں کا انسانی حق ہے اور چونکہ جمہوریت میں اہمیت اکثریت کی ہوتی ہے تو پھر چند درجن یا چند سو لوگوں کے جمہوری حق کے پیچھے آپ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ان کے انسانی حق سے کیسے محروم کرسکتے ہیں؟ ویسے احتجاج کا یہ جمہوری حق اگر کراچی یا لاہور میں وزیراعلیٰ ہاؤس یا بلاول ہاؤس یا رائے ونڈ پیلس کا رخ کرے تو کئی کلومیٹر دور ہی مار کھاکے سیدھا ہوجاتا ہے۔ یعنی حکمران چاہیں تو اس طرح کے احتجاج ہونے ہی نہ دیں، پھر یہ انھیں روکتے کیوں نہیں؟ دو وجوہات کی بنا پر۔ نمبر ایک میڈیا، جہاں پولیس ہزاروں انسانوں کو اذیت میں مبتلا کرنے والے چند درجن لوگوں پہ ڈنڈے برساتی ہے، میڈیا کے رپورٹرز پولیس کے اس ''ظلم'' پہ کہرام برپا کردیتے ہیں، چنانچہ میڈیا کا خوف ان احتجاجیوں کے خلاف ایکشن نہیں ہونے دیتا۔ نمبر دو، روایتی طور پر ہمارا حکمران طبقہ نااہل لوگوں کی برطرفی اور استعفے اور مجرموں کو سزائیں دینے کے خلاف ہے۔
غالباً حکمرانوں کی نفسیات میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل پڑے تو کہیں ان کی بھی باری نہ آجائے۔ مثلاً آپ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاج کو لے لیں۔ اس ''احتجاج'' میں ملک بھر میں تقریباً 100 بینک، 34 پٹرول پمپس، 63 ریلوے اسٹیشن، 149 بوگیاں، 29 ریلوے انجن جلائے گئے، اس کے علاوہ سیکڑوں فیکٹریاں، دکانیں، میونسپل آفس، پولیس اسٹیشن، اسکول، ٹیلی فون ایکسچینج، لائبریریاں، فن لینڈ پارکس، نجی آفس لوٹے اور جلائے گئے، سندھ میں سوگواران کی خصوصی توجہ بینکوں اور اے ٹی ایم لوٹنے پہ تھی۔ پورے ملک میں ہنگامہ آرائی سے ہونے والا نقصان ملکی جی ڈی پی کے 8 فیصد تک پہنچ گیا، صرف کراچی میں تقریباً ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ مثلاً آپ 21 ستمبر 2012 کو جمعہ کے دن ہونے والے ''احتجاج'' کو لے لیں، اس روز 23 افراد ہلاک کیے گئے، 200 سے زائد زخمی ہوئے، دکانیں، سینما گھر، پولیس کی چوکیاں، نجی و سرکاری گاڑیاں جلائی گئیں، نجی و سرکاری املاک لوٹی اور جلائی گئی۔ اس روز پشاور، اسلام آباد، لاہور، کراچی کی سڑکوں پر احتجاجیوں کا راج تھا جو چاہے کریں، جیسے چاہیں احتجاج کریں۔ اور آپ 15 مارچ 2015 کو لاہور میں گرجا گھروں پہ بم دھماکوں کے بعد ہونے والے احتجاج کو لے لیں، جس کے دوران یوحنا آباد میں ''احتجاجیوں'' نے دو بے گناہ انسانوں کو پوری آزادی کے ساتھ زندہ جلانے کے بعد ان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی۔
ان تمام احتجاجوں میں ملوث کتنے فسادیوں کو عبرتناک سزا ملی؟ کتنے قاتل پھانسی پہ چھڑے؟ 2007 میں پاکستان پہ جنرل پرویز مشرف، 2012 میں آصف زرداری اور 2015 میں نواز شریف کی حکومت تھی، ان تین مختلف حکومتوں کا احتجاج کی انسان دشمن آزادی کیلیے انداز فکر یکساں رہا۔ حالیہ برسوں کے ان تین بڑے خونی احتجاجوں پہ حکمران طبقے کی تائیدی خاموشی نے اس ملک میں شرپسند اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اور گروہوں کو یقین دلادیا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں چند لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج کے نام پر جو چاہیں کرسکتے ہیں، جیسے چاہیں ہزاروں لوگوں کے راستے بند کرکے انھیں یرغمال بناسکتے ہیں، بس شرط اتنی ہے کہ حکمران طبقہ ڈسٹرب نہ ہو۔ یہ احتجاج یوں ہی ہماری زندگیاں اجیرن کر رکھیںگے کیونکہ ہمارا حکمران طبقہ اپنا انداز حکمرانی بدل نہیں سکتا اور ہم اپنا حکمران طبقہ نہیں بدل سکتے۔