سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے رابطے
قوم پرست جماعتوں کے سپنا نامی اتحاد کو نشان الاٹ کروا کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اب صرف ’سپنا‘ معلوم ہو رہا ہے۔
علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت نہیں کرتے،ڈاکٹر قادر مگسی۔ فوٹو: فائل
سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی اور عوامی تحریک نے حکومت مخالف جلسوں اور مظاہروں کے سیاسی میدان میں پیش قدمی جاری رکھی۔
گذشتہ سال کے آغاز پر حکومت مخالف تحریک کے لیے سرگرم ہونے والی قوم پرست جماعتوں کے سندھ پروگریسیو نیشلسٹ الائنس (سپنا) نامی اتحاد کو نشان الاٹ کروا کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اب صرف 'سپنا' معلوم ہو رہا ہے، کیوں کہ ان جماعتوں نے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے دوسری جماعتوں سے انفرادی حیثیت میں بات چیت شروع کر دی ہے اور اس اتحاد سے متعلق عدم دل چسپی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
گذشتہ ہفتے سندھ ترقی پسند پارٹی کی سندھ کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں سندھ بھر سے نوے وفود شریک ہوئے، اجلاس میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں، اور سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس بل کو لسانی بنیادوں پر سندھ کی تقسیم کی سازش قراردیتے ہوئے اسے ایک بار پھر مسترد کر دیا گیا، جب کہ بل بنانے اور سندھ اسمبلی میں اس کی منظوری دینے والوں کو سندھ کا غدار قرار دیتے ہوئے ان کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔
اجلاس میں حکومت پر واضح کیا گیا کہ عام انتخابات میں کسی صورت میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، اس لیے نگراں حکومت بناکر مقررہ وقت پر الیکشن کرائے جائیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت کراچی میں نئی حلقہ بندی کرائی جائے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ کالاباغ ڈیم کے بارے میں پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن کو واضح کرے اور ڈیم کے منصوبے کو فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا جائے اور دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہ بنایا جائے۔ اجلاس کے اختتام پر پارٹی چئیرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایس ٹی پی علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت نہیں کرتی، معلوم نہیں کہ ان کا آصف علی زرداری سے کیا مک مکا ہوا ہے، متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ان کی ہم آہنگی سے ان کا مستقبل کا منصوبہ واضح ہو جاتا ہے، لیکن عوام الیکشن کا التواء کسی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ علامہ طاہر القادری اسکالر ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں، لیکن کبھی اسکالر کے تجزیے میں بھی کوتاہی ہو جاتی ہے، سیاست اور ریاست الگ الگ نہیں ہیں اور مثبت سیاسی فکر اور نظریے کے ذریعے ہی ریاست کو اچھے طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور شریک چیئرمین آصف زرداری کے ستائیس دسمبر کے خطاب میں سندھ بحیثیت ایجنڈا موجود نہیں تھا، دونوں کا خطاب پرانی کیسٹ تھا، جس میں عوام کے لیے کچھ نہیں تھا، انھوں نے سیلاب زدگان کے لیے ایک لفظ تک نہیں بولا جو افسوس ناک بات ہے، موجودہ حکومت نے پانچ سال میں ملک کو کھربوں روپے کا قرض دار بنا دیا، انھوں نے الزام عاید کیا کہ پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ ایسا کوئی سانحہ رونما کرا دیا جائے کہ اس کا اقتدار جاری رہے یا پھر عام انتخابات ملتوی کرا کے ملک کو کسی فوجی آمر کے حوالے کر دیا جائے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ پیپلزپارٹی فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ کااعلان کرے۔ انھوں نے بتایا کہ قومی اسبملی کی نشستوں پر امیدواروں کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے، جس کا حتمی فیصلہ ایس ٹی پی کی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ٹی پی عام انتخابات قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سپنا کے باہمی مشورے سے لڑے گی، ان انتخابات میں نون لیگ، فنکنشل لیگ، جے یوآئی اور اے این پی کے ساتھ علاقائی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی تاکہ پیپلز پارٹی، متحدہ اور قاف لیگ کو شکست دی جائے۔
ایس ٹی پی کی سندھ کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کی قیادت میں ایک وفد نے ڈاکٹر قادر مگسی سے ملاقات کر کے انھیں پاکستان عوامی تحریک کے لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی، تاہم ڈاکٹر قادر مگسی نے فوری طور پر علامہ طاہر القادری کے حوالے سے وہ مؤقف اختیار نہیں کیا جو سندھ کونسل کے اجلاس میں کیا تھا، بلکہ انھوں نے لانگ مارچ کی حمایت یا مخالفت کو پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے فیصلے سے مشروط کر دیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر رحیق احمد کا کہنا تھا کہ حکم رانوں نے ملک میں کرپشن کا راج قائم کر رکھا ہے، وڈیرے اور جاگیردار غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں، ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ہم لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کی قیادت میں وفد نے پلیجو ہاؤس میں عوامی تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر عبدالقادر رانٹو، جنرل سیکریٹری انور سومرو اور سید عالم شاہ سے ملاقات میں انھیں لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔ وفد نے جامشورو میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں ڈاکٹر دودو مہری بھی شریک تھے۔ ملاقات میں سید جلال محمود شاہ کا کہنا تھا کہ ایس یو پی شفاف الیکشن کے مطالبے پر اتفاق رائے رکھتی ہے، پاکستان عوامی تحریک کو سندھ کے قوم پرستوں سے لانگ مارچ کے لیے زبانی حمایت تو مل جائے گی لیکن سندھ کے قوم پرست اس لانگ مارچ میں شاید دو نکات کی وجہ سے شامل نہ ہوں۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے حیدرآباد میں 14 جنوری کے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار، حیدرآباد آئے، گو کہ وہ انیس احمد خان قائم خانی کے والد کے انتقال پر فاتحہ اور سوئم میں شریک ہونے آئے تھے، لیکن مقامی صحافیوں کے سوال کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ جاگیردارانہ نظام، طالبانائزیشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، عوام فیصلہ کر لیں کہ انھیں کیا چاہیے، متحدہ قومی موومنٹ عام انتخابات اقتدار کے لیے نہیں بلکہ پاکستان بچانے کے ایجنڈے پر لڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے صرف ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت نہیں کی بلکہ واضح کر دیا ہے کہ مستقل تبدیلی کے لیے جو بھی آواز بلند ہو گی یا تحریک چلے گی تو ایم کیو ایم اس کے ساتھ ہو گی۔ صرف کراچی میں نئی حلقہ بندی کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے خلاف الیکشن میں دھاندلی کا آغاز ہے اور یہ غیرآئینی و غیر قانونی بھی ہے، حلقہ بندی اور پورا انتخابی عمل کسی کی خواہش کے تابع نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے، صرف کراچی میں حلقہ بندی کرنا دراصل ایم کیو ایم، اس کے کارکنوں، کراچی اور وہاں کے عوام کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے۔
آئین و قانون تحت مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندی کرنے کا الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں، الیکشن کمیشن کا بھی ایک سال تک یہی موقف تھا کہ نئی مردم شماری ہونے تک نئی حلقہ بندی نہیں ہو سکتی، لیکن اب اچانک الیکشن کمیشن نے اپنا موقف تبدیل کرلیا، معلوم نہیں کہ کس دباؤ یا خوف کے تحت ایسا کیا گیا، اگر مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی کرنے کے حوالے سے آئین میں کوئی سیکشن موجود ہے تو اسے ایک سال تک کیوں ظاہر نہیں کیا گیا۔