یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے

شہرت اور ناموری کس کو پسند نہیں


نجمہ عالم January 26, 2017
[email protected]

شہرت اور ناموری کس کو پسند نہیں، ہر وقت خبروں میں رہنے کی تمنا تو شاید ہر ایک کے دل میں ہو مگر ایسے مواقعے ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔ بے چارے غریب غربا تو تعلیم، روزگار، تازہ خوراک اور صاف پانی کی سہولت سے محرومی کی طرح شہرت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ البتہ خبروں کا حصہ بننے کے لیے وہ چوری، ڈاکہ، قتل یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں اور یوں بعدازمرگ یا بعد ازگرفتاری خبر بن جاتے ہیں۔ ان کی تصاویر اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنتی ہیں، مگر یہ ذکر ذاتی اور شخصی نوعیت کا ہے۔

ایک خبر چند روز قبل سامنے آئی کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے بدترین پاسپورٹ کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اول نمبر آنے کا اعزاز افغانستان کو حاصل ہوا۔ اب یہ اعزاز ہمیں حاصل ہے کہ ہم کم ازکم افغانستان سے تو بہتر ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد صرف چھ ممالک کا سفر بلا ویزا کرسکتے ہیں ان چھ ممالک میں کوئی بڑا اور اہم ملک شامل نہیں۔ مزید یہ کہ جن ممالک کا سفرکرنے کے لیے پاکستانیوں کو ویزے کی ضرورت ہے ان میں افغانستان بھی شامل ہے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بہترین پاسپورٹ کی فہرست میں کون سا ملک اول نمبر پر ہے تو عالمی جنگ میں تباہ اور تقسیم ہونے والا جرمنی سرفہرست ہے دوسرے نمبر پر 9 ممالک ہیں جن میں سنگاپور بھی شامل ہے جبکہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کا نمبر تیسرا ہے۔ دوسری اہم اطلاع یہ ہے کہ وطن عزیز میں جہاں رشوت، اقربا پروری، لوٹ مار ہر شعبہ زندگی میں بدعنوانی عروج پر ہے وہاں ہر معاملے میں انتہا پسندی بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہر کوئی اپنے سوا دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ماہ رواں کے ابتدائی ایام میں لاپتہ ہونے والے پانچ بلاگرز کو گستاخ اور وطن دشمن قرار دیے جانے کی شدید مہم سوشل میڈیا پر جاری ہے، جس سے احساس ہوتا ہے کہ ملک میں آزادی اظہار محض ڈھونگ ہے،کوئی اپنے خیالات کا برملا اظہار نہیں کرسکتا چاہے وہ رائے سیاسی ہو یا مذہبی۔ ہم دوسروں کو اس کی اجازت دینے کو تیار نہیں کہ وہ اپنا نقطہ نظر پیش کرسکیں، افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام اور حب الوطنی کے نام پر ہو رہا ہے۔

دین اسلام کی مقدس کتاب اور حیات طیبہؐ میں محض مختلف عقائد ومذاہب کی بنیاد پر قتل کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ جہاں تک حب الوطنی کا تعلق ہے وطن کی سرزمین اور سرحدوں کا احترام اور تحفظ ہی حب الوطنی ہے۔ جو مہم سوشل میڈیا پر جاری ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ روشن خیال، غیر متعصب افراد کی آواز دبانے کے لیے ملکی قوانین کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جبکہ لبرل (روشن خیال) افراد اسلام کو دنیا کا سب سے ترقی پسند، وقت اور حالات کے ساتھ آگے بڑھنے والا مذہب قرار دیتے ہیں علامہ اقبال تو آج کے دور کے شاعر و فلسفی نہ تھے۔ مگر اس صورتحال کا انھوں نے بھی ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں:

آئین نو سے ڈرنا طرزکہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

اور یہی حقیقت ہے۔ اسلام ہر طرح کے استحصال کے خلاف ہے چاہے وہ محنت کش کا ہو، کمزوروں کا ہو یا خواتین اور غیر مسلموں کا ہو۔ اسلام میں کسی پر جبر نہیں، پھر آخر یہ کون ہیں اور کس کی ایما پر وہ اسلام جس کے معنی ہی سلامتی ہیں کو دہشت گردی، قتل و غارت گری کا دین بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

خبروں پر نظر ڈالیں تو اس غریب اور مقروض ملک کے صاحبان اقتدار کا طرز زندگی اور انداز حکمرانی بھی ذرائع ابلاغ میں موضوع گفتگو بنتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق پی ایم ہاؤس کی تزئین و آرائش کے لیے مقررہ رقم کم پڑ گئی، اس لیے مزید 29 کروڑ خرچ ہوں گے پی ایم ہاؤس میں نئی لفٹ لگائی جائے گی، عمارت کے اندرونی و بیرونی شیشے بلٹ پروف ہوں گے۔ فرنیچر پر چار گنا لاگت کا اضافہ ہوا ہے وزیر اعظم کی فیملی کے لیے نئے گیٹ بھی لگائے جائیں گے اور اے سی کے بجائے پوری عمارت میں چلر لگیں گے۔ ہردلعزیز اور بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم منتخب ہونے کے باوجود جانے اتنی سیکیورٹی کس کے خوف سے درکار ہے ۔وزیر اعظم ہاؤس کی آرائش کا یہ منصوبہ تاخیر کے باعث اب جون 2017 میں مکمل ہوگا اگر 2018 کے انتخابات میں حکمران جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی تو یہ سب آئندہ آنے والے وزیراعظم کے کام آئے گا۔ مگر کچھ تو امید ہے جو اتنا کچھ کیا جا رہا ہے۔

اخلاقی اعلیٰ ظرفی تو یہ ہے کہ دشمن کی خامیوں کے ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیا جائے ہم جس پڑوسی ملک اور اس کے وزیر اعظم کے نام سے بھی بیزار رہتے ہیں ان کے بارے میں تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ ان کا خاندان بغیر کسی سیکیورٹی اور پروٹوکول کے عام زندگی بسر کر رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے بھائی معمولی سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتیں کرتے ہیں ان کی چچازاد بہن کے پتی بس کنڈیکٹر ہیں، چچازاد بھائی پتنگیں فروخت کرتے ہیں، دوسرا چچازاد پٹرول پمپ پر معمولی ملازم ہے، تیسرا گاؤشالہ میں بطور مددگار کام کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی والدہ گھروں میں برتن مانجھتی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم کے اپنے بھائی ایک معمولی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں دوسرے بڑے بھائی ایک نجی فرم میں فٹرکے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ چھوٹے بھائی فیئر پرائس شاپ چلا رہے ہیں۔

یہ رپورٹ بھارتی ٹی وی چینل پر پیش کی گئی ہے ۔ ہمارے حکمران تو اپنے پورے خاندان بلکہ برادری، ہمدردوں اور دوستوں تک کو بلاکسی صلاحیت کے بڑے بڑے اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں کچھ عرصہ قبل ایک اطلاع کے مطابق سابقہ سی ایم کے تقریباً سولہ رشتے دار مختلف عہدوں پر براجمان تھے بلکہ ایک اور اطلاع کے مطابق ایک وزیر کے کئی رشتے دار ایک ہی ادارے میں مختلف کام کر رہے تھے۔ یوں اب پاکستان میں 22 خاندانوں کی بجائے 200 خاندان پورے ملک کا خون چوس رہے ہیں۔

تقریباً 18 برس سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی تھی جو رواں سال مارچ میں متوقع ہے۔ ان 18 برسوں میں آبادی میں کتنا اضافہ ہوا کسی کواس کا ادراک نہیں جب یہی معلوم نہ ہوگھر میں کتنے افراد ہیں اوران کی کیا کیا ضروریات ہیں تو گھرکا نظام کیسے درست رہ سکتا ہے۔ یہی صورتحال ہمارے ملک کی ہے۔ اس دوران اندرون ملک (دیہاتوں) سے بڑی تعداد میں آبادی شہروں میں منتقل ہوئی ہے، دوسری جانب غیر ملکی بالخصوص افغان مہاجرین اورکراچی میں کم ازکم 40 لاکھ غیر رجسٹرڈ بنگالیوں کی موجودگی مردم شماری کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس بار مردم شماری میں نادرا کی کارکردگی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ یہ اطلاعات اکثر سامنے آتی رہتی ہیں کہ افغان مہاجرین اور دیگر غیر ملکی افراد قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ شہروں بالخصوص کراچی پر پورے ملک سے آنے والوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہماری ناقص ہی سہی مگر یہ رائے ہے کہ مردم شماری میں لوگوں کا جن علاقوں سے تعلق ہے ان کا اندراج ان ہی علاقوں میں کیا جائے۔ روزگار کے لیے شہروں کا رخ کرنا اگر سب کا حق ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ہونا چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد واپس اپنے علاقوں میں جاکر آباد ہوں۔ دوسرے علاقے کے افراد کو اپنے صوبے یا علاقے کے علاوہ کہیں اور جائیداد بنانے کی اجازت نہ ہو، کمائیں کہیں بھی مگر لگائیں اپنے علاقے کو یوں شہروں پر بوجھ کم ہوگا ۔

نجی ایئرلائن کے مسافر طیارے کے پرزوں کو دھات کے تار اور زنجیروں سے باندھ کر لاہور سے مانچسٹر تک لے جایا گیا جس میں تین سو مسافر سوار تھے ۔ مانچسٹر ایئرپورٹ پر جب انجن میں خرابی کا انکشاف ہوا اور انجن کو کھولا گیا تو انجینئرز ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ انجن کے اہم پرزے تاروں اور زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ تین سو انسانوں کو خطرے میں ڈال کر نجی ایئرلائن نے کیا کارنامہ انجام دیا؟ تحقیقات کے لیے کمیٹی اورکمیشن بنائے جائیں گے مگر ہوگا کچھ بھی نہیں۔ تو جناب یہ ہے میرا پاکستان، جہاں جو کچھ نہ ہوجائے کم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں