مساوات یا مشابہت

معاشرے میں اصلاحی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ذمے داری بھی مردوں اور عورتوں پر برابر عائد کی گئی ہے


شاہین رحمن January 25, 2017

گزشتہ صدی کے دوران تیزرفتارترقی کی بنا پر انسانی معاشروں میں کئی پہلوؤں سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، بہت سی روایات معدوم ہوگئیں یا اپنی اصل بنیادوں سے دورہوئیں کہیں ان میں ایک روایت یہ بھی تھی کہ خواتین کا کردار معاشرے میں محدود تھا اور یہ روایت مشرق ومغرب میں کسی حد تک یکساں طور پر قائم تھی۔ سائنسی ترقی اورصنعتی انقلاب نے اس روایت پر بھی ضرب لگائی۔خواتین کی بڑی تعداد نے حصول معاش کی ذمے داری بھی سنبھال لی اور بہت سے معاشی شعبوں میں اہم ذمے داریاں ادا کرنے لگیں۔

چونکہ ابتدا مغربی معاشروں سے ہوئی تھی، چنانچہ اس کے اثرات بھی وہیں پر دیگر معاشروں کی بہ نسبت زیادہ دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن آج بھی وہاں حصول معاش کے مختلف شعبوں میں خواتین کو مردوں کے برابر مقام حاصل نہیں ہوسکا۔ برطانیہ میں ویمن اینڈ ورک کمیشن کی رپورٹ کے مطابق برطانوی خواتین کو مردوں سے 17 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے اور امریکا میں بھی معاشرہ مردوں کے کنٹرول میں ہے۔ امریکی خواتین نجی شعبوں میں اس حد تک ترقی کرسکتی ہیں، جہاں پہنچ کر وہ یہ جان سکیں کہ اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کا کیا کردار ہے لیکن وہ ان اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں ہوسکتیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جو ترقی دینے میں مردوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

گزشتہ چند عشروں سے عالمی میڈیا پر مسلمان معاشروں کے حوالے سے جوکچھ پیش کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مسلمان معاشروں میں خواتین انتہائی محکوم مجبور اور بے بس ہیں اوران پر بے انتہا ظلم کیا جارہا ہے۔ بعض جگہ تو ایسے کسی واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام کو قصورواردینے کی دانستہ کوشش بھی کی جاتی ہے یا پھر ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ ناظرین یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اسلام موجودہ دورکے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جب کہ خواتین پر تشدد ظلم اور جبرکے جو واقعات مسلم معاشروں میں رونما ہوتے ہیں ان کے بنیادی اسباب جہالت، مفلسی اور انصاف ہے محرومی ہے اور اس کی ذمے داری ان لوگوں پر عائد ہونی چاہیے جن کے ہاتھ میں ان اسباب کو دور کرنے کا اختیار ہے اور وہ اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں، تاکہ اسلام پر تنقید کی جائے۔

اسلام کو تو اس لحاظ سے خصوصی انفرادیت حاصل ہے کہ خواتین کے حق میں شروع کی جانے والی کسی بھی تحریک سے صدیوں پہلے اس نے خواتین کو آزادی اور حقوق عطا کیے اور یہ انقلابی اقدام اس دور میں اٹھایا گیا جب کہ خواتین کی اکثریت کو اس کا شعور بھی حاصل نہ تھا۔

آج اکثر مغربی و مغرب زدہ مفکرین مساوات پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مرد و خواتین کے درمیان حقیقی مساوات قائم کی ہے۔

احکامات کی پابندی کے حوالے سے بھی مرد وخواتین کو سورۃ احزاب کی آیت 36 میں یکساں طور پر متنبہ کیا گیا ہے ''کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ اختیار نہیں کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد اپنے بارے میں خود کوئی فیصلہ کرے۔''

معاشرے میں اصلاحی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ذمے داری بھی مردوں اور عورتوں پر برابر عائد کی گئی ہے۔

ملکیت کا حق بھی دونوں کے لیے برابر ہے۔ اسی طرح وراثت میں بھی دونوں شریک ہیں اور جو تناسب کا کہیں فرق نظر آتا ہے اس کی وجہ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔

معاشرتی قدر و منزلت کے حوالے سے بھی دونوں کو یکساں مخاطب کیا گیا ہے ''اے ایمان والوں! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔''

اسلام کا قانون جرم سزا مردوخواتین کو کامل مساوات عطا کرتا ہے۔ بعض معاملات میں تو خواتین کو رعایت عطا کی گئی ہے۔ شریک حیات کے انتخاب میں بھی مرد کی طرح خواتین کو پسند اور ناپسند کا اختیاردیا گیا ہے گھر کی ذمے داری اور اس کے بارے میں باز پرس میں بھی دونوں برابر کے شریک ہیں۔ اولاد کی زندگی کی حفاظت ان کی تربیت میں بھی بیٹا اور بیٹی میں کوئی تفریق نہیں کی گئی بلکہ بیٹی کے بارے میں تو زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ غرض عبادات ہوں یا نیکی و فلاح کا کوئی بھی کام یا حصول فروغ علم کی کوئی مجلس ان میں شرکت مسلمان مرد و خواتین کا یکساں حق ہے اور یہ تو محض صرف چند مثالیں ہیں جو میں نے یہاں درج کیں۔

ہاں البتہ ایک بات جس کی وضاحت ہم یہاں ضروری خیال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مردوعورت دو الگ الگ صنف ہیں۔ ان کی اپنی اپنی ذمے داریاں ہیں۔ اسلام ایک منفی معاشرہ تشکیل نہیں دیتا جس میں مرد یا عورت مرد بن کر زندگی گزارے۔ یہ غیر انسانی اور غیر فطری صورت ہے۔ اسلامی معاشرے میں کسی کو بھی ایسا کوئی حق نہیں دیا جاسکتا جو کسی دوسرے کے حق کی قیمت پر ہو، چنانچہ مردوعورت جو دو الگ الگ صنف ہیں۔ ان کے مابین مساوات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ ان دو صنفوں کو بالکل یکساں اور باہم مماثل قرار دیے دیا جائے۔ ہمارے خیال میں تو یہ صریحاً ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات ہوگی۔

اس لیے کہ عورت تخلیق کے مرحلے سے بھی گزرتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلاتی ہے اور اس کی مکمل نگہداشت کرکے اسے پروان چڑھاتی ہے۔ اس معاملے میں مرد وعورت ہرگز یکساں نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مردوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ حصول رزق کے لیے جدوجہدکریں اور اپنا مال اپنے گھرکی خواتین پر خرچ کریں۔ خواہ وہ ماں، بیوی، بیوی یا بہن ہوں اور مردوں کی یہ ذمے داری اس صورت میں بھی ختم نہیں ہوجاتی جب کہ عورت خود بھی حصول معاش کی کسی سرگرمی میں حصہ لیتی ہو۔ وہ صاحب نصاب ہو یا صاحب جائیداد۔ یہی وہ حقیقی مساوات ہے جس پر عمل کرکے ہی افراد معاشرہ فطرت سے قریب ہوسکتے ہیں۔

دوسری صورت میں وہ فطرت سے قریب ہوسکتے ہیں۔دوسری صورت میں وہ فطرت سے دور ہوکر اپنے لیے بہت سی پیچیدگیوں کو جنم دیں گے۔ یوں معاشرہ انتشارو بے چینی کا شکار ہوجائے گا۔ اسلام کی نظر میں خاندان کا مقام بہت بلند اور محترم ہے خاندان کے ادارے میں عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور خاندان کے افراد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ اسلام نے اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر چلے پھرے، اللہ کا دیا ہوا رزق استعمال کرے معاشرتی ترقی میں مردوں کے ساتھ برابر شریک ہو، بلند اخلاقی اصولوں اور مہذبانہ انسانی جذبات کے زیر اثر ایک صالح معاشرے کے قیام میں مددگار بنے۔

یہ درست ہے کہ مسلم معاشروں میں خواتین پر ظلم وتشدد کے واقعات میڈیا کی وسعت کے بعد تواترکے ساتھ دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ درحقیقت ان کا سبب پسماندہ و فرسودہ روایتوں پر جہالت کی وجہ سے قائم رہنا اور دین فطرت اسلام سے دوری ہے۔ ایسے حالات میں اسلام پسند حلقوں پر بھی یہ اہم فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ فرد کی سطح پر تربیت و تزکیہ کا ایسا مستحکم بندوبست کریں کہ اسلامی معاشرے کی حقیقی تصویر سامنے آسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔