گزرا ہوا سال اور ہم

مسلمانیت کے عشق میں ڈوب کر ہم خطیر سرمائے سے بڑی بڑی عالیشان مساجد اور مدرسے تعمیرکرچکے ہیں


قمر عباس نقوی January 17, 2017

گوکہ 2017 کے نئے سال کا سورج طلوع ہوئے چند ایام کا قلیل سا عرصہ ہوا چاہتا ہے ۔کف افسوس ! حسب معمول روایات کے پس منظر میں 2016 کا قیمتی سال بارہ ماہ کا کٹھن سفر طے کرنے کے بعد اپنی منزل مقصود کو پہنچا جو تاریخ کی دنیا میں محض ماضی قریب کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم اگر مجموعی طور پرگزشتہ سال کا احتسابی نظرسے جائزہ لیں توہمیں ملک وقوم کی ترقی کی شکل میں مثبت پیش رفت نظر نہیں آتی، وہی مہارت اوردیدہ دلیری سے اسلامی نام نہاد جمہوری نظریاتی ریاست میں ادارہ جاتی لوٹ مار،کرپشن ہنوز بدستورجاری وساری ہے۔

پیش رفت کی تو بات چھوڑیے، نہایت غم والم کا مقام ہے کہ ہمارے معا شرے کا روایتی کلچر بن چکا ہے کہ کسی بھی خوشی کے مو قعے کا بے ہنگم طریقے سے آغاز کیا جائے جس کا خمیازہ ہمیں پورے سال بھگتنا پڑتا ہے۔ حسب معمول گزشتہ سالو ں کی طرح امسال بھی دونوں سالوں کے سنگم پر اندھا دھند ہوائی فائرنگ اور آتش گیر مادے سے تیار شدہ دھماکے کا سلسلہ جو رات گئے تک جاری رہا۔ قانون یا اخلاقیات کی بالادستی کہیں نظر نہیں آتی ۔اندھے اور جنگل کے قانون کا راج ہے۔کہتے ہیں قانون اندھا نہیں ہوتا۔ شہری علاقو ں جہاں ْقدم قدم پر نمازیوں سے بھری مساجدکی بھر مار ہو، وہاں قبائلی اور ہندوانہ روایتی جاہلانہ کلچر کی آمد ملک کے ہر ذی شعور شہری کے لیے قابل حیرت بھی ہے اور باعث تشویش بھی۔ اسلحہ ،کارتوس اور اسی قسم کا خطرنا ک آتش گیر مادہ مفت میں تو حا صل نہیں کیا ہوگا، ان کے حصول کے لیے یقیناً کثیرمقدار میں نقد سرمایہ ضرورخرچ ہوا ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ریاست میں جہا ں معاشی طور پرغریب اور افلاس زدہ خاموش تماشائی رعایا نما عوام روٹی،کپڑا، مکان اور تعلیم جیسی بنیادی حقوق کی پاداش میں ہائے ہائے کا بین کررہی ہو وہاں لوگوں کے پاس بے دریغ وسائل وذرایع کہاں سے آئے؟ جو امن پسند شہریوں کے سکون کو اجاڑنے کا باعث بنے اوران کو یہ حق کس نے دیا ؟ پس اس اہم قابل غورنقطے پر تحقیقات کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

2016کا سال ہمارے نا کردہ اخروی اعمال اور دنیاوی کارکردگی ہمارے سامنے رکھ کر رخصت ہوا مگر ایک ہم ہیں کہ سمجھ وبوجھ سے قطعاً عاری ہیں ۔یہ سب کچھ کہاں ہورہا ہے؟ جی ہاں ! دنیا کی سب سے بڑی قدرتی وسائل سے مالا مال ایٹمی اسلامی جمہوری اور نظریاتی ریا ست''اسلامی جمہوریہ پاکستان ''میں جہاں کی اٹھانوے فیصد خالصتاً آبادی صرف اور صرف مسلمانوں کی ہے۔ بڑے افسو س کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ مجموعی طور پر ہم اس قلعہ نما اسلامی ریاست میں صرف مسلمان ہی بن پائے ہیں،انسان نہ بن سکے،اچھے اور بری صفت بعدکی بات ہے۔

مسلمانیت کے عشق میں ڈوب کر ہم خطیر سرمائے سے بڑی بڑی عالیشان مساجد اور مدرسے تعمیرکرچکے ہیں اور مزیدکرنے ہیں ۔ نمازیوں کی تعداد میں بھی روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، رمضان کے مہینے کے تین عشروں کے فرض روزے، رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا عمل، تراویح کی ادائیگی کے ذریعے ہم اپنے گناہو ں کی بخشش کے متلاشی بھی رہتے ہیں۔ حج اورعمرہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ہم مکہ اور مدینہ جانے کی دلی آرزو بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں، عید بھی نہایت عقیدت اور جوش وخروش سے مناتے ہیں، قربانی کے جانوروں کی گلی محلو ں میں نمودونمائش کے ساتھ ساتھ قربانی کے گوشت سے تکہ پارٹیو ں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ محرم اور صفرکے مہینوں میں چٹ پٹی مصالحہ داردعوت مغلئی حلیم کی بڑی بڑی پارٹیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان دعوت دینی تبلیغ اور بڑے بڑے دینی روح پروراجتماعات میں بھی مصروف رہتے ہیںِ ، ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ نعت خوان، قاری اور حافظ قرآن بھی بنا تے ہیں، میلادکی محفلیں سجانے اور قوالی کا اہتمام کرنے میں بھی ہم کسی سے کم نہیں، داڑھی چھوٹی ہونی چاہیے یا بڑی لاحاصل بحث ومباحثے میں مبتلا رہتے ہیں ، یہ ہیں ہمارے پورے سال کی مصروفیات۔ فروعی اختلافات کے تحت فرقوں میں تقسیم ہوکر ہم ہی تو ہیں جو اپنے ہی مسلمان بھائی پرکفرکے فتوے لگاتے نہیں تھکتے، ہم اپنا ظاہری حلیہ اور بودوباش بھی تقویٰ وپرہیز گاری والا رکھتے ہیں، ثواب کے زیادہ سے زیادہ حصول کے چکر میں ہم صحت مند پیشہ ورکاروباری فقیروںکو خیرات دیکر ان کو ہڈ حرام اورکام چور بناتے ہیں۔

ان تمام خوبیوں کے باوجود ہم دنیا میں دہشت گرد مشہورہیں، تعلیم یافتہ ہیں مگر تربیت سے محروم ہیں۔کسی سیانے نے خوب کہا ہے ''تعلیم کی کمی کو اچھی تربیت بڑی خوبصورتی سے ڈھانپ لیتی ہے مگر تربیت کی کمی کے شگاف کو تعلیم کبھی بھی پر نہیں کرسکتی'' ادھر عالمی پس منظرنامے کے شفاف آئینے میں حلب شام، فلسطین، یمن، عراق، برما اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ہی قتل عام ایک عرصے سے بدستورجاری ہے۔ معا ف کیجیے! ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کے معاملات میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہیں ۔ اللہ کے عشق میں ہم حقوق العباد کا بتایا ہوا سبق تک بھول گئے، یہ تو میانہ روی نہ ہوئی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے سب سے پہلے مسلمان کا انسان ہونا بنیادی شرط ہے۔

ان تمام حقائق کے مد نظر ایک سوال جو ہمارے دل ود ماغ کو بے قرار کرتا ہے وہ ہے کہ کیا ہمیں شیطانیت سے پاک ،مہذب اورشائستگی کا درس بھی امریکا سے حاصل کرنا پڑے گا جہاںترقی یافتہ دنیا اپنے سال کا ایک ایک سیکنڈکا احتساب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے روزبروز ٹیکنالوجی میں ترقیاتی انقلابی جدت منظر عام پرآرہی ہے۔ نئے سال کا جوش وخروش سے استقبال حقیقتا ان ہی کا حق ہے ہمارا نہیں۔ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے وہ اپنے فضاؤں کو رنگا رنگ قمقموں اورآ تش بازی سے لبریزکر دیتے ہیں جس کو لوگ بلاخوف وخطر اس خوبصورت اور حسین منظرکو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ادھر ایک ہم ہیں،کیا کرایا کچھ نہیں ،چلے نیا سال کا جشن منانے اور وہ بھی بھونڈے طریقے سے۔

ہما رے لیے 2016کا سال اس لحاظ سے بھی باعث رحمت اورخوش آئند نہیں ہے کہ حادثات اور اموات کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، جس میں کراچی میں ہونے والے ٹرین حادثے میں بے گناہ انسانی جانیں تلف ہوگئیں۔ ہمارے وطن عزیز کی اہم شخضیات ہم سے جدا ہوگئیں جن میں بابائے انسانیت عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد ہم سے جدا ہوگئے۔ کیا یہ ہمارے لیے نقصان عظیم نہیں ۔ قوالی کے بے تاج عالمی بادشاہ امجد صابری کا رمضان کے مقدس مہینے میں دن دھاڑے بہیمانہ قتل ، تاحال قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ چترال کے علاقے حویلیاںکی فضائی حدود میں سابقہ قومی ائیرلائن کا ATS جہاز سنگین حادثے کا شکار ہوا جس میں معروف شخصیت جنیدجمشید اور ان کی اہلیہ سمیت 42 افرا د لقمہ اجل بن گئے۔ اس سلسلے میں فرانس کی ATSکمپنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ذریعے تحقیقات کا عمل جا ری ہے۔

علاوہ ازیں عالم دین علامہ شاہ تراب الحق قادری،ماہر تعلیم ڈاکٹر عبدالوہاب، ادبی شخصیات فاطمہ ثریا بجیا، اطہر عباس ہاشمی، انتظارحسین، ڈاکٹراسلم فرخی، پاکستان ٹیلی ویژن کا چمکتا ہوا معروف ستارہ آغا ناصر، فلمی دنیا کے روبن گھوش،اداکار حبیب ،ادا کارہ شمیم آرا،گلوکار اے نیر،کرکٹ کے ہیرو اور لٹل ماسٹر حنیف محمد، اہم بزرگ سیاسی شخصیات معراج محمد خان ، جہانگیر بدر اوردیگر اہم شخصیات ہمارا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔ بلاشبہ ان شخصیات کی خدمات اور رتبے کا ہمارے پاس کوئی نعم البدل نہیں، حقیقت میں ایسے قیمتی اثاثے صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں