غذائی ملاوٹ جان لیوا ہے
ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں ہر سطح، ہر چیز اور ہر سوچ میں ملاوٹ، منافقت اور جعل سازی ہوتی ہے
ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں ہر سطح، ہر چیز اور ہر سوچ میں ملاوٹ، منافقت اور جعل سازی ہوتی ہے۔ یہ عوامل عالمی طور پر ہوتے ہیں۔ لیکن ایک چیز میں ذرا فرق ہے اور وہ ہے غذائی اجناس کی ملاوٹ۔ سرمایہ دار تو دنیا کے ہر ملک کے محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے، تب ہی تو وہ ارب پتی سے کھرب پتی بنتا جاتا ہے۔ بعض سرمایہ دار تھوڑا بہت فلاحی کام بھی کرتے ہیں، جسے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ''گٹکا بنانے والا فیکٹری مالک کینسر کا اسپتال کھول لے''۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے وسائل کو لوٹ کر ہی آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
ان عالمی سامراجیوں نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا، کینیڈا اور ارجنٹینا وغیرہ پر دھاوا بولا اور مقامی آبادی کا قتل عام کیا، پھر یورپ سے لوگوں کو لے جا کر بسایا اور اب ان علاقوں میں مقامی آبادی برائے نام رہ گئی ہے اور جو ہے بھی وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ خود ریاست ہائے متحدہ امریکا اور جنوبی امریکا میں کالوں اور ریڈ انڈینز کا حشر دیکھ لیں۔ یہ ساری لوٹ مار، قتل و غارت گری اور استحصال اپنی جگہ پر لیکن ایک جگہ بہتر ضرور نظر آتی ہے اور وہ ہے ملاوٹ سے پاک غذا۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک غذائی ملاوٹ میں پیش پیش ہیں۔ ان میں بھی سب سے زیادہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نائیجیریا اور دیگر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔
پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دنیا کی چند بڑی آبادی والا شہر کراچی ہے، جہاں کی صورتحال حیران کن طور پر ناقابل یقین ہے۔ یہاں غذا کی ملاوٹ کی وجہ سے 80 فیصد لوگ بیمار ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ آلودہ یہاں کا پینے کا پانی، خوردنی تیل اور دودھ ہے۔ مگر اس کے علاوہ تقریباً ہر چیز میں ملاوٹ ہے، ہر چیز آلودہ ہے۔ کراچی کا بلدیہ عظمیٰ کا محکمہ خوراک دس سال سے غیر فعال ہے، قوانین میں ترمیم نہ ہونے سے معمولی جرمانے عاید کیے جاتے ہیں، جس کے باعث ملاوٹ کرنے والے بے خوف و خطر ناجائز کاروبار میں مصروف ہیں۔
اعلیٰ حکام کی غفلت، مجسٹریسی اختیارات نہ ہونے، ماہرین اور عملے کی کمی کے باعث محکمہ خوراک شہر میں ناقص اور غیر معیاری غذائی اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے قاصر ہے۔ چیف کیمسٹ کے عہدے پر غیر ہنرمند افسر تعینات ہے، کیمسٹ کی نظر انتہائی کمزور ہوگئی ہے جب کہ لیب ٹیکنیشن اور دیگر اہم عہدوں پر سٹی وارڈنز اور ڈرائیورز تعینات ہیں۔ لیبارٹری کے آلات ناکارہ ہوگئے ہیں، مضر صحت اشیا کھانے سے شہری جان لیوا بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا محکمہ خوراک جو غذائی اشیاء کی جانچ پڑتال، ریسٹورنٹ اور دکا نوں کے ماحول کی چیکنگ اور فوڈ لائسنس جاری کرنے کا ذمے دار ہے، اس کی اس پر کوئی نظر نہیں کہ 1980 سے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس سے لے کر چائے کی دکان تک فوڈ لائسنس فیس صرف دس روپے تا پچیس روپے ہے۔ سابق ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی رؤف اختر فاروقی نے کونسل اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوڈ لائسنس فیس میں پانچ ہزار تا پچہتر ہزار روپے کا اضافہ کیا تھا، تاہم سندھ حکومت نے اسے منسوخ کردیا۔ کے ایم سی کے حکام کی غفلت کی و جہ سے یہ محکمہ پچپن سال سے کوئی معمولی سی بھی کارکردگی نہیں دکھا سکا، جب کہ دس سال سے غیر فعال ہے۔ فوڈ لائسنس کی معمولی فیس کے باوجود متعلقہ محکمے کا یہ حال ہے کہ صرف پانچ ہزار ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور کھانے پینے کی دکانیں بلدیہ عظمیٰ سے رجسٹرڈ ہیں۔
ادارے کی غفلت کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ سالانہ صرف ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ اس وقت محکمے میں ماہرین اور عملے کی شدید کمی ہے۔ اہم ترین پوسٹ چیف کیمسٹ کے لیے ایم ایس سی کیمسٹری یا ایم ایس سی بائیو کیمسٹری اور پانچ سال کا تجربہ لازمی ہے۔ دوسری اہم پوسٹ کیمسٹ پر تعین افسر کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مینوئل طریقے سے صرف مرچ، مصالحہ جات اور دودھ وغیرہ کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں جب کہ جدید لیباریٹری نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ خوراک برگر، سینڈوچ، بیکری آئٹم، چاکلیٹ اور تیل وغیرہ کے نمونے کے ٹیسٹ کرنے سے قاصر ہے۔ محکمے کے پاس صرف بارہ فوڈ انسپکٹر ہیں جن کے ذریعے پورے شہر کا سروے کرنا ناممکن ہے۔
غذائی اجناس میں ملاوٹ کے ڈھائی ہزار مقدمے تیار کرکے متعلقہ مجسٹریٹ کو بھجوائے گئے تھے، تاہم 1960 کے بنائے گئے خوراک کے قوانین کے تحت ملاوٹ کرنے والے صرف پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرکے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں، جب کہ کراچی میں دس لاکھ دکانوں اور کارخانوں کو رجسٹرڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان تمام کوتاہیوں اور نااہلیوں سے بالاتر ہوکر اگر دیکھا جائے تو کراچی اور ملک بھر میں تین چیزوں میں سب سے زیادہ اور دھڑلے سے ملاوٹ اور آلود گی ہوتی ہے، وہ ہیں پانی، دودھ اور تیل۔ کسی بھی دودھ کی دکان پر سو فیصد اصلی دودھ نہیں ملے گا۔ چالیس سے ساٹھ فیصد پانی اور دیگر اشیاء کی ملاوٹ ہوتی ہے، اس کے باوجود انسپیکشن کی ٹیم کبھی آتی بھی ہے تو صرف رشوت جمع کرنے کے لیے۔ بعض دودھ تو، ڈبہ بند ہو یا کھلا دودھ، دودھ ہوتا ہی نہیں، اس میں سفید رنگ کا کیمیکل اور دیگر ایک درجن مضر صحت ادویات استعمال ہوتی ہیں۔ جہاں تک پینے کے صاف پانی کی بات ہے تو کرا چی اور ملک بھر کے شہریوں کو جراثم سے پاک پانی میسر نہیں۔ یہاں تک کہ مختلف کمپنیوں کا منرل واٹر بھی صاف شفاف نہیں ہے۔
کسی میں منرل نہیں ہے تو کوئی جراثیم سے پاک نہیں۔ یہی سرکاری پانی کا حال ہے۔ ایک تو پانی ہر وقت اور بلاناغہ عوام کو ترسیل ہی نہیں ہو پاتا اور جو ہوتا ہے اس میں جراثم ہوتے ہیں اور منرلز کی بھی کمی ہوتی ہے۔ یہی صورتحال خوردنی تیل کی ہے۔ خوردنی تیل کا بڑا حصہ بیج کے بجائے چربی کا ہوتا ہے۔ کراچی بھر کی مرغی، گائے، بکرے، بھینس، اونٹ اور بھیڑ کی چربی، آنتیں، ہڈی اور چھیچھڑوں سے تیل بنایا جاتا ہے۔ صرف ابراہیم حیدری لانڈھی، کورنگی میں ان چربی سے تیل بنانے کی درجن بھر فیکٹریاں ہیں۔ یہاں چربی سے تیل تیار کرکے باقاعدہ کنستروں میں پیک کرکے، فیکٹریوں کے لیبل چپکائے جاتے ہیں اور پھر ٹھیلے والوں سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں تک سپلائی کیا جاتا ہے۔
ٹی وی چینلز پر بارہا ایسی فیکٹریاں اور پروسیس کرتے، ترسیل کرتے اور ہوٹلوں تک پہنچانے کی وڈیو دکھائی جاچکی ہے۔ چند ایک کو معمولی جرمانہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ٹماٹو کیچپ بغیر ٹماٹر کے بنائے جاتے ہیں۔ اس کی فوٹیج اور تفصیلات ہر ٹی وی چینیلز کے پاس موجود ہے۔ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ ہمارے حکمران قیمتی گاڑیوں، قیمتی عمارتوں، اسلحہ سازیوں اور بم بنانے میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، یعنی کہ لوگوں کو مارنے میں زیادہ اور بچانے میں کم دلچسپی لیتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔