سنگدل کردار نرم دل اداکار
پاکستان فلم انڈسٹری مصطفیٰ قریشی پر جتنا فخر کرے، کم ہے
PESHAWAR:
آج میرے کالم کی شخصیت وہ اداکار ہے جس نے فلموں میں انتہائی سفاک، سنگدل اور وحشی انسان کے کرداروں سے شہرت پائی، جس کے مکالموں سے ظلم کا زہر ٹپکتا تھا اور جس کی آنکھوں سے دہشت کے شعلے لپکتے تھے، مگر یہ اداکار اپنی عام زندگی میں اپنے فلمی کرداروں کے بالکل برعکس ایک نرم خو اور انتہائی نرم دل انسان ہے اور ایک محبت بھرے دل کا مالک ہے اور اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ شعر و ادب کا دلدادہ ہے اور موسیقی کا دیوانہ ہے، اور اسی دیوانگی کی وجہ سے اس نے اپنی شریک حیات کا انتخاب ایک مدھر آواز کی مالک ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگرام کرنے والی گلوکارہ روبینہ کا کیا تھا، جو اب روبینہ قریشی یعنی پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی کی شریک زندگی ہے۔
پاکستان فلم انڈسٹری مصطفیٰ قریشی پر جتنا فخر کرے، کم ہے۔ یہ اداکار دوستوں کا پیار اور دوست اور یاروں کا دلدار ہے۔ مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ مصطفیٰ قریشی کی گڈ بک میں رہا ہوں اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں قدم قدم پر ملاقاتیں رہی ہیں۔ مصطفیٰ قریشی پاکستان میں راجھستانی زبان میں بنائی گئی فلم ''لال آندھی'' میں مرکزی کردار ادا کرچکے ہیں، جس کے مکالمے اور گانے بھی میرے لکھے ہوئے تھے جب کہ میں مصطفیٰ قریشی کو لاہور، کراچی کے علاوہ حیدرآباد سندھ کے حوالے سے بھی جانتا ہوں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن سے تین آوازوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، جن میں حمایت علی شاعر، محمد علی اور مصطفیٰ قریشی شامل تھے۔ یہ تینوں آپس میں بڑے گہرے دوست رہے ہیں۔ ریڈیو کے علاوہ حیدرآباد کے اسٹیج پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس وقت حمایت علی شاعر ڈرامہ رائٹر و پروڈیوسر ہوا کرتے تھے اور تینوں اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔
شاعر محمد علی اور مصطفیٰ قریشی کو فلموں میں آنے کے لیے کوئی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ یہ تینوں دوست کراچی آگئے۔ فضل احمد کریم فضلی نے محمد علی کو اپنی فلم 'چراغ جلتا رہا' میں کاسٹ کرلیا۔ زیبا، محمد علی اور دیبا تینوں کی یہ پہلی فلم تھی۔ حمایت علی شاعر، ہدایت کار الحامد کی فلم آنچل کے نغمات لکھنے لگے اور مصطفیٰ قریشی نے ہدایت کار فاضلانی کی سندھی فلم ''پردیسی'' سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ فلم 'چراغ جلتا رہا' کے بعد محمد علی کا سفر آگے بڑھتے ہوئے لاہور کی فلم انڈسٹری تک پہنچا اور محمد علی فلم انڈسٹری کے صف اول کے اداکاروں میں شامل ہوگیا، جب کہ فلم آنچل کے گیت پر بہترین شاعرکا نگار ایوارڈ حاصل کرکے حمایت علی شاعر بھی لاہور فلم انڈسٹری کا حصہ بن گئے۔
پھر محمد علی کی فلم 'لاکھوں میں ایک' میں مصطفیٰ قریشی نے بھی ایک نمایاں اور جاندار کردار ادا کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر ان تینوں فنکاروں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مصطفیٰ قریشی نے لاہور کی فلموں سے منسلک ہوکر اپنی ایک شناخت پیدا کی۔ ابتدا میں ہدایت کار لقمان کی فلم ''دنیا نہ مانے'' میں کام کیا، مگر مصطفیٰ قریشی کو پنجابی زبان سے واقفیت نہ ہونے کے باوجود پنجابی فلموں میں بطور ولن کاسٹ کیا جانے لگا اور پنجابی فلموں میں ایک کامیاب جوڑی سلطان راہی کے ساتھ مصطفیٰ قریشی کی منتظر تھی۔ ہدایت کار داؤد بٹ نے اپنی پنجابی فلم ''جیلر تے قیدی'' میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کو ایک جوڑی کے روپ میں پہلی بار پیش کیا اور اس فلم میں ان دونوں آرٹسٹوں کی مکالمہ بازی کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ دونوں دراز قد کے جاندار اداکار تھے، ان دونوں کی پھر یکے بعد دیگرے کئی پنجابی فلمیں نمائش پذیر اور کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
ان دونوں کی جوڑی کو لے کر پھر فلمساز سرور بھٹی نے ایک فلم بنائی۔ فلم کے مصنف ناصر ادیب تھے اور فلم کے ہدایت کار یونس ملک تھے، فلم کا نام ''مولاجٹ'' رکھا گیا۔ اس فلم کی کہانی ایک افسانے ''گنڈاسا'' سے ماخوذ تھی اور پھر اس فلم میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی دونوں کی جوڑی بناکر دونوں کے ہاتھوں میں گنڈاسا تھمادیا گیا۔ ناصر ادیب کے مکالموں نے بھی بڑا کردار ادا کیا تھا اور یونس ملک نے بھی بڑی جان توڑ کوشش کرتے ہوئے ''مولاجٹ'' کو ایک یادگار فلم بناکر پیش کیا تھا اور اس فلم نے پنجابی فلموں کو ایک نئی راہ دکھائی تھی۔ فلم ہر اسٹیشن، ہر سرکٹ پر سپر ہٹ ہوئی تھی۔ فلم میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی دشمنی اور ان کے بھیانک مکالمے فلم کی ہائی لائٹ تھے۔
اس فلم کی کامیابی نے بھی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی، فلم بین سینما ہال سے نکلتے وقت سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے مکالمے اداکرتے ہوئے نکلتے تھے۔ اس فلم نے ایک نیا فلمی کلچر متعارف کرایا تھا اور اسے مولاجٹ اور نوری نتھ کا نام دیا گیا تھا۔ اس فلم کے بعد عام فلم بین آپس میں دو شخصیتوں میں بٹ گئے تھے، کچھ سلطان راہی بن گئے تھے اور کچھ مصطفیٰ قریشی کا روپ دھار گئے تھے۔ اور پھر ہر پنجابی فلم سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی بدولت کامیابی کی سند حاصل کرتی تھی۔ اسی دوران ماہنامہ دھنک کے مالک اور ایڈیٹر سرور سکھیرا کو بھی فلمساز بننے کا شوق چرایا، تو انھوں نے فلم 'لال آندھی' کا آغاز کیا۔ فلم کی کہانی راجھستان کے ایک ڈاکو کے پس منظر میں لکھی گئی تھی، اور انڈین فلم شعلے کی طرح اس فلم میں بھی ایک گجر ڈاکو کا کردار تھا، جس کا تعلق راجھستان سے تھا۔
فلم کی ہدایت کار سنگیتا تھی۔ جب سنگیتا کو اس بات کا علم ہوا کہ مجھے راجھستانی زبان کی کافی شدبد ہے تو اس نے فلم کے راجھستانی مکالموں کی ذمے داری میرے سپرد کردی۔ فلم میں مصطفیٰ قریشی کے مقابلے پر ایک اور شہری ڈاکو تھا جس کا کردار آصف خان نے ادا کیا تھا اور فلم میں راجھستانی لڑکی کا کردار کویتا نے کیا تھا۔ کویتا فلم کی ہیروئن اور راحت کاظمی کویتا کا ہیرو تھا۔
لال آندھی کی شوٹنگ ملتان کے صحرائی علاقے میں کی گئی تھی، جہاں ایک طویل علاقے تک ریگستان ہی ریگستان تھا، تین ہفتوں کے لیے لال آندھی کا یونٹ ملتان میں مقیم رہا، روزانہ سورج نکلنے سے پہلے فلم کا سارا یونٹ لوکیشن پر پہنچ جاتا تھا اور پھر سورج غروب ہونے تک شوٹنگ کے بعد واپس لوٹتا تھا۔ مصطفیٰ قریشی سے ادبی گفتگو سننے کو ملتی تھی۔ رات گئے تک جو باتیں ہوتی تھیں ان میں مصطفیٰ قریشی کا روپ جداگانہ ہوتا تھا۔ شاہ لطیف کی شاعری سے لے کر اقبال کی شاعری تک گفتگو ہوتی تھی۔ مصطفیٰ قریشی سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہی اداکار ہے جو جنگ و جدل، قتل و غارت اور بربریت کا سمبل ہے، جو اس کے فلمی کرداروں کا غماز ہے۔
جب فلم انڈسٹری کو زوال آیا تو مصطفیٰ قریشی بھی لاہور سے دوبارہ کراچی شفٹ ہوگئے تھے۔ یہ اب کبھی کبھی کسی فلم کے لیے لاہور جاتے ضرور ہیں مگر چند دنوں کے بعد واپس آجاتے ہیں۔ اب ان کی خواہش ہے کہ کراچی کو پھر سے وہی مقام مل جائے جو کراچی کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری کو حاصل ہوا تھا۔ آخر میں یہ دلچسپ بات بھی بتاتا چلوں کہ لاہور کی پنجابی فلموں کے دو ستون سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی، جو پنجابی فلموں کا سرمایہ تھے، جو پنجابی فلموں کے لیے کامیابی کی ضمانت تھے، وہ دونوں ہی پنجابی زبان کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بناکر فلموں میں آئے تھے۔
ان دونوں کی مادری زبان پنجابی نہیں تھی۔ سلطان راہی کی مادری زبان اردو، اور اس کے والدین کا تعلق سہارن پور انڈیا سے تھا جب کہ مصطفیٰ قریشی کی مادری زبان بھی سندھی تھی اور حیدرآباد سندھ سے تعلق تھا۔ یہ حقیقت یہاں کھل کر سامنے آتی ہے کہ فنکار کی کوئی اپنی زبان نہیں ہوتی، زبانیں ان فنکاروں کے لیے ہوتی ہیں اور فنکار ہر زبان کا سرمایہ ہوتا ہے۔