جانگلوس
ویسے یہ ان بڑے لوگوں کی محبت تھی جو نوآموز صحافی حضرات کو بھی وقت دے دیتے تھے۔
انھوں نے میری پوری بات خاصی توجہ سے سنی اور پھر بولے۔
''بیٹا! آپ نے میری کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں۔''
''جی۔۔۔!''
سوال کچھ اس طرح پوچھا گیا تھا کہ جواب دینا ضروری تھا لیکن پھر بھی وہ سنبھال گئے۔ میں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان میں سے بہت سی کتابیں خاصے سنجیدہ موضوعات پر ہیں جو آپ کے بس کی نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی میں نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جیسے جانگلوس، خدا کی بستی، تیسرا آدمی، کیمیا گر، راتوں کا شہر وغیرہ۔ پہلے آپ ان کتابوں کو پڑھیں اور اس کے بعد آپ بے شک میرا انٹرویوکریں میں حاضر ہوں۔
یہ تھی مختصر سی بات چیت جو ہماری مرحوم شوکت صدیقی سے ہوئی تھی۔ بچپن سے غائبانہ تعارف تو تھا کہ ''خدا کی بستی'' جیسے ڈرامہ سیریل کو تحریر کرنے والے شوکت صدیقی ایک بہت بڑے لکھاری ہیں۔ان کے ہاتھ کے لکھے اسکرپٹ بھی گھر میں آتے تھے۔ توگویا کوئی بات ہی نہیں۔ پھرحال ہی میں ایک سینئر کے ساتھ جمیل الدین عالی اور مشہورشاعر تابش دہلوی کا بھی انٹرویوکیا تھا۔
ویسے یہ ان بڑے لوگوں کی محبت تھی جو نوآموز صحافی حضرات کو بھی وقت دے دیتے تھے۔ اتفاق سے جمیل الدین عالی سے شناسائی کا سلسلہ شوکت صدیقی کے فون نمبر تک چلا تھا۔ تابش دہلوی ہمارے گھر کے قریب رہتے تھے انتہائی نفیس پیار کرنے والے انسان تھے۔ آج تک ان کا شفیق رویہ یاد ہے۔ سمجھانے کے سے انداز میں بات کرتے ان کا خیال تھا کہ پرانی نسل کو نئی نسل سے خود دور نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے قریب رہنا چاہیے تاکہ دونوں ایک دوسرے کو باہم سمجھ سکیں۔ وہ ہماری سینئر سے بات کرتے اور ہمیں بھی متوجہ کرتے۔ سنا بیٹا ! اور ہم کہتے۔۔۔۔جی سر!
بات ہو رہی تھی شوکت صدیقی مرحوم کی۔ اس وقت کتابوں سے اس قدر شغف نہ تھا۔ رسالے، گانے،فلمیں، ڈرامے وغیرہ۔کچھ پڑھ بھی لیا اور ذہن میں کچھ رہا نہ رہا۔اردو شاعری اور ادب سے غرض اتنی ہی تھی کہ امتحانات میں تیاری کے لیے ضروری تھا کہ اچھے نمبر لیے جائیں۔
کچھ عرصہ قبل ''جانگلوس'' پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جب پہلی بار انکل نے ہاتھ میں اسے تھمایا تھا تو اس کے وزن اور حجم کو دیکھ کر سوچا تھا کہ اسے پڑھے گا کون؟ کئی دنوں تک ایسے ہی رکھی رہی۔ مٹی اوردھول پڑتی رہی لیکن کہتے ہیں ناں کہ سچائی خود اپنا احساس دلاتی ہے تو ایک دن اسے اٹھایا اورسوچا کہ ہمت کرکے تو دیکھو اور ہمت کی، پہلی بار احساس ہوا کہ کہاں سے اٹھ کر آئے ہیں،کیسے آئے ہیں، ارد گرد کیا ہوچکا ہے،کیا ہو رہا ہے۔ ''جانگلوس'' ہمارے اسی ملک کی کہانی ہے۔ چھوٹے چور اوربڑے چور کی کہانی جو پاکستان بننے سے پہلے کی ہے اور آج تک جاری ہے۔
اس میں ایسی ایسی تلخ حقیقتیں پوشیدہ ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ایک دردمند انسان بے ساختہ رو پڑتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جنھوں نے اسے تنکا تنکا کرکے اکٹھا کرکے لکھا وہ خود کتنے حساس ہوں گے۔ بہت سی باتیں تو ایسی ہیں کہ شاید یقین کرنے کا بھی دل نہ چاہے لیکن پھر مجھے اپنے ایک فرینڈ کی بات یاد آجاتی ہے جس نے پاکستانی فلموں کی بے باکی سے متعلق کچھ کہا تھا اور میں نے شدت سے مخالفت کی تھی کہ ایسا ہماری پاکستانی فلموں میں نہیں ہوسکتا اور اس نے ہنس کر مجھے جواب دیا تھا۔
''تم سب کو اپنی طرح کیوں سمجھتی ہو۔ سب تمہاری طرح نہیں ہوتے پاگل۔''
پاگل ہونے کا مرض بھی بہت عجیب اور محفوظ ہے۔ بہرحال جانگلوس میں پوری طرح جس معاشرے کی عکاسی کرنے کی شوکت صدیقی مرحوم نے کوشش کی۔ اس میں تخیل پسندی نہیں بلکہ حقیقت پسندی شامل ہے۔ اس ناول کو بعد میں ٹی وی پر ''ڈرامہ سیریل'' کی شکل میں بھی پیش کیا گیا لیکن یقیناً ان تمام باریکیوں کو اس طرح دکھانا پروڈیوسر کے لیے آسان ہوگا یا مشکل۔ لیکن پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ دریا کوکوزے میں بند کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں ہر طبقے میں کرپشن نے جس طرح اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔
اس سے ایک طویل عرصے ہمارے ملک میں سیاسی تبدیلیاں ہوا میں پینگ بھرتے جھولے کی مانند آئی اورگئی۔ سکندر مرزا کے دور سے لے کر بعد تک عوامی حلقوں میں کیا کچھ ہوا سوچا گیا، برتا گیا۔کیا اس سے لیڈرحضرات واقف تھے؟ ماضی کو پڑھ کر دیکھ لیں کیا کیا سلوک روا رکھا قدرت نے ان بڑے لوگوں سے ہم پھر بھی صرف کہانی کوکہانی ہی سمجھتے ہیں۔
آج کے صحافت کے طالب علم کو ایسی ناولزضرور پڑھنی چاہیے تاکہ انھیں علم ہوکے کل کیا کچھ ہوچکا ہے یہ سب کورس کی کتابوں میں کہیں تحریر نہیں ہوتا کیونکہ کورس میں بس وہی تحریر ہوتا ہے، جس کے کان، ناک غائب کرکے ایک پیارا سا مکھڑا تخلیق کرکے بڑے سے بورڈ پر چپکا دیا جاتا ہے اورسمجھایا جاتا ہے کہ بچو! یہ ہے ہمارا ماضی۔ دیکھا ہم کتنے سوہنڑے تھے۔ ہمارے بڑے اتنے پوتر تھے۔ پھر بھی پتہ نہیں کیسے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہ ساری کارگزاری امریکا کی ہے۔ بھارت کی ہے، روس کی ہے، ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، یہودی لابی ہے، ان کے ایجنٹ کام کررہے ہیں۔وغیرہ وغیرہ
سخت کوفت ہوئی تھی جب شوکت صدیقی مرحوم کا انٹرویو نہ ہوسکا تھا اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔(آمین)
کیا ہمیں ایسے لوگوں کو بھلا دینا چاہیے جنھوں نے اپنی انتھک محنت، عرق ریزی اور جانفشانی سے ایسے ناولز تخلیق کیے جو ہمارے جیسے اپنے ملک سے محبت کرنے والوں کوکچھ دیر رک کر ان تمام پیاروں کے لیے دعا کرنے پر مجبورکرتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ جس غلاظت سے ہم نکل کر یہاں تک آئے ہیں کیا ہمیں اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا چاہیے۔ کیا ایک بار پھر اسی غلاظت کے ڈھیر میں چھلانگ لگا دینی چاہیے۔ 1947ء کے بعد ان تمام پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا۔ بڑی گندی کھچڑی پک چکی اب بس کردیں۔ متروکہ جائیدادوں پر بڑا الٹ پھیر ہوچکا لیکن شاید کہیں ایسا تو نہیں کہ وقت کا دھارا پھر سے گزر رہا ہے۔
اسلام آباد سے کراچی تک سرکاری زمینوں پر الاٹمنٹ، قبضہ گروپ، جھوٹے پولیس مقابلے، بڑی سرکاری پوسٹوں پر آپا دھاپی، سرکاری فنڈز میں خرد برد، کرپشن کا بازار گرم ہے لالی!
انگریز سر پھرے، محب وطن بڑی بڑی جائیدادوں کے مالکان کو ان کی جائیداد سے بے دخل کرتے اور ان کی نسلیں کمی بن جاتیں وہ انھیں ''جانگلی'' کہتے انگریز چلے گئے۔ اب جانگلوس کا نیا ورژن کس نام سے آ سکتا ہے، سوچیے۔