عالمی گاؤں اور بیگانگی دوسرا حصہ

عالم انسانیت کو اس ترقی یافتہ دور میں پہنچانے کا سہرا مغربی ممالک کے سر ہے



قابل فکر دعوت: اقوام عالم موجودہ عالمی گاؤں میں ترقی یافتہ جدیدیت کی یکسانیت کے اپنانے کو ناگزیر تصور کرنے لگی ہیں کیونکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر ایجادات اور ان کے دم پر حاصل ہونیوالے سرمائے سے ان کو اپنی اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کے سبق رٹائے جاچکے ہیں۔ اور اب جو ''لیکس کے ابتدائیے'' پر مشتمل نیا نصاب ترتیب دیا گیا ہے، اس کے شروعاتی اثرات میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ آئس لینڈ و پرتگال کے مقدس ریاستی منصبوں پر براجمان حضرات نے اپنے اپنے مقدس ریاستی منصبوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جب کہ ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر بننے والے ملک اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات کے تحت وہاں کے اٹارنی جنرل نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

چونکہ عالم انسانیت کو اس ترقی یافتہ دور میں پہنچانے کا سہرا مغربی ممالک کے سر ہے اور جدید ترقی یافتہ ایجادات مغربی انسانی گروہوں کی مرہون منت ہیں، اسی لیے مغربی ممالک اور اقوام دنیا کے دیگر انسانوں کے لیے بہتر زندگی گزارنے اور ترقی حاصل کرنے کا ماڈل بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ کرۂ ارض کے اس عالمی گاؤں میں طاقت وعظمت کے معیار یعنی سرمائے پر بھی مغربی اجارہ داری قائم ہے، اس لیے انھی پر دیگر خطوں کو اپنے جیسا ترقی یافتہ اور وسیع النظر بنائے جانے کی خودساختہ ذمے داری عائدکی جاچکی ہے۔ چونکہ امریکا بہادر کچھ نسلوں سے اس مغربی اجارہ داری کے ہر اول دستے کے طور خدمات سرانجام دیتا آیا ہے، جس میں استعمال ہونے والا تمام تر سرمایہ اسرائیل سے متعلق انسانوں نے فراہم کیا ہوا ہے۔

شاید اسی لیے ممالک عالم کے مقتدر طبقے پر امریکی جمہوریت اور ڈالر کے حصول کے خمار نے دنیا کو ''لیکس کی وبا'' میں جکڑ لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود زمین کے اس تکون حصے کے ممالک اور مغربی ممالک میں اس وبا کی ویکسین الگ الگ ہیں۔ اس تکون حصے کے پاکستان جیسے ممالک میں لیکس کی وبا کو ختم کرنے سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا وائرس پھیل جانے کے امکانات زیادہ ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔ جب کہ مغرب میں اس کے معیار اس کے بالکل الٹ ہیں، وہاں اس وبا کے ختم کرنے کو جمہوریت کی مضبوطی جانا جاتا ہے۔

مشرق ومغرب میں جنھوں نے اس سوچ کو تقویت دی ہوئی ہے، انھی کے زیر اثر تکون حصہ کے ملکوں میں بعض وسیع النظر وجمہوریت پسند حضرات انتہائی فخریہ انداز میں ببانگ دہل یہ کہنے لگے ہیں کہ ''یہود ونصاریٰ کو برا بھلا کہنے والے آئس لینڈ اور پرتگال کی مثالوں سے کچھ سبق سیکھیں اور اپنی اصلاح وترقی کی خاطر ان کو ماڈل کے طور پر قبول کریں۔''

دماغ کو ماؤف کرنے والے اس قسم کے سیاق وسباق کے دھندلکے سے نکلنے کے لیے انتہائی ضروری بن جاتا ہے کہ بالکل غیر جانبدارانہ اور ٹھوس مادی بنیادوں پرانتہائی پرسکون انداز سے عالم انسانیت کو اس جدید عالمی گاؤں کے مکین کی حیثیت تک پہنچنے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی اقوام عالم کو دعوت فکر دی جائے۔ جس سے ان کی عظمتیں، غلطیاں اور ناکامیاں واضح ہوجانے کی صورت عالمی گاؤں کے مستقبل میں اس تکون حصے کی اہمیت وافادیت کھل کر سامنے آئے گی۔ اور تب ہم اس عالمی گاؤں اور اس کو حاصل ہونے والی جدیدیت کو لاحق خطرات کا سدباب کرنے میں جت سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں عالمی گاؤں کے معروضی صورت حال پر انتہائی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اور خود پر یہ لازم کردینا انتہائی ضروری ہوگا کہ اکثریت کی محبوب ترین اور سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والی قوم کی ترجیحات حیات و تمدنی نظام کو انھی کی مرتب ومروج شدہ جدید تحقیقاتی تاریخ میں انھی کو بہترین مثال تسلیم کرکے تجزیہ کرنا ہوگا۔

فکری حقیقتیں: زمین کے اس تکون حصے میں قبل ازتاریخ کی مکمل طور بہت ساری تباہ شدہ تہذیبوں کے زندہ وجاوید ثبوتوں میں سے برصغیر کے موئن جو دڑو اور ارض حجاز کی ثمود قوم کے پہاڑ چیر کر بنائے جانے والے گھر ان کی ترقی یافتہ عظمتوں کی بہترین مثال ہیں۔ اہرام مصر پر مبنی تہذیب فراعین کے تسلسل کا مکمل طور خاتمہ معلوم تاریخ میں ہوا تھا۔

تہذیب بابل، تہذیب فارس، تہذیب ہندوستان اور تہذیب چائنہ بھی قبل از تاریخ سے متعلق ہیں۔ لیکن تمام معلوم تہذیبوں کی طرح ان کے بھی ابتدائی ایام صیغہ راز ہیں۔ چونکہ ان تہذیبوں کی صف میں مصر کی تہذیب فراعین اپنی نرالی شان رکھتی ہے، جس کی بنیادوں کو خدائی اختیارات سے تعبیر کرکے تاریخ کے طویل ترین عرصے تک آئینی استحکام سے نوازا بھی گیا تھا۔ جب کہ اس کی ارتقائی شکل کے طور ہندوستان، فارس اور قدیم مغرب (یونان، ایتھنز و اسپارٹا) کی تہذیبوں میں خدا کے بجائے اس کے نمایندے (دیوتا) دیکھنے کو ملتے ہیں، جنھوں نے اپنی اپنی تہذیبوں کو جارحانہ انداز میں بام عروج تک پہنچایا۔

اسی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے جمہوری مغرب آج بھی SonOfGod کے انتظار میں اپنے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ جب کہ تکون حصے کا ہندوستان فاتح عالم بننے کے بجائے مقامی مسائل کے سدباب کے لیے آج بھی ایشور کے اوتاروں پر یقین تو رکھتا ہے لیکن انتہائی حیرت انگیز طور پر ان کی تاریخ میں صرف ایک ہی شری رام چندر، ایک ہی شری شیوشنکر (بھولے ناتھ) اور ایک ہی شری گنڑیش (گنڑ پتی باپا) ملتا ہے۔ اس لیے اس تہذیب میں دیوتاؤں کے عقیدے پر سیکولرزم حاوی ہوجانے کے باجود اس تہذیب کا قدیم تسلسل صرف اور صرف گنگا وجمنا کا مرہون منت ہی نظر آتا ہے۔

Xerxes دیوتا کے قدیم فارس کے جدید جمہوری ایران میں سپریم کمانڈر (ولی فقیہہ) علی خامنہ ای کو آئینی سربراہ کے ساتھ ساتھ قائم مقام مسیحا (امام) مانا جاتا ہے۔ جب کہ عظیم الشان عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے مصر، چائنہ اور بابل کے بعد تہذیب ہندوستان کا نمبر آتا ہے۔ اس فہرست میں فارس کا شمار نہیں ہوتا اور جدید عمارتوں میں تاج محل کا قدیم ہندوستانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Gold: موئن جو دڑو کو چھوڑ کر مشرقی انسانوں کے باقی تمام تمدنی نظاموں میں سونے Gold کا استعمال مغرب کی معلوم یا قبل از تاریخ کے تمدنی نظاموں کے مقابلے کچھ زیادہ ملتا ہے۔ موجودہ قومیں شمالی دروں سے آنے والوں کی نسلوں سے ہوں یا پھر جنوبی جوہڑوں میں پرورش پانے والے جرثومے کی ارتقائی شکل ہوں، ان میں عظمتوں کے اظہار کے لیے سونے پر اجارہ داری رکھنے کا نکتہ یکساں طور کام کرتے ہوئے ملتا ہے۔ جس کو موجودہ جدید ترقی یافتہ دور کے عالمی گاؤں میں بھی قوموں کی عظمت کی پہچان کے طور پر سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔ اسی لیے سونے پر اجارہ داری کو دنیا پر عملداری سے تعبیر کیے جانے کی سوچ رائج ہوچکی ہے۔

تحقیق کے انداز: عالمی گاؤں کے اس تکون حصے میں قبل ازتاریخ کی تہذیبوں میں تہذیب فراعین مصر اور ہندوستان مافوق الفطرت ومافوق المادہ مظاہروں کے لحاظ سے یکسانیت رکھتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ جس میں انسانوں کو ہاتھی، شیر، بھیڑیے سمیت دیگر جانداروں کا سر اور دھڑ رکھنے اور جوڑے جانے والے دیوتاؤں کی داستانوں میں ملتے ہیں۔ جن کا ثبوت اہرام مصر کے نقش اور مجسمے جب کہ ہندوستان میں ہاتھی کے دھڑ والے دیوتا شری گنڑیش اور یہ دھڑ جوڑنے والے دیوتا شری شیوشنکر کی پوجی جانے والی مورتیاں ہیں۔

مغرب کی تہذیب میں اس طرح کے دیوتا تو ملتے ہیں لیکن اس کے تسلسل کو ظاہر کرنے کے لیے کوئی ٹھوس مادی ثبوت کسی طور پر بھی نہیں ملتے۔ لیکن اس کے باوجود خندہ پیشانی سے تسلیم کیا جانا چاہیے کہ قبل از تاریخ کا عرصہ عالم انسانیت کی تحقیقات کا وہ دور تھا جس سے ہم اب بھی صدیوں کی مسافت پر اپنی نام نہاد ترقی کی دھول میں کہیں گم نظر آتے ہیں۔

اگر تاریخ کا طالب علم اہرام مصر پر نظر پڑتے ہی ان قدیم انسانوں کی عظیم تحقیقات کے سامنے اپنی عقل کو سجدہ ریز کردے تو حیران کن امر نہ ہوگا؟ کیونکہ مدفن فراعین یعنی اہرام مصر جیسی عظیم الجثہ عمارتیں کشش ثقل کو ختم کیے بغیر تعمیر کی جانی ناممکن دکھائی دیتی ہیں۔ جب کہ ہم ابھی صرف ثقلی لہریں ہی دریافت کرسکے ہیں، یعنی ہم برملا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دیوتا اس وقت کے عظیم محقق تھے۔ تب یہ بھی سمجھا جانا ممکن ہوگا کہ تکون حصے کی ان دو تہذیبوں اور مغربی تہذیبوں کے انسانوں کا ارتقائی مرحلہ آپس میں یک جاں ہیں۔ جب کہ قبل از تاریخ کے فارس اور چائنہ کے انسانوں میں یہ پہلو معلوم تاریخ کے نمو پذیر ہوتے تسلسل میں قائم کیا گیا نظر آنے لگتا ہے۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں