جناب نواز شریف اور ہماری اقلیتیں

وہ دن دُور نہیں جب پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اقلیت دوست ملک کے طور پر جانا جائے گا۔


Tanveer Qaisar Shahid January 17, 2017
[email protected]

'' میرا تعلق ایک دینی ادارے سے ہے۔ اس حیثیت میں میرے پاس جو غیر مسلم مسلمان ہونے کے لیے آتے ہیں، تو بحیثیتِ مسلمان ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ اگر اُس کے پاس سرٹیفکیٹ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر رہا ہے تو پھر ہم اُس شخص کو دائرہ اسلام میں داخل کرتے ہیں۔ ہمارے ادارے کے اندر سالانہ چار سو سے پانچ سو لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔ کہیں پر بھی جبر نہیں ہے۔'' (سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تعلیم۔ صفحہ نمبر 190)

یہ الفاظ پاکستان کے نامور عالمِ دین ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کے ہیں۔ قبلہ راغب صاحب لاہور کی معروف دینی درسگاہ، جامعہ نعیمیہ، کے مہتمم اور منتظم ہیں۔ برادرم سجاد اظہر، جو اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک (pips) سے وابستہ ہیں، کی طرف سے ارسال کردہ کتاب ''سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تعلیم'' میں راغب صاحب کے مذکورہ بالا الفاظ نظر سے گزرے۔ اِس کتاب کے مطالعہ کے دوران ہی وزیر اعظم جناب نواز شریف کٹاس راج (کلر کہار) گئے جو پاکستان کی ایک بڑی اقلیت،ہندوؤںکی قدیم ترین عبادت گاہ ہے۔اِس دورے کے دوران گیارہ جنوری2017کو ہمارے وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ اُنہیں معاشرے میں جائز مقام دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

وہ دن دُور نہیں جب پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اقلیت دوست ملک کے طور پر جانا جائے گا۔'' ممتاز بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' اور ''دی ہندو'' نے وزیر اعظم صاحب کے اِن خیالات کو نمایاں طور پر شایع کیا۔ کٹاس راج میں جناب نواز شریف خطاب کر رہے تھے اور مجھے وزارتِ اطلاعات میں شعبہ DEMP کے ڈی جی جناب محمد سلیم بیگ یاد آ رہے تھے جنہوں نے بڑی محنت سے ''کٹاس راج'' پر ایک نہایت شاندار ڈاکومنٹری مووی بنائی ہے۔ اگر ممکن ہو تو جناب نواز شریف کو بھی یہ مُووی دکھانی چاہیے۔

بہر حال، ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کے خیالات پڑھ کر دل میں خیال آیا کہ اگر لاہور کے ایک دینی مدرسے میں سالانہ چار پانچ سو غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں تو لاہور میں بروئے کار دیگر سیکڑوں مدارس کتنے غیر مسلم پاکستانیوں کو مسلمان کر رہے ہوں گے؟ ابھی باقی پاکستان کے بقیہ محترم دینی مدارس کے اعزازات کی بات نہیں ہو رہی ہے کہ وہاں ہر ماہ اور ہرسال کتنے غیر مسلم جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں؛ چنانچہ مَیں نے راغب نعیمی صاحب کو فون کیا اور اُنہیں کتاب مذکور میںمندرج اُن کے الفاظ پڑھ کر سنائے اور پوچھا: حضرت، یہ آپ ہی کا بیان ہے؟ فرمایا، جی ہاں۔ مَیں نے پوچھا: اب تک آپکا ادارہ کتنے غیر مسلموں کو اسلام کے شرف سے ہمکنار کر چکا ہے؟ جواب میں فرمایا :''فی الحال تو میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس اس کا پورا ڈیٹا محفوظ اور موجود ہے، ایک دو دن بعد اگر فون کرکے پوچھ لیں تو اس کا درست جواب دے سکوں گا۔'' اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے۔ قرآن پاک کا بھی یہی ارشادِ گرامی اور حکم ہے۔ یہ بات بھی مسلّمہ ہے کہ دنیا میں اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلاہے۔

فون پر یہی باتیں جناب راغب نعیمی بھی کر رہے تھے۔ انھوں نے مزید فرمایا : ''پہلی بات یہ نوٹ کر لی جائے کہ لاہور میں صرف دو ایسے مستند ادارے ہیں جہاں اپنی مرضی اور منشا سے قبولِ اسلام کی تقریبات ہوتی ہیں۔ اس کے لیے گواہیاں اور شہادتیں عمل میں آتی ہیں تا کہ جبر اور زیادتی کا کوئی شک اور شائبہ نہ رہے۔ شرف ِ قبولِ اسلام کے بعد باقاعدہ دستاویزات کا تبادلہ ہوتا ہے۔

نَو مسلم کے سرٹیفکیٹ کی ایک نقل ، تصویر کے ساتھ ، ہمارے پاس محفوظ رہتی ہے۔ اور دوسرا مصدقہ ڈاکومنٹ، بمعہ فوٹو، نَو مسلم کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ '' تقریباً تین دن بعد ڈاکٹر راغب صاحب سے دوبارہ رابطہ ہوا تو اُنہوں نے انکشاف کیا کہ اُن کے مدرسے میں اب تک دس ہزار سے زائد غیر مسلم اپنی مرضی سے اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے بہر حال اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ آج، تشکیلِ پاکستان کے وقت کی نسبت، وطنِ عزیز میں اقلیتوں کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے۔ کئی ہندو اور مسیحی پاکستانیوں نے اسلام قبول کر لیا، کئی پاکستانی ہندو خاندان گزشتہ برسوں میں بھارت چلے گئے اور کئی پاکستانی مسیحیوں نے مغربی ممالک میں بسیرا کر لیا۔

پاکستان میں قبولِ اسلام کے عمل کو بعض مغربی ممالک نے ''ظلم اور زیادتی''کی تصویر بنا کر سکینڈلائز کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔یہ شرارت اور جسارت کرنے والوں میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت نے تو دانستہ ہمارے سندھی ہندوبھائیوں کے معاملات کو اچھالنے اور ایکسپلائیٹ کرنے کی کئی بار کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر مسلّمہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے جو سندھی ہندو خاندان ہجرت کرکے بھارت جا بسے ہیں، وہاں مطمئن اور مسرور نہیں ہیں۔ اسی لیے کئی خاندان دوبارہ واپس آ کر سندھ میں آباد ہوئے ہیں۔

''پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز'' (اسلام آباد ) سے وابستہ جناب سجاد اظہر کی مرتب شدہ کتاب ''سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تعلیم'' میںاس موضوع پر بحث کی گئی ہے کہ تمام تر وعدوں اور دعوؤں کے باوجود پاکستان میں ہماری اقلیتوںکے لیے رواداری اور برداشت کا ماحول آئیڈیل نہیں ہے، اس سب کے باوجود کہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تاریخی تقریر کا حوالہ بھی موجود ہے اور پاکستان کے متفقہ آئین میں تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی باقاعدہ ضمانت بھی فراہم کی گئی ہے۔ مذکورہ کتاب میں پاکستان کے کئی اقلیتی دانشوروں کے اِسی سلسلے میں دبے الفاظ میں گلے شکوے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ شکوے قابلِ غورہیں۔

مذکورہ بالا کتاب میں، پاکستان میں قبولِ اسلام کے واقعات کے حوالے سے، بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (خضدار)میں اسلامک اسٹڈیز کے ایک استاد پروفیسر گل محمد صاحب کا ایک تجربہ اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے :''یہ 2008 کی بات ہے۔ میری کلاس میں ایک ہندو لڑکا تھا۔ اُس کا نام کرشن کمار تھا۔ مَیں حاضری اور دوسری چیزوں میں بڑی سختی کرتا تھا۔ وہ لڑکا ایک روز میرے آفس میں آیا اور کہا کہ مَیں ہندو ہُوں، آپ بڑی سختی کرتے ہیں، میرا کیا ہوگا؟ یقین جانیں یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ مَیں نے اللہ سے مدد چاہی کہ یہ تو ہے ہی ہندو، ہم اس کو زبردستی (اسلامیات) پڑھا رہے ہیں۔ پہلے ( غیر مسلموں کے لیے) اخلاقیات کا مضمون ہوتا تھا۔ اب اُس کو سورۃ الفرقان، سورۃ الحجرات پڑھنی پڑھیں گی۔ مَیں نے اُس ہندو لڑکے کو اپنے آفس میں بلایا اور ساتھ بٹھا کر کہا کہ بیٹا، مطالعہ کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ میرے پاس بائبل ہے۔

مَیں تورات اور انجیل کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ اس میں حرج تو نہیں ہے۔ یقین جانیں اُس نے بڑی محنت کی اور اُس سال جب نتیجہ آیا تواسی کرشن کمار نے اسلامیات میں پہلی پوزیشن حاصل کی، حالانکہ اسی پیپر میں بہت سے مسلمان طلباء فیل ہو گئے تھے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد اس لڑکے کا والد مسلمان ہو گیا کہ اسلام میں کتنی رواداری ہے۔ '' (صفحہ نمبر 25 ) واقعہ یہ ہے کہ پاکستان ایسے متحارب اور متصادم معاشرے میں زیرِ نظر کتاب کا وسیع پیمانے میں پڑھا جانا از بس ضروری ہے۔ کتاب کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی وسیاسی ہم آہنگی کے لیے اساتذہ اور ہمارے علماء کا کیا کردار ہے؟ اور یہ کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک روادار اور برداشت کا ماحول کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ علمی خدمت دراصل جناب محمد عامر رانا نے انجام دی ہے جو تھنک ٹینک ( pips ) کے سربراہ بھی ہیں اور زیر نظر چشم کشا کتاب کے پبلشر بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں