نیک خواہشات

ایسی ہی خواہش اور حسرت لیے عمران خان کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوکرمیدانِ سیاست میں وارد ہوئے۔


Dr Mansoor Norani January 25, 2017
[email protected]

KARACHI: خان صاحب لاکھ انکارکریں لیکن اُن کی دلی آرزواور تمنا یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اِس ملک کے وزیرِاعظم بن جائیں کیونکہ جب کوئی سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لے تو اُس کے مدنظر صرف ایک ہی مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ وہ کم ازکم ایک باراقتدار کا یہ ہما اپنے سر پرسجا لے اور تاریخ میں اُس کا نام بھی وزیرِاعظم کی فہرست میں شامل ہوجائے۔

ایسی ہی خواہش اور حسرت لیے عمران خان کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوکرمیدانِ سیاست میں وارد ہوئے۔ابتدا میں اُنہوں نے ملک سے ناخواندگی کے خاتمے کے لیے نیک خواہشات کا اظہارکیا اور ایسا انقلابی پروگرام شروع کرنے کا عندیہ دے ڈالا کہ ہرکوئی اُن کی آواز پر لبیک کہنے پرمجبور ہوجائے۔ ناخواندگی ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے ابھی تک کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی، لہذا خان صاحب نے جب یہ آواز بلندکی تو ہرکوئی اُنہیں خوش آمدید کہنے کے لیے آگے بڑھا۔ یہ آج سے تقریباً بیس سال پرانی بات ہے، مگر خان صاحب اپنے اِس مقصد میں سرخرو نہ ہوپائے۔ اُنہیں بہت جلد یہ احساس ہوگیا،کہ اقتدار حاصل کیے بنا یہ معرکا سر نہیں ہوپائے گا۔

اُنہوں نے اپنا یہ مشن ادھورا چھوڑ کرسیاست میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کردیا۔ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلندکر ڈالا۔وہ پندرہ سولہ برس تک بظاہر ایسی ہی صاف ستھری سیاست کے امین بنے رہے۔ ملک میں ہونے والے الیکشنوں میں بھی اگر حصہ لیا تو صرف ایسے لوگوں کو پارٹی کاٹکٹ دیا جو سیاست میں بالکل نئے تھے یا جن سے ہمارے عوام پہلے کبھی واقف نہ تھے۔

نتیجتاً وہ کوئی کمال نہ دکھا پائے۔پارٹی صرف جس ایک ہی فرد تک محدود ہوکر رہ گئی اور وہ صرف اُن کی اپنی ذات تھی۔ پندرہ بیس برسوں کی مشقت کے بعد بھی وہ نہ تعلیمی میدان میں اور نہ سیاسی میدان میں کوئی کرشمہ دکھا سکے۔عمرگزرتی رہی اور وزارتِ عظمیٰ کا خواب تشنہ تعبیر بنتا چلاگیا۔ 18کروڑ افراد میں سے وہ اپنے ارد گرد چند ایسے قابلِ اعتماد ساتھی بھی جمع نہ کرپائے جن کے دامن میں دیانت، پاکیزگی اور سیرت وکردار کا سرمایہ موجود ہو۔سیاسی ناکامیوں کے اثرات اُن کے ذاتی اور ازدواجی زندگی پر بھی پڑنے لگے اور بات چپقلش اور ناراضگیوں سے بڑھ کر علیحدگی پر منتج ہوئی۔ پھر 2011ء میں اچانک اُن پر یہ اسرارو رموز منکشف ہوئے کہ اگر وہ صالح اور باکردار لوگوں کی تلاش میں یونہی سرگرداں ہی رہے تو زندگی نامرادیوں کے بھنور میں پھنستی چلی جائے گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پھر وہ تمام مقدس اُصول اورضابطے چھوڑ کر اُن روایتی سیاستدانوں سے رسم ورواج بڑھانے پر مجبور نظر آئے جن پر وہ خود قومی دولت لوٹنے کا الزام لگاتے رہے تھے۔ 2013ء کی انتخابات میں ایک بار پھر اُمیدواروں کی سلیکشن میں اُن سے غلطی ہو گئی اور وہ چند ایک سیٹوں کے علاوہ مضبوط اور قابل اُمیدوار میدان میں اُتار نہیں پائے۔انتخابات میںاپنی شکست کو بظاہر اُنہوں نے تسلیم توکرلیا مگر اپنے دل سے یہ غم وہ بھلا نہیں پائے۔

2018ء تک انتظار اُن کے لیے بہت مشکل تھا لہذا وہ شدید اضطراب کے عالم میں ہر اُس کام پرآمادہ دکھائی دیے جس کا انجام ملک، جمہوریت اورخود اُن کے اپنے لیے شاید مفیدنہ تھا۔کچھ خفیہ طاقتوں کے اشارے پر لانگ مارچ اور دھرنے کا پروگرام لے کر سڑکوں پر نکل پڑے۔دھرنے کا اسکرپٹ لکھنے والوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان عوامی تحریک کے طاہرالقادری کو بھی اُن کے ساتھ ملایا بلکہ انتشار اور ہنگامہ آرائی کے مقصد سے ہراول دستے کے طور پر اُنہیں آگے رکھا۔

اسمبلیوں سے استعفے دیے گئے، سول نافرمانی کا اعلان کیاگیا، بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانیوں سے رقوم بینکوں کے ذریعے نہ بھجوانے کا غیر دانشمندانہ مشورہ صادرکیا گیا،مخالفین کو برا بھلا کہا گیا۔ اعصاب اخلاق پرکلہاڑے چلائے گئے۔طنزواستہزاء کا نشانہ بنایاگیا۔گویا جمہوری استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے ہر وہ عمل کیا گیا جس سے جمہوریت کی نفی کی جاسکے۔126دنوں تک اسلام آباد میں حکومت کی اتھارٹی اوررٹ کو ہر طرح سے چیلینج کیاگیا۔ پشاور میں آرمی پبلک اِسکول میں ہونے والی اندوہناک دہشتگردی کے بعد اُن کا یہ دھرنا بالآخرسرخروئی کی بجائے ہزیمت کا تاثر لے کر اختتام پذیر ہوا۔

2015ء خیریت سے گزرگیا لیکن پھر اپریل 2016ء میں اُن کے ہاتھ پانامہ پیپرزکا معاملہ آگیا جسے و ہ نعمتِ غیر مترقبہ جانتے ہوئے ایک بار پھر حکومت کے خلاف زور آزمائی کے لیے تیار ہوگئے۔2018ء کے انتخابات سے قبل یہ شاید اُن کے لیے آخری موقع ہو جسے درست اور صحیح طور پر استعمال کرکے وہ اپنے وزیرِاعظم بن جانے کے خواب کو شرمندہ تعبیرکر پائیں گے بصورتِ دیگر وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کارکردگی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر وہ یہ معرکہ کبھی سر نہیں کرپائیں گے۔

ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے خان صاحب کے نظریے یا باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہے مگر وہ جس طرح اِسے لے کر ہنگامہ آرائی اور محاذ آرائی کی سیاست کو پروان چڑھا رہے ہیں اُس سے بہرحال اختلاف کیا جاسکتا ہے۔اُن کے اردگرد بھی ایسے ہی لوگوں کا مجمع دکھائی دیتا ہے جن کے ہاتھ مالی بدعنوانیوں اورکرپشن سے پاک نہیں ہیں۔ ہر وہ شخص جس کو اُس کی اپنی پارٹی کوئی اہمیت نہیں دیتی وہ ناراض ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوجاتا ہے۔ شیخ رشید جن کے بارے میں ماضی میں دیے گئے خان صاحب کے خیالات سے ہمارے یہاں کون واقف نہیں ہے مگر آج جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے بعد وہی اُنہیں سب سے عزیز ہیں۔دیکھا جائے تو خان صاحب کی ناکامیوں میں ایسے ہی لوگوں کا خاصہ عمل دخل رہا ہے۔

پانامہ کیس کو لے کر وہ صرف میاں صاحب کو ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں، جب کہ کرپشن کے خلاف اگر جہاد کرنا مقصود ہے توہر اُس شخص اور پارٹی کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا جن کے ہاتھ اور دامن سبھی کچھ کرپشن کی دولت سے رنگے ہوئے ہیں، مگر وہ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کاشکار ہوکر سوائے میاں صاحب کے سبھی سے سمجھوتہ کرنے پر رضامند دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں سے بھی اگر کوئی ٹوٹ کر آج خان صاحب کی پارٹی میں آجائے وہ اُس کے سارے گناہ معاف کرکے فوراً گلے لگا لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے مشن میں کامیابی حاصل نہیں کرپائے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لڑائی کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ذاتی عناد اور دشمنی پر مبنی معرکہ آرائی ہے۔

کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد اُن کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اُن کی اب تک کی ساری سیاست کا دارومدار صرف اور صرف پانامہ کیس کے فیصلے پر منحصر ہے۔اِس کیس کا فیصلہ اگر میاں نواز شریف کے خلاف آگیا تو پھر 2018ء کے انتخابات میں خان صاحب کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ بصورتِ دیگر اُن کا اِس ملک کے وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہونا محال ہی دکھائی دیتا ہے۔

مسلسل محاذ آرائی کی سیاست اور دنگا فساد سے ہمارے عوام اب اُکتا چکے ہیں۔ وہ اِس ملک کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔خان صاحب کو بھی چاہیے کہ اسلوبِ بیاں میںشائستگی اور صالحیت کو اپنا طرہ امتیاز بنائیں اور حریفانہ مہم جوئی چھوڑکر صبرواستقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے عملی اور تعمیری سیاست کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔ تبھی جاکر انکا خواب شاید شرمندہ تعبیر ہوپائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں