حکومت عافیہ کو پاکستان واپس لائے
عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے پرکئی امریکی اور یورپی صحافی بھی خامہ فرسائی کرچکے ہیں
KARACHI:
حکومت پاکستان نے سابق امریکی صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے خط نہ لکھ کر نہ صرف پاکستان کی بیٹی کی وطن واپسی کا ایک اور سنہری موقع گنوادیا ہے، بلکہ اپنی ناکامی پر مہر ثبت کرکے آیندہ الیکشن میں اپنی شکست کی بنیاد ڈال دی ہے۔ حکومت ترقی کے جتنے چاہے منصوبے دکھا کر پاکستان کے عوام کو بہلانے کی کوشش کرے، لیکن موقع ملنے کے باوجود 14سال سے امریکا کی قید میں مظالم کا شکار قوم کی تعلیم یافتہ بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا نہ کروانا عوام کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے اورآیندہ الیکشن میں شکست سے دوچارکرنے پر مجبورکرے گا۔
مارچ 2016 میں عافیہ کے امریکی اٹارنی اسٹیفن ڈاؤنز سے امریکی انتظامیہ نے رابطہ کرکے کہا تھا کہ صدر بارک اوباما اپنی دوسری صدارتی مدت مکمل کرنے سے قبل قیدیوں کی سزائیں معاف کرکے رہائی دیں گے، لیکن چونکہ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی شہری ہیں، اس لیے ان کی رہائی کے لیے صدر مملکت یا وزیراعظم پاکستان کا ایک خط لازمی طور پر درکار ہوگا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی اٹارنی سٹیفن ڈاؤنز اور کیتھی مینلے نے حکومت پاکستان سے اپیل کی تھی کہ ڈاکٹرعافیہ کی وطن واپسی کا سنہری اور تاریخی موقع ضایع نہ کرے۔ اٹارنی سٹیفن ایف ڈاؤنزکا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عافیہ کی واپسی میں دیرکرنا بہت غلط تجویز ہے،کیونکہ نہیں پتہ کہ ٹرمپ انتظامیہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا، لیکن اگر پاکستانی حکومت باضابطہ طورپر عافیہ کی رہائی کا خط لکھیں تو صدر اوباما مثبت جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ صدر اوباما حکومت چھوڑتے وقت عافیہ کو بآسانی بغیرکسی سیاسی مضمرات کے رہا کرسکتے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے پرکئی امریکی اور یورپی صحافی بھی خامہ فرسائی کرچکے ہیں، جن میں برطانوی نومسلم صحافی اورمصنف ایوان رڈلی نے غیرمعمولی تجزیاتی رپورٹس لکھیں، جن میں ان کا کہنا تھا کہ عافیہ کیس میں امریکا سے زیادہ پاکستان کا کردار اہم ہے۔ان کی تحقیقات کیمطابق بھی امریکی عافیہ کو پاکستان کی تحویل میں دینے پرراضی ہیں، اب جب کہ امریکی انتظامیہ نے عافیہ کی رہائی کے لیے خود رابطہ کیا، بلکہ خط تحریرکرنے کی رہنمائی بھی دی ہے تو پاکستان کے حکمرانوں نے وقت ضایع کردیا ہے۔
بارک اوباما کی صدارتی مدت 20 جنوری 2017 کو مکمل ہوچکی ہے، لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت نے عافیہ کو واطن واپس لانے کے لیے ایک خط لکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن اورعافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ امریکا میں ہمارے وکلاء سے امریکی ایمبیسڈر نے خودکہا کہ اوباما جاتے ہوئے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کورہا کریں گے، عافیہ بھی ان میں شامل ہے، لیکن عافیہ چونکہ پاکستان کی شہری ہیں اور تمام قانونی پیچیدگیوں سے گزر چکی ہے، ان کی رہائی کے لیے پاکستان کی حکومت کا صرف ایک خط درکار ہے۔
عافیہ کی بے گناہی اورمعصومیت کی ساری دنیا قائل ہوچکی ہے۔ عافیہ نے تو کسی کوقتل نہیں کیا، جب کہ ریمنڈ ڈیوس دن دہاڑے سر عام تین معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کرتا ہے۔ آلہ قتل کے ساتھ گرفتارہوتا ہے تو اسے تحویل میں بھی اعلیٰ درجے کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ قاتل کے سفیر نہ ہونے کے باوجود سفارتی استثنیٰ فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے اور معاف کردیا جاتا ہے، دیت کے پیسے بھی خود بھرے اورفوری طور پر امریکا کے حوالے بھی کردیا کہ کہیں اوباما ناراض نہ ہو جائے، لیکن عافیہ سے نہ توکئی قتل ہوا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی جرم ثابت ہوا۔
امریکا کی طرف سے اس کی رہائی کی آفر ہونے کے باوجود پاکستان حکومت کا اسے لینے سے انکارکرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ تو عافیہ کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن ہماری حکومت ہی رہا کروانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک قومی اخبارکے معروف صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان حکومت شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرتی رہی، لیکن امریکی انتظامیہ نہیں مانی۔ اس سے متعلق جب فوزیہ صدیقی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ شاید یہ اخبار اورصحافی حکومت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔
یہ رپورٹ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ جب امریکا عافیہ کو تمام قانونی پیچیدگیوں سے گزارکر لیگل طریقے سے رہا کرنے کے لیے رضامند ہے تو اسے شکیل آفریدی دینے کی کیا ضرورت ہے؟ سابق صدر اوباما جاتے ہوئے دیگر قیدیوں کے ساتھ عافیہ کو خود رہا کرنا چاہتے تھے، لیکن حکومت نے صرف اس لیے خط نہیں لکھا کہ کہیں امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکومت سے ناراض نہ ہوجائیں۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا ایک اورموقع ضایع کرنا بہت ہی افسوسناک ہے۔ جب 14سال سے امریکا کی قید میں قوم کی بیٹی کی رہائی کا معاملہ آیا تو سب خاموش ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی عام خاتون نہیں، بلکہ ان افراد میں سے ایک ہے جن پر ملک کو فخر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق انتہائی تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ عافیہ صدیقی کے والد نے برطانیہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے ایک بھائی امریکا میں آرکیٹیکٹ ہیں اور بڑی بہن فوزیہ دماغی امراض (نیورولوجی) کی ماہر ہیں اور پہلے نیو یارک میں کام کرتی رہی ہیں۔
عافیہ نے قرآن حفظ کیا۔ اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیا، جہاں انھوں نے MIT کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی،اس کے بعد امریکا میں ہی علم الاعصاب (دماغی علوم ) پر تحقیق کر کے PHD کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے ایک انعام یافتہ ایم آئی ٹی کی گریجویٹ خاتون کا اعزاز حاصل کیا اور ایک اعلیٰ پائے کی سائنس دان بن چکی تھیں۔ عافیہ ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے اور ایک متبادل یکساں نظام تعلیم کو رائج کرنے کے سلسلے میں نہایت اہم تحقیقی کام کررہی تھی، جو یقینا ملک کی ترقی میں اہم سنگ میل ہوتا، لیکن عافیہ کو ایسے الزام میں گرفتارکیا گیا، جس کی قانونی بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔
عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہے، جس کو رہا کروانا حکومت کا فرض ہے۔اوباما کے بعد اگر عافیہ کی رہائی میں مشکلات ہیں تو حکومت نے جس طرح اس کی رہائی کا موقع ضایع کیا ہے، اسی طرح خود مواقعے پیدا کرے اور خود راستہ تلاش کرے۔ عافیہ کا معاملہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پوری پاکستانی قوم کی عزت اور اقدام کا معاملہ ہے۔
عافیہ کے امریکی قید میں گزرنے والے ہر لمحے سے پاکستان کے گرین پاسپورٹ کی تذلیل ہورہی ہے،اگر حکومت عافیہ کو وطن واپس نہیں لاسکتی تو اپنی داخلہ وخارجہ ناکامی کو تسلیم کرے۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی اورعافیہ کی بیٹی مریم سے 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد عافیہ کو 100 دن میں وطن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن معلوم ہوتا ہے حکومت نے قوم کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کے مسئلے کو اٹھاکر طاقِ نسیاں پہ رکھ دیا ہے، حالانکہ بیٹیاں تو ماؤں کی طرح سانجھی ہوتی ہیں۔ووٹ لینے کے لیے جلسوں میں کھڑے ہوکر ماؤں بیٹیوں کی عزت و آبرو کی حفاظت اورخواتین کے حقوق کی بات کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے، لیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو نتیجہ وہی ہوتا ہے، جو ہماری حکومت نے عافیہ کی رہائی کے معاملے میں دکھا دیا ہے۔