راحیل شریف ڈیووس میں
ان کی پُراعتماد تشخص اور شخصی طلسم نے وہ اثرات مرتب کیے جو پاکستانیوں نے ڈیووس میں ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھے تھے
2002ء سے ڈیووس میں، عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقعے پر ، ''پاکستانی بریک فاسٹ'' ایک مستقل فیچر بن چکا ہے۔ پاکستانی صدر، وزیر اعظم یا کوئی ممتاز شخصیت اس ناشتے کی مہمان خصوصی ہوتی ہے۔ ''ابراج''کے عارف نقوی نے، 18 جنوری کو عشائیہ دیا، اس کے مہمان اعزازی (گیسٹ آف آنر) وزیر اعظم میاں نواز شریف تھے۔ اس تقریب میں مقررین اور پاکستانی پکوانوں کا انتخاب بھی بہت خوب تھا۔
اگلی صبح ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی اور توجہ کا مرکز تھے۔ انھوں نے امن و امان کی صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے پاکستانی فوج اورشہریوں کی قربانیوں کو نمایاں کیا۔ انھی قربانیوں کے نتیجے میں پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) جیسے منصوبے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا، جو صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ''گیم چینجر'' ثابت ہوگا۔ شرکاء اور مقررین سابق آرمی چیف کی دہشتگردی کے خلاف کام یاب مہم اور عوام میں ان کی بے پناہ مقبولیت کا اعتراف کرنے میں ہم آواز تھے۔ جب راحیل شریف تقریب میں شرکت کے لیے آئے تو جا بہ جا انھیں اشرافیہ سے تعلق رکھنے افراد نے مصافحے کے لیے گھیرے میں لیے رکھا اور ان کا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔
اس روایتی ناشتے پر جو معزز مہمان مدعو تھے ان میں پیروٹ کمپنیز کے چیئرمین ہینری روز پیروٹ، سوئز ایشین چیمبر آف کامرس سوئٹزر لینڈ کے ایگزیکٹیو بورڈ صدر ڈاکٹر ارس لسٹینبرگر، چین کیTezign.com کے بانی اور سی ای او دائیسی یوا شیاچیئن، بحرین پیٹرولیم اینڈ کو کے اعزازی چیئرمین سلمان الخلیفہ، واشنگٹن پوسٹ کی سینیئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ایلیزبتھ جی ویماؤتھ، Torres AES کے سی ای او جیری ٹورس، گلف نیوز کے فرانسس میتھیو سمیت دیگر مہمان شامل تھے، یہ مہمان اسٹیگنبرگر بیل ویڈیری کے سیلون اٹلانٹس میں جمع تھے، جس میں صرف 150 افراد کی گنجایش ہے۔ یہ تقریب صبح 7 بجے منعقد ہوئی اور اس میں پاکستان سے داؤد ہرکیولیس کارپوریشن لمیٹڈ کے شریک چیئرمین حسین داؤد، مارٹن ڈو کے چیئرمین جاوید اکھائی، شرمین عبید چنائے، یو بی ایل سوئٹزر لینڈ اے جی کے سی ای او فیصل بشیر اور دیگر نے شرکت کی۔
راحیل شریف نے ڈیووس میں سیکیورٹی سے متعلق کئی اہم اجلاسوں میں شرکت کی۔ چیٹ ہیم ہاؤس کے ڈائریکٹر رابن نبلیٹ اور چیئرمین و سی ای او فرسٹ ایسٹرن انویسٹمنٹ گروپ ہانگ کانگ ایس اے آر کے وکٹر ایل شو نے ''عالمی سیکیورٹی تناظر'' کے عنوان سے ہونے والے اجلاس کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ اس پینل کے شرکاء میں کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈی کے چیئرمین ترکی الفیصل السعود، جرمن وزیر دفاع ارسیولا وان در لیین اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور کے لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی کے وزٹنگ اسکالر جارج یو شامل تھے۔
عالمی سطح پر سیکیورٹی اور دفاع کے حوالے سے قابل ذکر تغیرات اس مذاکرے میں زیر بحث آئے اور امریکا کے سیکیورٹی ترجیحات کے از سر نو تعین، جیواسٹرٹیجک تبدیلیاں اور مستقبل کے ممکنہ تنازعات گفتگو کا محور رہے۔ راحیل شریف نے ''ڈیجیٹل دور میں دہشتگردی'' کے موضوع پر ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس کی میزبانی آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر لویوئس رچرڈ سن کررہے تھے جب کہ شرکا میں اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ جنرل سیکریٹری جنرل اور کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جین پال لیبورڈ، ترکی الفیصل، ڈائریکٹر یوروپول(یورپی پولیس افسر) روب وینرائٹ شامل تھے۔ پینل کے تمام شرکا نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا، سامعین نے سب سے زیادہ تر سوالات راحیل شریف ہی سے پوچھے۔
انڈین ایکسپریس سے وابستہ شیکھر گپتا نے پاکستان کے سابق سپہ سالار سے بھارتی مؤقف کے مطابق سوال کیا کہ پاکستان کس طرح ''سانپوں'' کا خاتمہ کرسکتا ہے جب کہ اس نے خود اپنی آستین میں کئی سانپ پال رکھے ہیں ۔ راحیل شریف کا کہنا تھا کہ سانپوں کا خاتمہ کرتے ہوئے پاک فوج نے کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔ ان میں ہر رنگ اور نسل کے سانپوں کا سر کچلا گیا، چاہے ان کا تعلق کسی بھی علاقے سے تھا، ان میں وہ بھی شامل ہیں جو ''ملحقہ خطوں'' میں پھل پھول رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غیر ریاستی عناصر بین الممالک تعلقات اور بالخصوص پڑوسی ملکوں کے مابین کشیدگی بڑھانے کے لیے کردار ادا کررہے ہیں، کسی بھی ایک ملک میں ہونے والے تباہ کُن حملے کا ربط اگر دوسرے ملک سے ہوا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین جیسے بڑے مسائل کا حل انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان کے سابق سپہ سالار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک خوف ناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ یہ عناصر بہت تیزی سی خود کو مختلف سانچوں میں ڈھال رہے ہیں۔ انسانی حقوق، سفارت کاری کے امور سمیت ہمیں ان کے خلاف تیز اور فوری کارروائیاں کرتے ہوئے کئی ضوابط کا لحاظ کرنا پڑتا ہے جب کہ شرپسند ہر اصول سے آزاد ہیں، وہ حملوں کی جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
انھیں اب مختلف خطوں میں چھوٹے گروپس کی حمایت حاصل ہے جو ان کی پراکسی کا کردار ادا کرتے ہوئے خود کش حملے اور دیگر کارروائیاں کرتے ہیں، جب کہ بڑے گروپ اس کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ایسے عناصر کی مالی معاونت کرنے والوں، ان کے ہمدردوں اور انھیں تحفظ فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنا ہوگی۔ خفیہ اطلاعات کا تبادلہ کامیابی کی کنجی ہے اور اس میں برق رفتاری سے ایسی معلومات کا تبادلہ ضروری ہے۔
جس پر فوری کارروائی ممکن ہو۔ صفِ اول کی اقوام کو دہشتگردی کے مقابلے کے لیے جوابی بیانیے اور اقدامات کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کی قرداد 1373واضح طور پر تمام اقوام کے لیے مشترکہ ذمے داری کا تعین کرتی ہے، جس میں دہشتگردوں کی نقل مکانی کے انسداد، دوسری ریاستوں کو خبردار کرنا، ایسے عناصر کی مالی معاونت کرنے والوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرنا اور اس حوالے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرنا بھی شامل ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اس حوالے سے پانچ انتہائی اہم اقدمات کی جانب توجہ دلائی۔ (1 نوجوانوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ شدت پسند عناصر کو اعتدال کی جانب لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور انھیں سماج کا حصہ بنانے کے لیے تربیت فراہم کی جائے۔ (2کارروائیوں کے ساتھ ساتھ دیگر پہلوؤں کے لیے بھی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
(3 ایسے انتہائی خطرناک دہشتگرد، جن کی اصلاح ممکن نہیں رہی، انھیں فوری سزائیں دی جائیں۔ (4پُرتشدد واقعات کے بعد اگلی کارروائی کا انتظار کرنے کے بجائے ذمے داران کا تعاقب کیا جائے۔ 5) آزاد دنیا مل کر ہر محاذ پر اور ہر جہت سے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے یکسو ہوجائے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دور میں ہونے والی دہشتگردی کو سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا دہشتگردی کو روکنے میں سافٹ ویئر کی سطح پر کمزور ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام ایسی عالمی اقدار قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائیں جن کے نتیجے میں مختلف مسائل پر اتفاق رائے ممکن بنایا جاسکے اور ایسا سیاسی حل تلاش کیا جاسکے جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول بھی ہو۔
جنرل راحیل نے کہا کہ وہ اس حوالے سے مزید تقسیم دیکھ رہے ہیں کیونکہ ''ہم اس (دہشتگردی) کے پھیلاؤ کو نظریاتی اور عملی محاذ پر قابو کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکے''۔ خطرناک دہشتگرد اپنے ممالک کا رُخ کررہے ہیں اور انھیں دہشتگردی کی نرسریوں میں تبدیل کرسکتے ہیں۔سائبر دنیا کے خدشات کو سب کے لیے یکساں تشویش ناک قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ترقی پذیر ممالک اس ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ تاہم ان کے ہاں بھی ملٹری انفرااسٹرکچر، بینکنگ اور فضائی سفر جیسے دیگر حساس شعبے خطرے کی زد میں ہیں۔ آنے والے وقتوں میں تعلیم یافتہ فرد، ان پڑھ خود کُش بمبار کے مقابلے میں زیادہ بڑے چیلنجز کا باعث بنے گا۔
شدت پسندی کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ جوابی مذہبی بیانیے کی تشکیل بنیادی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ جب کہ ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی نے غیر ریاستی عناصر کو آسان اہداف فراہم کیے ہیں۔ ان کے لیے ٹیکنالوجی میں پس ماندہ ممالک کی بہ نسبت ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی نظریات کی ترویج کے زیادہ مواقع ہیں۔
ڈیووس میں جنرل راحیل شریف کی موجودگی متاثر کُن رہی، ان کی پُراعتماد تشخص اور شخصی طلسم نے وہ اثرات مرتب کیے جو پاکستانیوں نے ڈیووس میں ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھے تھے۔ اس موقعے پر ان کی موجودگی نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے موقف کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کیا۔ وزیر اعظم کی دو طرفہ ملاقاتوں کے بارے میں تفصیلات واضح نہیں اس لیے ان پر تبصرہ بھی ممکن نہیں۔ سابق سپہ سالار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کے بعد منصب سنبھالنے والے جنرل قمر باجوہ دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کی رفتار برقرار رکھیں گے۔
انھوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ حالات میں بہتری کا عمل تیزی اختیار کرے گا۔ اہلِ ڈیووس بہت کائیاں اور نک چڑھے ہیں، وہ سادہ تو ہرگز نہیں، اس لیے ان کی جانب سے جنرل راحیل شریف کی فوری پذیرائی اطمینان کا باعث ہے۔ راحیل شریف کے ہمراہ معاونت کے لیے کوئی لمبا چوڑا وفد نہیں تھا، ان کے ساتھ صرف ایک معاون تھا۔ کیا پاکستان اور افواج پاکستان کے لیے ڈیووس میں راحیل شریف کی اس پذیرائی کو قابل فخر قرار دینے میں کوئی مضائقہ ہے؟