آئیں احساس کی شمع جلائیں

چند سو روپے کے عوض اگر کسی غریب کی دعا مل جائے تو بھلا اِس سے اچھا سودا آپ کے لیے اور کیا ہوسکتا ہے؟


محمد نعیم January 20, 2017
آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، جہاں روزانہ آپ سفر کرتے ہیں، وہیں آپ کے اردگرد بے شمار ایسے بھی آپ کو نظر آئیں گے جو بارش یا سردی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں موسم سرما کی آمد سے جہاں بہت سے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ہیں وہیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد پریشانی کا شکار ہے کہ آنے والے دنوں میں خود اُن کو اور اُن کے اہلخانہ کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

بارش، برفباری اور سرد ہواوں نے جسموں میں اتر جانی والی ٹھنڈک کو بڑھا دیا ہے۔ سورج بادلوں کی اووٹ لیے ہوئے ہے، اگر جلوا دکھا بھی رہا ہے تو دھوپ کی چمک تو ہے مگر تپش سے خالی ہے۔ مکمہ موسمیات نے کراچی جیسے شہر کے متعلق بھی کہہ دیا ہے کہ سردی کا یہ سلسلہ فی الوقت رکنےوالا نہیں ہے، اب اگر کراچی میں یہ حالات ہیں تو اندازہ تو لگائیے کہ ملک بھر میں اِس وقت اور آنے والے دنوں میں کیا صورتحال ہونے والی ہے۔

حالیہ بارشوں اور برف باری کو انجوائے کرنے کے ارمان تو بہت سے لوگ پورے کر رہے ہیں۔ مگر کیا کبھی کسی نے سرد موسم کے مزے لیتے ہوئے اور ٹھنڈی ہواوں میں گاڑی کا گرم ہیٹر چلا کر سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود ہزاروں لوگوں کی ضروریات و مشکلات کو محسوس کیا ہے؟ کبھی اُن لوگوں کے بارے میں سوچا جو بغیر گرم لباس کے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ صورتحال بھی نہیں کہ ایسے افراد کو تلاش کرنے میں کچھ مشکل درپش آتی ہو، بلکہ ایسے مجبور اور پریشانِ حال افراد تو آپ کو اپنے گھروں، محلوں، ہسپتالوں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں باآسانی نظر آجاتے ہیں۔

آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، جہاں روزانہ آپ سفر کرتے ہیں، وہیں آپ کے اردگرد بے شمار ایسے بھی آپ کو نظر آئیں گے جو بارش یا سردی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر بارش ہوگئی تو وہ اپنی ٹپکتی چھت کو کیسے روکیں گے؟ وہ اپنے معصوم بچوں کو بیمار ہونے سے بچانے کی کیا ترتیب کریں گے؟ وہ اپنے کام پر جانے کے لیے صبح سخت سردی میں موٹرسائیکل یا بس پر کیسے سفر کریں گے؟

ماہرین موسمیات کے مطابق جنوری کےآخر میں بارشوں کا ایک اور دور آئے گا جبکہ فروری میں بھی مزید برف باری اور بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ کہیں بارش تو کہیں آسمان سے گرتے روئی کے گالے ابھی درجہ حرارت کو مزید کمی کی جانب لے کر جائیں گے۔

کسی بھی معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلے وہ جو اپنی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں، دوسرے وہ جن کو اللہ رب العزت نے اتنے وسائل ضرور دیے ہیں جو کم از کم اپنا اور اپنے اہلخانہ کی ضروریات کو پورا کرنے کی سکت رکھتے ہیں، لیکن تیسرا وہ خوش نصیب طبقہ ہے جو اپنی تمام ضروریات تو پوری کرتا ہے مگر اُن کے پاس اِس قدر مال موجود ہوتا ہے کہ وہ دوسرے ضرورت مند لوگوں کی ضرورت کو بھی پورا کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ جو اضافی مال ہے یہ بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ یہ مال شاید اُن کو اِسی لیے عطا کیا گیا ہو کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کرسکیں۔ تو بس اُن تمام صاحبِ حیثیت لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان، پڑوس اور اردگرد دیگر افراد کے حالات پر نظر رکھیں اور اُن کی مدد کریں۔ ایسے لوگ جو منفی درجہ حرارت، لہو جماتی ٹھٹھرتی سردی میں اپنے گرم گھروں کے بجائے کچے مکانات میں رہتے ہیں یا وہ بچے جو ننگے پیر چلنے پر مجبور ہیں، انہیں سردی سے بچنے کا سامان مہیا کریں۔ انہیں گرم لحاف، بستر کمبل اور جیکٹس عطیہ کریں۔

ممکن ہے یہ چیزیں آپ کے لیے چند سو روپے کی ہوں مگر جن کے پاس یہ چند سو روپے بھی نہیں ہوتے اُن کے لیے یہ سب سامان کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں ہے۔ ایسے لوگ جب جب سردی سے خود کو محفوظ سمجھیں گے، وہ تب تب آپ کے لیے دعا کریں گے، اور چند سو روپے کے عوض اگر کسی غریب کی دعا مل جائے تو بھلا اِس سے اچھا سودا اور کیا ہوسکتا ہے؟

آپ نے یقیناً اس بات کا تجربہ کیا ہوگا۔ اگر نہیں تو ایک بار ضرور آزما کر دیکھ لیں کہ ضرورت مندوں کی مدد اور دیگر فلاح و بہبود کے کاموں میں اپنا مال خرچ کرنے سے آپ کی دولت کم نہیں ہوگی بلکہ یہ قانون فطرت ہے کہ انسانیت کے ساتھ اچھائی کرنے والوں کو مزید نوازا جاتا ہے۔

اِس لیے اگر آپ اپنی دولت کم ہونے کے ڈر سے کسی غریب پر خرچ نہیں کر رہے تو آئیں آج سے اِس ڈر کو ختم کردیں۔ بازار جائیں کچھ گرم ملبوسات خریدیں اور ان لوگوں میں اپنے ہاتھوں سے تقسیم کریں جو اِن بنیادی ضروری چیزوں سے محروم ہیں۔

یقین جانیے جن کو یہ تحائف آپ دیں گے وہ اُن کو پاکر جو خوشی محسوس کریں گے اور اُن کے چہرے پر آنے والی ہلکی سی مسکان آپ کو وہ اطمینان اور دلی سکون دے گی جو شاید آپ اپنے بنگلے، کار اور لاکھوں روپے کی موجودگی میں بھی نہیں حاصل ہوسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں