پھر امتحان درپیش ہے
جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ملک میں جڑ پکڑچکی دہشت گردی کو تہس نہس کرکے ملک کو بڑی تباہی سے بچالیا تھا
FAISALABAD:
جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ملک میں جڑ پکڑچکی دہشت گردی کو تہس نہس کرکے یقینا ملک کو بڑی تباہی سے بچالیا تھا لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ راحیل شریف کا انتخاب کرنے والے میاں نواز شریف تھے جن کی جوہر شناس اور دور اندیش نگاہوں نے فوج میں چھپے اس موتی کو تلاش کرکے اپنے منصب کے اہل ہونے کا کامل ثبوت پیش کیا تھا۔ حالانکہ اس دوران کئی چاپلوس رہنماؤں نے انھیں جنرل ضیا اور جنرل مشرف بننے کے لیے خوب ہمت افزائی کی۔ پورے ملک میں ان کے حق میں اشتہار بازی کی گئی۔
شہر شہر بینر لگائے گئے جن میں تحریر کیا گیا ''خدا کے واسطے جانے کی باتیں جانے دو'' وغیرہ وغیرہ۔ مگر راحیل شریف نے ان چاپلوسوں کو کوئی گھاس نہ ڈالی البتہ اس اشتہار بازی سے جمہوری حکومت کو ضرور تکلیف ہوئی اور یہ تکلیف غلط بھی نہ تھی کیونکہ ماضی میں بھی بعض مفاد پرستوں کی ہمت افزائی سے ہی ملک میں فوجی حکومتیں قائم ہوتی رہیں اور جمہوریت پٹری سے اترتی رہی۔
یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں اپنی ملازمت کے ختم ہونے سے قبل ہی اسلامی اتحادی فوج کی سپہ سالاری کی آفر ہوچکی تھی۔ یہ آفر اسلامی دنیا کے سب سے اہم ملک سعودی عرب سے آئی ہے۔ جہاں تک راحیل شریف کا تعلق ہے وہ عالم اسلام کے موجودہ بگڑے ہوئے حالات سے بھی بہت متفکر ہیں وہ عالم اسلام کو عالمی دہشت گردی سے نکالنے کے لیے بے چین و مضطرب لگتے ہیں۔ ویسے تو دنیا میں ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں مگر سعودی حکومت کی نظر پاکستان کے اس جنرل پر ہی کیوں پڑی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی دنیا میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو اگر کوئی مسلمان جنرل جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتا ہے تو وہ صرف تجربہ یافتہ راحیل شریف ہیں۔
اب اس وقت ملک میں تجزیہ کاروں نے ان کی بحیثیت اسلامی اتحادی فوج کے سپہ سالار تقرری کو اپنا موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔ ہرکوئی اس ضمن میں اپنے خیالات اور نظریات کو پیش کر رہا ہے اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ ان کے نزدیک یہ متنازعہ مسئلہ اس لیے ہے کہ 39 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کچھ مسلم ممالک کے مفادات کے خلاف بنائی گئی ہے اور یہ دراصل انھیں ہی نشانہ بنائے گی۔ اس طرح اسلامی ممالک جو پہلے سے ہی انتشارکا شکار ہیں مزید انتشارکا شکار ہوکر دشمنوں کا تر نوالہ بن سکتے ہیں اور پھر سے ان کے سامراجی ممالک کی نوآبادیاں بننے کا احتمال ہے۔
جن ممالک کے خلاف اس اتحادی فوج کو استعمال کرنے کا گمان کیا جا رہا ہے ان میں سرفہرست ایران، شام، عراق اور یمن ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست اور برادر ملک ہے۔ یہ ایران ہی تھا جس نے آزادی کے بعد سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد سے ایرانی حکومت ہمیشہ پاکستان پر مہربان رہی ہے۔ ہر آڑے وقت میں اس نے ہماری مدد کی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں اس نے ہماری بھرپورمددکی تھی کشمیر کے مسئلے پر ہماری ہمیشہ حمایت کی مگر نئی حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان سے پہلے جیسے سرگرم تعلقات قائم نہ رہ سکے۔
امریکی بلاک میں ہونے کی وجہ سے کچھ ہم نے بھی ایران کے ساتھ سرد مہری برتی۔ ایران نے بھی بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا اثر قبول کیا اور اس کا ساتھ دیا۔ ریڈیو ایران سے بھارت کی حمایت میں پروگرام پیش ہوتے رہے۔شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کے دوران بھارت نے ایران کو رام کرنے کے لیے اس کی چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع میں سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا مگر یہ کام گوادر بندرگاہ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا تھا تاکہ یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکے مگر پھر ہوا یہ کہ گوادر بندرگاہ تو فعال بھی ہوچکی ہے پر چاہ بہار بندرگاہ کا کام جہاں پہلے تھا اب بھی وہیں ہے۔ اس کی وجہ حالات کے بدلنے سے بھارت کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں۔
ایران کے بھارت کو فری ہینڈ دینے کی وجہ سے وہ اس کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے لگا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کا نیٹ ورک ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں ہی قائم تھا وہ اس بندرگاہ میں کام کے بہانے وہاں مقیم تھا۔ اس کا اصل مشن بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کو بڑھانا تھا۔ دراصل بھارت نے ایران کو افغانستان کی طرح اپنے مذموم مقاصدکے لیے استعمال کرنے کا خفیہ پروگرام بنایا تھا چنانچہ اس ضمن میں ہم ایران کو پاکستان مخالف نہیں کہہ سکتے بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں سے دراصل ایرانی حکومت بے خبر رہی۔ تاہم ہمارے اعلیٰ تجزیہ کار اس ضمن میں ایران کو کلین چٹ دینے کو تیار نہیں۔
تاہم بھارت نے وہاں سے ہمارے خلاف جو کچھ بھی کیا ہم نے اس کا گلہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ایران کے مفادات کا خیال رکھا۔ مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود اس کی گیس خریدنے کے لیے پائپ لائن بچھانے کے بھاری بھرکم خرچ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگئے جب کہ بھارت یقین دہانیوں کے باوجود بھی بھاگ گیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے اصرار کے باوجود بھی یمن پر حملہ کرنے والے اتحاد کے رکن نہیں بنے۔ محض اس لیے کہ ہم ایران کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اب اس وقت بھی پاکستان نہیں چاہتا کہ راحیل شریف کے اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ بننے سے ایرانی عوام کے جذبات کو مجروح کیا جائے۔
ہمارے ملک میں اس وقت راحیل شریف کے اسلامی اتحادی فوج کو جوائن کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں دانشوروں میں جو بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے وہ بھی دراصل ایران کے حوالے سے ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس اتحاد میں محض اس لیے شامل نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ایران سے ہمارے تعلقات کو زک پہنچ سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے کہ اس کا ایک سپوت اسلامی دنیا کی فوج کا سربراہ بننے جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ سعودی عرب کی طرح ایران کو بھی یہ پلس پوائنٹ حاصل ہے کہ ہر پاکستانی اس کے سلسلے میں حساس واقع ہوا ہے۔
ایران ایسا اسلامی برادر ملک ہے جس سے پاکستانیوں کو گہرا قلبی لگاؤ ہے۔ وہاں کئی آئمہ کرام کے مزارات ہیں جو ہر پاکستانی کے لیے قابل احترام ہیں جنرل راحیل اس نکتے سے خوب آگاہ ہیں۔ شاید اسی لیے انھوں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے قبل سعودی حکومت سے چند وضاحتیں مانگی ہیں جن میں یہ وضاحت بھی شامل ہے کہ اس اتحادی فوج کو ایران کے خلاف تو استعمال نہیں کیا جائے گا؟ دراصل اس وقت سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں۔ شام اور یمن کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک آمنے سامنے ہیں۔ چنانچہ راحیل شریف کا سعودی حکومت سے ایران کے سلسلے میں وضاحت طلب کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عین مطابق ہے۔
واضح ہو کہ یمن کی جنگ میں شمولیت کے خلاف پہلے ہی پاکستانی پارلیمنٹ قرارداد پاس کرچکی ہے۔ گوکہ سعودی حکومت کی جانب سے ابھی تک راحیل شریف کو کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے مگر ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سعودی حکومت ہرگز اس اتحادی فوج کو ایران کیا کسی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کرسکے گی۔ کیونکہ اس فوج کا مقصد صرف اسلامی ممالک کو دہشت گردی سے محفوظ بنانا ہے۔ چنانچہ اس اتحادی فوج سے کسی کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں ہے۔ مزید یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر راحیل شریف اس اتحاد کے سپہ سالار مقرر ہوگئے تو وہ اپنے تدبر سے ایران اور سعودی عرب کے موجودہ کشیدہ تعلقات کو دوستی میں بدل کر ہی دم لیں گے۔