مقامی سیاست پر تبدیلی کے سائے

پیپلز پارٹی سکھر میں وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ اور سینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان سرد جنگ کی باتیں عام ہیں۔


Parvez Khan January 01, 2013
2013 کے انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کی جانب سے خورشید شاہ کو اپنے حامی امیداوار میدان میں اتارنے میں مشکلات ہوں گی۔ فوٹو: فائل

ضلع سکھر میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے۔ حال ہی میں پی پی پی کے ساتھ قدم ملانے والے تاج محمد شیخ، ان کے چھوٹے بھائی محمد اسلم شیخ، سابق ضلعی ناظم سید ناصر حسین شاہ، روہڑی، پنوعاقل سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ کے حصول کے لیے متحرک نظر آ رہے ہیں۔

شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر صدر آصف علی زرداری سے تاج محمد شیخ کی ون ٹو ون ملاقات آیندہ دنوں میں سکھر کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ گذشتہ برس مہر گروپ سے ٹوٹ کر پیپلز پارٹی سے جڑنے والے شیخ برادران اور سید ناصر حسین شاہ کی وجہ سے جہاں اس جماعت کی قوت میں اضافہ ہوا ہے، وہیں طویل عرصے سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر من پسند افراد کو ٹکٹ دیے جانے کا سلسلہ بھی تھم گیا ہے۔ اب ایک ایسا سسٹم ترتیب دیا جا رہا ہے، جس سے ضلع سکھر کی سیاست پر حاوی شخصیات کی من مانیوں کو ختم کیا جاسکے۔

وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ، سینیٹر اسلام الدین شیخ، رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کے درمیان سرد جنگ کی باتیں عام ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے دوران اسلام الدین شیخ، تاج محمد شیخ، سید ناصر حسین شاہ کی سرگرمیوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عام انتخابات میں سید خورشید احمد شاہ کو اپنے نام زد کردہ امیدواروں کو ٹکٹ دلانے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سینیٹر اسلام الدین شیخ اور طویل عرصہ تک خاموش رہنے والے تاج محمد شیخ کی جانب سے اپنی سرگرمیاں بڑھانے اور صدر آصف علی زرداری سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ نگراں حکومت سے لے کر عام انتخابات میں بھی ضلع سکھر کے نتائج ماضی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اگر سکھر ہائوس اور شیخ ہائوس کو ضلع سکھر کی سیاست میں نظر انداز کر کے دیگر شخصیات کو ٹکٹ دیا گیا تو پیپلز پارٹی کی عام انتخابات میں کام یابی مشکل ہو جائے گی۔

ضلع سکھر بالائی سندھ کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے اور یہاں سے منتخب سیاسی جماعتوں کے نمایندے قومی اور صوبائی سطح پر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس شہر میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران بے نظیر بھٹو کی برسی اور مہر خاندان میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے سیاست دانوں کی آمد، مہمان نوازی کے دوران یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ کون سا سیاست داں کس سے ہم دردی رکھتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد و دیگر ذمے داروں کی محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری، سکھر کے مختلف ذمے داروں سے ملاقات بھی اہمیت کی حامل ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ سکھر زون کی جانب سے نگراں حکومت میں سکھر سمیت بالائی سندھ کی نمایندگی کے لیے فہرستیں مرتب کر لی گئی ہیں اور ایک تفصیلی رپورٹ مرکز کو ارسال کردی گئی ہے۔ بات کرتے ہیں جمعیت علمائے اسلام کی جس نے پچھلے دنوں محمد بن قاسم پارک میں علماء کنونشن کا انعقاد کیا۔ اس میں سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، کندھرا، سمیت بالائی سندھ کے نام ور علماء نے بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور جے یو آئی کے مرکزی راہ نما مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان، مسلم لیگ ن کا ٹائیگر پاکستان اور عمران خان کا سونامی دفن ہو چکا ہے، پاکستان میں عدلیہ، جمہوریت، سیکورٹی فورسز، میڈیا اور ادارے مظلوم نہیں بلکہ اسلام، رسالت اور بچیوں کا پردہ مظلوم ہے، اگر علماء مسجد و منبر کو استعمال کرتے ہوئے دینی قوتوں کا ساتھ دیں تو اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ صدر زرداری اپنے والد حاکم زرداری اور اپنی ساس نصرت بھٹو کی عیادت کرنے تو نہیں گئے۔

مگر طاغوتی طاقتوں کے اشاروں پر ملالہ کی عیادت کرنے جاتے ہیں، ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے سیکڑوں معصوم بچے اور بچیاں، کراچی میں علماء اور طالب علموں کی شہادتوں کا نوٹس نہیں لیا جاتا، اگر اچھالا جاتا ہے تو ملالہ کے ایشو کو اچھالا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن نزدیک آتے ہی فراڈیے ایم پی اے، ایم این ایز لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اس وقت عوام خوش ہو کر ووٹ دے دیتے ہیں، حقیقی قیادت کی کام یابی کے لیے کوشش نہیں کی جاتی، اگر اپنی روش تبدیل نہ کی تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔

اس وقت کوئی ادارہ، سیاست کی مشینری دینی قوتوں کا ساتھ نہیں دے رہی بلکہ ہمارے جلسے کے موقع پر ٹرین مارچ کروانے سمیت قوم پرستوں کی جانب سے ہڑتال کرائی جاتی ہے، کفر کی طاقتیں پاکستان سے اسلام کو مٹانا چاہتی ہیں، مگر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سیکولر ازم کے مقابلے میں اسلامی نظام نافذ کرکے دم لیں گے۔

جے یو آئی کی جانب پچھلے چھے ماہ سے نہایت منظم انداز سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہے، جس سے محسوس ہو رہا ہے کہ آیندہ دنوں میں بالائی سندھ کے سیاسی نتائج مختلف ہوں گے۔ ضلع سکھر میں جے یو آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدواروں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔

اب تک پی ایس 1سکھر سے جے یو آئی کی طرف سے آغا سید محمد ایوب کا نام لیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سے وابستہ مقامی راہ نمائوں کا انتخابی ٹکٹ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی سٹی کے صدر مشتاق سرہیو، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ارشد مغل محفلوں میں عام انتخابات میں خود کو انتخابی امیدواروں کی فہرست میں شامل بتا رہے ہیں، جس سے پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو حکم راں جماعت کے لیے سیاسی اسٹیج پر مزید کانٹے اگنے کی توقع ہے۔

گذشتہ دنوں ملازمت، ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کیے جانے پر چوہان برادری کی طرف سے ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ ضلع سکھر میں بسنے والی مختلف برادریوں نے بھی سیاست دانوں سے مایوس ہوکر اپنی الگ جدوجہد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، چوہان برادری کے سردار سکندر علی چوہان، منور علی چوہان، نورالدین چوہان اور دیگر نے یہ اعلان کیا کہ آیندہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کے بجائے ضلع سکھر کی تمام قومی، صوبائی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ منتخب نمایندوں نے الیکشن کے وقت چوہان برادری سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس ریلی کا مقصد انتخابات کے لیے باضابطہ طور پر مہم شروع کرنا ہے اور چوہان برادری کے ایسے افراد کو سامنے لایا جائے گا، جن کی ساکھ اچھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں