سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے تحریک طالبان سے سیز فائر کا امکان مسترد کردیا

مذاکرات کی مشروط پیشکش کا مقصد ایسے وقت پر اخلاقی حمایت کی راہ ہموارکرنا ہے


Kamran Yousuf December 31, 2012
طالبان کا یہ اقدام فوجی آپریشن کی حمایت میں رائے عامہ تقسیم کرنا ہے، حتمی فیصلہ حکومت کریگی لیکن فی الوقت ہماری پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی، اعلیٰ فوجی افسر فوٹو: اے ایف پی/فائل

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ سیزفائر کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی مشروط پیشکش کا مقصد بظاہر ایسے وقت پر اخلاقی حمایت کی راہ ہموارکرنا ہے جبکہ عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے خلاف قومی اتفاق رائے ابھر کر سامنے ا ٓرہا ہے۔

ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہمیں طالبان کی پیشکش پر ڈگمگانا نہیں چاہیے۔ عسکریت پسندوں کو ایک اور فوجی آپریشن کا ڈر ہے، اس لیے بچائو کی پیشگی تدبیر کے طور سیز فائر کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس افسر نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر کامیاب فوجی کارروائی سے انھیں کافی ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ اس کے علاوہ ملالہ یوسفزئی اور بشیر بلور پر حملوں کے بعد بھی طالبان دفاعی پوزیشن میں چلے گئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے وقت انچارج رہنے والے اس فوجی افسر نے بتایا کہ تحریک طالبان کے کئی عسکریت پسند ممکنہ فوجی آپریشن سے بچنے کیلیے قبائلی علاقوں سے فرار ہو کر سیٹلڈ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ اس تناظر میں طالبان کا یہ اقدام فوجی آپریشن کی حمایت میں رائے عامہ تقسیم کرنا ہے۔ اگرچہ حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے لیکن فی الوقت فوج کا اپنی کارروائیاں ترک کرنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ ابھی تک ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

04

ایکسپریس ٹریبیون کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں فوجی کمانڈر اگلے ماہ ایک اجلاس میں طالبان کی پیشکش کا جائزہ لیں گے۔ حکومت پہلے ہی طالبان کی پیشکش مسترد کر چکی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ حکومت طالبان کی طرف سے کوئی شرائط قبول نہیں کرے گی کیونکہ طالبان اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف تجزیہ نگار بھی طالبان کی پیشکش پر محتاط نظر آتے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ نگار فدا حسین نے کہا کہ تحریک طالبان اپنی پیشکش کے ذریعے پاکستان میں وہی مقام چاہتی ہے جو افغان طالبان کا افغانستان میں ہے لیکن پاکستان افغانستان نہیں جہاں طالبان غیر ملکی فورسز کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے چند روز قبل ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ طالبان حکومت سے مذاکرات پر تیار ہیں لیکن اس کیلیے شرط یہ ہے کہ ملک کا آئین اسلامی شریعت سے ہم آہنگ کیا جائے، امریکا کے ساتھ اتحاد توڑا جائے، افغانستان میں مداخلت ختم کر کے توجہ بھارت پر مرکوز کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں