2016 گرم ترین سال شمار کیا گیا
درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کی بنیادی وجہ ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کا زیادہ مقدار میں اخراج ہے
GILGIT:
موسمیات کے امریکی اور مغربی ماہرین کا اجلاس ناروے کے شہر اوسلو میں منعقد ہوا جس میں اعدادوشمار کی مدد سے ثابت کیا گیا کہ 2016ء کا سال مسلسل تیسرا گرم ترین سال تھا جس میں ارکیٹک کے گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار ماضی کے مقابلے میں خاصی تیز تھی جس کے نتیجے میں عالمی حدت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس کے زیادہ نمایاں اثرات بھارت اور اس کے نواحی علاقوں پر مرتب ہوئے ہیں۔
تحقیقاتی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس زمین اور سمندروں پر اوسط درجہ حرارت میں اضافہ 0.94 سینٹی گریڈ رہا جو 20 ویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے 13.9 سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے بھی تقریباً مماثل اعدادوشمار ہی شایع کیے ہیں۔ دریں اثناء برطانیہ کے محکمہ موسمیات اور یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا نے بھی گلوبل وارمنگ کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کیے ہیں جو امریکی اور مغربی ماہرین کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار سے ملتے جلتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق سن 2016ء گرم ترین سال ثابت ہوا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کی بنیادی وجہ ''گرین ہاؤس گیسز'' کا زیادہ مقدار میں اخراج ہے حالانکہ قبل ازیں متعدد عالمی اجتماعات میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی سطح کم کرنے پر اصولی طور پر اتفاق کیا جا چکا ہے لیکن چونکہ اس کی ذمے داری مغرب کی اہم صنعتوں پر عاید ہوتی ہے اس وجہ سے ان ممالک کی حکومتیں بھی خود کو بے بس محسوس کرتی ہیں اور بڑی صنعتیں حکومتی اقدامات کو ڈاج کر دیتی ہیں۔