صوبہ سندھ کے بے یار و مددگار عوام
یہ قوم اپوزیشن اور برسر اقتدار کے جھگڑے میں سختیاں جھیل رہی ہے
آج کا معاشرہ ہمارے لیے درس گاہ کی طرح کام نہیں کر رہا اور شاید ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم معاشرے میں رہ کر بغیر کسی اچھی درس گاہ کے زندہ ہیں، ہر طرف صورتحال ابتر ہے۔ 2013ء سے لے کر اب تک ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے۔ انتظامی ڈھانچہ تباہی کے کنارے لگ گیا ہے، قانون اور من مانا سسٹم بھی ناکامی کی صورت میں ڈفلی بجارہا ہے۔
یہ قوم اپوزیشن اور برسر اقتدار کے جھگڑے میں سختیاں جھیل رہی ہے، ہر شخص دل گرفتہ نظر آرہا ہے۔ مایوسی کی گرد اتنی پھیل چکی ہے کہ قوم کو سکون کا سانس لینا عذاب نظر آتا ہے۔ صراط مستقیم تو اب ایک رسمی جملہ بن کر رہ گیا، ساری اپوزیشن نے کوششیں کرکے دیکھ لیا کہ وزیراعظم اب گھر کی راہ لیں، مگر شاید ان پر رب کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ ایک جملہ نوجوانوں کے لیے تحریر کررہا ہوں، اسے غور سے سمجھنے کی کوششیں کریں۔ اتنی مشکلات ہونے کے باوجود میاں نواز شریف مزے سے حکومت کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں میں نے ایک نہیں کئی اخبارات میں ایک کلر تصویر دیکھی کہ وزیراعظم کی والدہ ماجدہ وہیل چیئر پر بیٹھی ہیں اور میاں صاحب اپنی سالگرہ کا کیک اپنے ہاتھوں سے والدہ صاحبہ کو کھلارہے ہیں۔ شاید یہ ان کی ماں کی دعائیں ہیں کہ اتنی سخت مخالفت کے باوجود وہ حکومت کررہے ہیں۔ نوجوان نسل میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ والدین کی خدمت کرنے والے مشکلات کا سامنا کرہی لیتے ہیں۔ واقعی ماں کی خدمت کرنے والے انسانیت سوز تذلیل سے محفوظ رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2 روپے فی لیٹرکا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت پٹرول کی نئی قیمت 68 روپے 29 پیسے ہوگئی۔ اب یہ 29 پیسے کی کیا تُک ہے، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، حکومتی ارکان جب بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں پیسوں کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے، اگر کوئی شخص لیٹر پٹرول ڈلواتا ہے تو 68 روپے29 پیسے کے حساب سے پمپ والے کو 71 پیسے واپس کرنے چاہئیں، مگر ایسا نہیں ہوگا اور 68 روپے میں پٹرول نہیں دیا جائے گا۔ یوں جھگڑوں کا آغاز ہوگا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا، وہ فنانس کے ماہر ہیں۔ انھیں پہلی فرصت میں 29 پیسے اضافہ کا فیصلہ واپس لینا چاہیے۔ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ پٹرول مہنگا کرنے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
یہ سیاست دان جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو بلند بانگ دعوے کرکے اپنی سیاست کو چمکاتے ہیں، حالانکہ ان کے دور حکومت میں پٹرول 110 روپے لیٹر تک بکتا رہا، اس زمانے میں میاں نواز شریف کی ن لیگ اپوزیشن میں تھی اور وہ خاموش تھی۔ جب کہ پٹرول کی قیمت میں ایک روپے 77 پیسے کا اضافہ ہوا ہے اور اس اضافے کی وجہ سے مصنوعی مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہوگا، جو بے مقصد تصادم کی شکل اختیارکرے گا۔ ہر شخص اپنی من مانی کرے گا کیونکہ ہمارے ہاں احتسابی عمل کا تو چلن ہی نہیں ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ کاروباری حضرات جن میں ٹرانسپورٹر بھی شامل ہے، افرا تفری پیدا کریں گے، جب کہ ٹرانسپورٹ کی نوے فیصد گاڑیاں سی این جی گیس پر چل رہی ہیں۔
کراچی میں ڈاکوؤں نے سال کے ابتدائی دو ہفتوں میں 28 شہریوں کوگولیاں ماریں، دو ہفتوں کے دوران لوٹ مارکی وارداتوں کے دوران مزاحمت پر طالب علم سمیت 2 افراد جان سے چلے گئے، جب کہ زخمی ہونے والوں میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔اس خبر میں بنیادی نکتہ دو افراد کی جان ہے۔ جن کے گھر کے چراغ بجھے ہیں وہ آہوں،کراہوں کے ساتھ اس شہرکے قانونی کرتا دھرتا کوکوس رہے ہیں، جو خواب خرگوش کے مزے لے کر کہتے ہیں کہ یہ معتبر جمہوری نظام ہے۔
جو لوگ قانون کے منصب پر فائز ہیں وہ سیاسی مقناطیسی کشش کے ذریعے نوکریاں کررہے ہیں اور یہ بات اس شہر میں رہنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اوردانشمندانہ فیصلے نہ ہوئے تو ایسا نہ ہو کہ سارا کھیل ہی ختم ہوجائے اورکوئی نیک ، رب کا سپاہی سیاست سے بالاتر ہوکر سارے من پسند فیصلوں کو تہس نہس کردے۔ کھانے کو روٹی نہیں، بیماری کے لیے اسپتالوں میں دوا نہیں۔ غریب تو زندگی میں ہی حسرتوں کے ہاتھ دفن ہورہا ہے، ہمارے سیاست دانوں کواس شہر میں کرپشن، لوٹ مار، ناقص ٹریفک نظام، واٹر بورڈ، کے ایم سی کی نااہلی نظر نہیں آتی، انھیں تو بس پاناما کیس کا بخار چڑھا ہوا ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف جو کچھ پنجاب کے لیے کررہے ہیں، صوبہ سندھ کے عوام حسرت سے ان کے کارناموں کو اخبارات میں پڑھتے ہیں،کب صوبہ سندھ کے شہرکراچی کی تقدیر بدلے گی، جو ہر لحاظ سے تباہی کے کنارے لگ چکا ہے۔ایک خاتون نے مجھے روزنامہ ایکسپریس کے حوالے سے ایک میل کی، جو سیاست دانوں سے بہت نالاں ہیں، ظاہر ہے وہ خاتون بھی عوام میں سے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی آپس میں یاری کچھ اس طرح ہے کہ انھوں نے اپنے لیے اور عوام کے لیے الگ الگ منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ایک سیاست دان دو سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑسکتا ہے، جب کہ ایک شہری دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا، ایک شہری جیل میں رہ کر ووٹ نہیں دے سکتا، جب کہ سیاست دان جیل میں رہ کر الیکشن لڑسکتا ہے۔ ایک شہری جو جیل کاٹ چکا ہو وہ سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا، جب کہ ایک سیاست دان کئی بار جیل جاتا ہے مگر وہ وزیراعظم، ایم پی اے، ایم این اے بن سکتا ہے۔ بینک کی ملازمت کے لیے ایک شہری کا بی اے ہونا ضروری ہے جب کہ فنانس منسٹر اور ایجوکیشن منسٹر انگوٹھا چھاپ بھی بن سکتا ہے۔ فوج میں ایک عام سپاہی کی بھرتی کے لیے دس کلومیٹر کی دوڑ کے علاوہ میڈیکل اور دماغی طور پر درست ہونا لازمی ہے جب کہ سیاست دان ان پڑھ بھی ہو مگر وہ وزیر دفاع بن کر آرمی نیوی اورایئرفورس کے اعلیٰ افسران کا باس بن سکتا ہے۔ ایک سیاست دان کے کئی مقدمات زیر التوا ہوں کورٹ میں، وہ تمام قانون نافذ کرنے والوں کا وزیر داخلہ بن سکتا ہے۔
شہر کراچی کے کالم نویس ٹریفک کے نظام کے حوالے سے بار،بار بہت کچھ لکھ چکے۔ آئی جی، وزیرداخلہ، غرض ہر شخص جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہے کہ خدارا اس شہر میں ٹریفک کے نظام پر توجہ دیں، مگرکوئی سننے والا نہیں ہے۔ جب کہ ٹھٹھہ، گھوٹکی، رانی پور، بدین، نواب شاہ، سجاول میں رہنے والے لاکھوں افراد خاموش ہیں، تو ہمارے بیوروکریٹس سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ خدارا اس شہر پر توجہ دیں، خاص طور پر میں صوبہ سندھ کے آئی جی اﷲ ڈنو سے درخواست کروںگا کہ ٹریفک نظام کو درست کریں،لوگ اب بے زار ہوگئے ہیں۔