تمہیں کیا حاصل ہوا پیارے
استاد اور شاگرد کے مابین احترام اور عزت کا رشتہ ہوتا ہے
MUMBAI:
یہ تم نے کیا کیا اور کیوں کیا اسامہ پیارے؟ ایک لمحے کے لیے بھی اس ماں کے بارے میں نہیں سوچا جس نے چودہ برس پہلے تمہیں جنم دیا۔
اس باپ کے بارے میں سوچا جو تم میں اپنے گزرے کل کی جھلک دیکھتا اور دعا گو ہوتا کہ تمہارا آنے والا کل اس کے گزرے ہوئے کل سے بہت بہتر ہو۔
تمہیں اسکول بھیجا گیا تو اس لیے کہ تم علم حاصل کرو اور اپنے ذہن کو کسی ایک سمت مرکوز کر کے اس پر توجہ دو، زندگی کا ایک مقصد ہو، کچھ بننے کی لگن ہو، ایک منزل کا تعین کرو اور اس کے حصول کے لیے دن رات محنت کرو، کچھ ایسا کرو کہ والدین کا نام ر وشن ہو۔
جانے کیا ضرورت رہی ہو گی تمہارے باپ کی کہ اس نے گھر میں ہتھیار رکھ لیا، وہ ہتھیار لائسنس کے ساتھ ہے یا کہ نہیں... کیا تمہارا باپ کبھی سوچ سکتا تھا کہ اس کے اپنے گھر میں ، خود اس کے ہاتھوں سے رکھا ہوا ہتھیار، جسے اس نے حفاظت کے نکتہ نظر سے رکھا ہو گا، اس کی اپنی زندگی کی تمام خوشیوں کا خاتمہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے؟؟
سوشل میڈیا پر تمہارے '' کارنامے '' کی دھوم ہے پیارے، تمہارے بارے میں اخبارات اور سوشل میڈیا خبروں سے بھرا پڑا ہے مگر اس میں کچھ ایک بھی ایسی بات نہیں جسے پڑھ یا سن کر تمہارے ماں باپ فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکیں ، '' ہاں اسامہ ہمارا ہی بیٹا تھا!! '' وہ تمہار ی ولدیت سے انکار تو نہیں کر رہے مگر تمہارے ماں باپ ہونے کی سزا انھیں عمر بھر بھگتنا ہے، انھیں عمر بھر بہت سے کاش اور اگر مگر ساتھ لے کر جینا ہے!!
میں نے سوشل میڈیا پر ہی تمہارا وہ آخری خط بھی دیکھا اور پڑھا ہے، میرے علاوہ اس خط کو بہت سے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا۔ ساتویں جماعت کے طالب علم کا ہاتھ کا لکھا ہوا خط ہونے کی حیثیت سے جب میں نے اسے دیکھا، ایک استاد کی حیثیت سے میں نے پہلا اندازہ یہ لگا لیا کہ تم پڑھائی میں کیسے تھے، رومن اردو میں لکھے ہوئے اس خط میں شاید ہی کسی لفظ کے ہجے درست ہوں گے، ہینڈ رائٹنگ اس پر مستزاد ہے۔ جانے تمہاری پڑھائی کے حالات سے تمہارے والدین آگاہ تھے کہ نہیں اور اگر وہ جانتے تھے کہ تم پڑھائی میں کمزور ہو تو انھیں جاننے کی کوشش کرنا چاہیے تھی کہ تمہاری اس کے علاوہ سرگرمیاں کیا ہیں۔
استاد اور شاگرد کے مابین احترام اور عزت کا رشتہ ہوتا ہے، تمہیں کسی نے نہیں سکھایا کہ اساتذہ روحانی ماں باپ ہوتے ہیں؟ تمہاری تو ابھی مسیں بھی نہ بھیگی ہوں گی اور تم کس عشق و عاشقی کے چکر میں پڑ گئے۔ جس استاد نے تمہیں علم سکھایا تم نے اسے عزت دینے کی بجائے دنیا بھر میں بے عزت کر دیا؟ جس ادارے کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہاری مادر علمی ہے تم نے اس ادارے ، اپنے اساتذہ ، اپنے والدین اور اپنے خاندان کے نام کو روشن کرنے کی بجائے ان پر کالک مل دی!! تمہیں علم نہیں تھا کہ تمہارے بہن بھائی بھی ہیں جنھیں اس کے بعد بھی اسکول جانا ہو گا، والدین بھی ہیں جنھیں اپنی آخری سانس تک لوگوں کے بے مقصد سوالوں کا سامنا کرنا ہو گا اور تمہاری وہ قابل احترام ٹیچر جس کو تم نے مفت میں بدنام کیا اس کا تعلق بھی تمہاری طرح کسی معزز خاندان سے ہو گا، اسے اس کے بعد بھی جینا ہے۔
تمہارا باپ عمر بھر اس بات کو سوچتا رہے گا کہ اس نے ہتھیار خریدا ہی کیوں، اگر خریدا تو اسے گھر میں ایسی جگہ کیوں رکھا جہاں سے آسانی سے تم نے اسے اٹھا لیا، پھر اسے چلانے کے قابل تم کیسے اور کب ہو گئے کہ کسی کو علم ہی نہ ہو سکا؟ کوئی بچہ گھر سے کیا اور کس نیت سے لے کر اسکول جاتا ہے،اس بات کو چیک کرنے کا اسکول کی انتظامیہ کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہوتا!
اگر کوئی یہ سوال اٹھائے کہ سکو ل کی انتظامیہ کو بچوں کے اسکول میں داخلے کے وقت علم ہو جانا چاہیے کہ وہ کوئی ہتھیار ساتھ لے کر آیا ہے تو بد قسمتی سے اس کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ ہم خواتین یہاں اسپتالوں یا مارکیٹوں میں جب کسی ایک دکان میں جاتی ہیں جہاں سیکیورٹی کے لیے گیٹ لگے ہوئے ہیں تو ان سے گزرتے وقت بیپ بجتی ہے اور وہاں موجود لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ لوگوں کے پاس کئی طرح کی دھاتی اشیاء ہوتی ہیں جس کے باعث بیپ بجتی ہے، ایک ایک شخص کی جامہ تلاشی لینا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اسکول کے طالب علموں کے پاس بھی کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جس کے باعث بیپ بج سکتی ہے، ان کی بیلٹ، کلپ، گھڑی، جیومیٹری باکس یا اسی طرح کی دیگر اشیاء۔
میں نے خود اس کرسی پر بیٹھ کر دیکھا ہے کہ بچوں کے کسی چھوٹے سے چھوٹے غلط فعل کو اگر ایک دفعہ نظر انداز کر دیا جائے تو انھیں اس یا اسی نوعیت کے اعمال کے لیے حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ کیا تمہاری پہلی غلط حرکت کی رپورٹ تمہارے والدین تک پہنچی تھی کہ تم نے اپنی استاد کے بارے میں منفی رویہ یا جذبات دل میں رکھے یا ان کا اظہار کیا؟ اگر نہیں تو یہ تمہارے اسکول کی غلطی ہے، اگر تمہاری ماں کو علم ہوتا کہ تم کس راہ پر چل نکلے ہو تو وہ تمہیں ضرور سمجھاتی، باپ کو علم ہوتا تو وہ اور کچھ نہ سہی تمہارا اسکول تبدیل کر دیتا، تمہیں سمجھاتا کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا، احترام اور سفلے پن کے بیچ میں حد فاصل کیا ہے۔
بچیوں کا اپنے مرد اساتذہ اور لڑکوں کا اپنی زنانہ ٹیچرز کے لیے پسندیدگی کے جذبات کا پیدا ہو جانا کوئی غیر فطری بات نہیں، استاد آپ کی روح کی پرداخت کر رہا ہے۔ جس استاد کی بات آپ کو سمجھ آتی ہے وہ آپ کو یوں ہی اچھا لگنے لگتا ہے، جو آپ کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر آپ کی حوصلہ افزائی کر دے وہ آپ کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ آپ اس کی توجہ اور پیار کو کچھ اور سمجھ بیٹھیں۔
اتنی سی عمر میں تم نے وہ منزل طے کر لی جہاں معصومیت اپنی طنابیں توڑ کر جوانی کی حد کو چھوتی اور انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی!
کس کا قصور مانیں، کسے الزام دیں ، دوست، مشاغل، انٹر نیٹ، ٹیلی وژن، اسکول، ماں باپ یا پھر کچھ اور؟ کیا تم سوچ بیٹھے تھے کہ زندگی بڑی اسکرین پر چلنے والی دو گھنٹے کی فلم ہے یا کوئی ڈرامہ جو گھروں میں ٹیلی وژن اسکرین پر دیکھا جاتا ہے۔ کیا تم سمجھ بیٹھے تھے کہ تم کوئی ڈرامہ کررہے ہو اور پستول سے چلنے والی گولی مصنوعی ہو گی اور اس ڈرامے کے اختتام پر تم دوبارہ سے اٹھ بیٹھو گے یا تم سمجھ بیٹھے تھے کہ پستول سے چلنے والی گولی تمہیں نہیں مار سکے گی اور تمہارے اس عمل کے صلے میں حالات تمہارے موافق ہو جائیں گے؟ کیا سوچ کر تم نے اپنے پیچھے ماں باپ اور اس استاد کو زندہ درگور کر دیا ہے، انھیں عمر بھر کے لیے ان کے ضمیر کا مجرم بنا دیا ہے؟ خود تو تہہ خاک چلے ہی گئے ہو مگران کی عزت کو بھی مٹی میں رول دیا ہے!!
اس نوعیت کا ہونے والا نہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ نہ ہی ایسا ہے کہ ایسے واقعات صرف پاکستان میں ہوتے ہیں ، مگر ہمارے ہاں ان کا سدباب کیونکر ہو سکتا ہے ، جب تک ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہو گا کہ بچوں کو گھروں اور اسکولوں میں اخلاقیات سکھانا کتنا اہم ہے تب تک ایسے واقعات ہوتے ہی رہیں گے۔ بچہ جب پہلی بار غلطی کرے تو اس کی سرزنش کرنا انتہائی ضروری ہے، بسا اوقات بچہ ہمجولیوں کے ساتھ کوئی بد تمیزی کرتا ہے تو دوسرے لوگ بیچ میں پڑ کر صلح صفائی کروا دیتے ہیں کہ معاملہ دب جائے اور یوں اس بچے کے والدین اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ان کے بچے کی سوچ اور جذبات میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔
ایک بیج کو تلف کرنا آسان ہوتا ہے، اس کے بعد جب وہ دل کی زمین پر گر کر جڑ پکڑتا ہے تو بھی اسے تلف کیا جا سکتا ہے، اس کی پنیری یا چھوٹے پودے کی اسٹیج پر بھی اسے مٹانا آسان مگر جب وہ ایک مضبوط پودے یا درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اسے جتنی بار تلف کیا جائے اس کی زیر زمین جڑیں کہیں نہ کہیں سے پھوٹ پڑتی ہیں!!