یوم جامعہ کراچی
آج سے 57 برس قبل شہر سے بارہ میل پرے بے حد پرسکون علاقے میں ایک البیلی بستی بسائی گئی تھی
KARACHI:
آج سے 57 برس قبل شہر سے بارہ میل پرے بے حد پرسکون علاقے میں ایک البیلی بستی بسائی گئی تھی،اس عظیم درسگاہ سے بے شمار تشنہ گان علم سیراب ہوکر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ متعدد نے اپنے اپنے شعبے میں عالمگیر شہرت حاصل کی ہے۔ پاکستان کی اس منفرد درس گاہ کا آغاز تو کراچی کی مختلف عمارات میں تقریباً 1951-52 میں ہوچکا تھا مگر اس کا تعلق سندھ یونیورسٹی سے تھا ،کراچی یونیورسٹی کا پہلا بیچ 1953 میں نکلا۔
جامعہ کراچی 1960 میں موجودہ عمارت یا مقام کہہ لیجیے میں منتقل ہوئی۔ اس جامعہ سے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن جو عرف عام میں یونی کیرینز کہلاتی ہے وہ ہر سال 18 جنوری کو ''یوم جامعہ'' مناتی ہے۔جامعہ کے سلور جوبلی گیٹ سے یونی کیرینز کا قافلہ روانہ ہوا سب سے آگے 130 حفاظ تلاوت کرتے ہوئے جارہے تھے ان سے پیچھے ممتاز سابقہ طلبا اور ان کے پیچھے کئی سو یونی کیرینز اس گیٹ سے جامعہ میں داخل ہوئے۔آج کل یونی کیرینز کے صدر پروفیسر اعجاز فاروقی ہیں۔
آڈیٹوریم پہنچ کر سب نے جب اپنی نشستیں سنبھال لیں تو تقریب کا غیر رسمی آغاز ہوا۔ عہدیداران کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ نظامت کا فریضہ جامعہ کی یونین کے آخری صدر شفیق فاروقی نے انجام دیا انھوں نے مختصراً ''یوم جامعہ'' کی روایت کے پس منظر پر روشنی ڈالی کہ آج ہی کی طرح 30 قاری ایک ایک پارے کی تلاوت کرتے ہوئے اس وقت کے وائس چانسلر بشیر احمد ہاشمی کی قیادت میں جامعہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت سے یہ روایت جاری ہے اور اس کی تجدید سے سابقہ طلبا کا جذباتی تعلق قائم ہے۔
اس کے بعد احترام الحق تھانوی نے سورۃ علق کی تلاوت سے تقریب کا باقاعدہ آغازکیا اور مختصر خطاب بھی کیا کہ آج سے 57 برس قبل میرے والد یہاں اسی حیثیت سے تشریف لائے تھے اور آج میں بھی روایتاً یہاں موجود ہوں۔ اس کے بعد نعت خوانی ہوئی اور مقررین کو دعوت دی گئی پہلے مقرر سلیم مغل تھے جنھوں نے اپنے زمانہ صدارت میں جامعہ کا رسالہ الجامعہ کی بھی ادارت کی تھی انھوں نے کہا کہ ہم جامعہ کو بے حد خوبصورت بنائیں گے۔
اس کے ہر شعبے کے مسائل کو حل کریں گے جس کے لیے انھوں نے سابقہ طلبا سے روابط بھی کرنا شروع کردیے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چار دسمبر کو ایک اجلاس اس سلسلے میں ہوچکا ہے اورآیندہ چار دسمبر کو ہم سب کو دکھائیں گے کہ ہم جامعہ کے لیے کیا لائے ہیں۔ ان کے بعد جامعہ کے ابتدائی دور کے صدر سلطان چاولہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں جامعات اپنے سابقہ طلبا کے ذریعے چلتی ہیں بغیر سرکاری امداد کے۔
میں شیخ الجامعہ سے گزارش کروں گا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جامعہ کے مالی مسائل حل ہوں اس کے بعد اعجاز احمد فاروقی صدر یونی کیرینز کو دعوت خطاب دی گئی انھوں نے جامعہ سے اپنے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج مجھے جو مقام حاصل ہے اور میرا جو کردار تعمیر ہوا ہے وہ اسی جامعہ کی دین ہے۔ یہ جامعہ وہ ہے کہ پورے پاکستان کی دیگر جامعات کے مجموعی ریسرچ پیپرز سے اس کے ریسرچ پیپرز کی تعداد زیادہ ہے۔ ملکی سیاست میں بڑے بڑے ناموں کا تعلق اسی جامعہ سے رہا ہے جن کو لوگ ذہنی طور پر پسند کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں بھی لوگ پاکستان کی جامعات میں سے کراچی یونیورسٹی کے ذہنی معیار سے متاثر ہوتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے سینئر طالب علم صفان اللہ نے جامعہ کراچی کی پوری تاریخ کا خلاصہ پیش کیا انھوں نے بتایا کہ جب جامعہ کراچی یہاں منتقل نہیں ہوئی تھی اور شہری مختلف عمارتوں میں مختلف شعبے تھے بے سروسامانی کا عالم تھا بیٹھنے کو کرسیاں نہ تھیں مگر دلوں میں بڑی گنجائش تھی۔ طلبا ایک دوسرے سے الجھ جاتے تھے مگر تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے اس زمانے میں ہم طلبا کا آپس میں دست و گریباں ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اس ذہنی اور شخصی آزادی کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے جس میں ہم نے پڑھا ہے۔ انھوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آج کی تقریب میں شریک ہوکر میری عمر کے 57 سال کم ہوگئے اور میں آج خود کو 19، 20 سال کا جوان محسوس کر رہا ہوں۔
ہمارا آپ کا اور جامعہ کا تعلق کبھی نہیں ٹوٹے گا یہ جنم جنم کا ساتھ ہے۔ انھوں نے اظہر عباس ہاشمی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جامعہ کے لیے کس قدر مخلص اور فعال تھے جامعہ کی مسجد، شیخ زید ریسرچ سینٹر، لائبریری اور دیگر امور کے حوالے سے ان کا کردار بے حد اہم رہا ہے (یہ سن کر میرے ذہن میں اور ہوسکتا ہے اور کسی کے ذہن میں بھی خیال آیا کہ جامعہ کی کسی عمارت یا مقام کو اظہر عباس ہاشمی کے نام سے منسوب کردیا جانا چاہیے) سابقہ طلبا و اساتذہ کے بعد جامعہ کے موجودہ استاد جناب ڈاکٹر فیاض فیض (شعبہ فارمیسی) نے تقریر کی اور بہت خوب کی۔
انھوں نے کہا کہ تمام دنیا کی جامعات کے طلبا کا مقصد اپنی درسگاہ کا قرض اتارنا ہی ہوتا ہے اور جامعات انھی کے ذریعے بلا حکومتی امداد کے چلتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خودمختار ادارے ہوتے ہیں، جب کہ آج جامعہ کراچی کی انجمن کو یہ عہد کرنا پڑا کہ ہم جامعہ کے لیے کچھ کریں۔ تمام طلبا جامعہ کا درد، جذبہ رکھتے ہیں مگر ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ سب بکھرے ہوئے طلبا یکجا ہوکر کام کریں اور یہ سمجھیں کہ ہم جامعہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے اپنے مستقبل کے لیے اپنے وجود کے اعلان کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ مشہور شاعر اعجاز رحمانی نے برسوں قبل اپنی کہی ہوئی نظم جو الجامعہ میں کبھی شایع ہوئی تھی سنائی۔
سابقہ V.C پروفیسر ظفر سعید نے کہا کہ بہت کچھ ہے جو کہا بھی نہ جائے اور کہے بنا رہا بھی نہ جائے۔ ہمیں ایسے اساتذہ ملے جو ہر چیز سے بے نیاز ہوکر علم کا چراغ روشن کرتے رہے جنھوں نے یہ سیکھا کہ کام کو اس کی اہمیت کے باعث کرو کسی منفعت کی فکر نہ کرو۔ میں سن 61 میں جامعہ آیا تھا اب تک واپس نہیں گیا اپنی عمر بھول گیا ہوں آج تک خود کو نوجوان محسوس کرتا ہوں۔ انسان کی شناخت کے لیے تین سوال کیے جاتے ہیں والدین کون تھے، کس درس گاہ سے علم حاصل کیا اور اساتذہ کون تھے۔
تقریب کے دوسرے ناظم خلیل اللہ فاروقی نے ڈاکٹر پیرزادہ کو خوبصورت انداز میں تقریر کرنے کی دعوت دی بے شمار تالیوں کے شور میں ڈاکٹر صاحب تشریف لائے انھوں نے جامعہ کراچی کو پاکستان کی عظیم ترین جامعہ قرار دیا۔ یہ جامعہ پاکستان کا تشخص ہے پاکستان ہمیشہ رہے گا مگر اس کی پہچان بنانے کے لیے Knowledge Based معاشرہ بنانا پڑے گا۔ جامعہ کو ذرایع آمدنی خود پیدا کرنا ہوں گے اور اپنے وسائل سے ہی مسائل حل کرنے ہوں گے۔ انھوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے وقت صرف تین یونیورسٹیاں تھیں پنجاب یونیورسٹی، ڈھاکہ جو1921میں قائم ہوئی اور سندھ یونیورسٹی جو قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اپریل 1947 میں بنی تھی۔
شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد قیصر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں اس جامعہ کے قیام کے پانچ سال بعد یہاں آیا تھا اور اب تک یہاں ہوں۔ گرومندر سے آخری بس دس بجے چلتی تھی اگر وہ چھوٹ جاتی تو پیدل جامعہ آنا پڑتا تھا مگر وہ زمانہ بے حد پرامن تھا کوئی خطرہ یا خوف نہ تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی دیگر جامعات کے مقابلے میں جو ہم آہنگی جامعہ کراچی کے طلبا میں ہے وہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔
تمام مہمان مقررین کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ اسٹاف کلب جوکہ جامعہ کے پہلے V.C کی قیام گاہ تھیں میں عصرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں اپنے زمانے کی جامعہ سے وابستہ یادیں تازہ ہوگئیں۔ اتنا لکھنے پر بھی بہت کچھ باقی رہ گیا۔