رحمت عالم ﷺ کا نظریۂ محبّت

آپؐ نے آکر خون کے پیاسوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کر دی۔


اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جو دہشت گرد ہیں، وہ مسلمان ہی نہیں ہیں۔ فوٹو : فائل

ﷲ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے کائنات کی تخلیق فرمائی۔ جس وسیع و عریض زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ بنانا تھا، اسے جمادات و نباتات اور حیوانات سے رونق بخشی۔ آسمان کو ستاروں سے مزین کیا۔ روشنی اور حرارت کے لیے سورج اور چاند بنائے۔

زندگی کی نشوونما کے لیے پانی اور خور و نوش کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بنائے اور ایسے تمام ذرایع پہلے ہی موجود کردیے، جن کی انسان کو ضرورت تھی تاکہ انسان اپنے خالق سے یہ شکوہ نہ کر سکے کہ اے رب العزت! مجھے تخلیق تو کردیا لیکن میں زندگی کہاں اور کیسے بسر کروں۔۔۔ ؟ پھر ان تمام ذرایع کو استعمال میں لانے کے لیے عقل جیسی نعمت سے نوازا اور ایسی خوبیاں عطا کیں جن کی وجہ سے انسان دوسرے جان داروں سے ممتاز ہوا اور اشرف المخلوقات ٹھہرا۔ قوتِ ادراک، فہم و فراست، بصیرت، نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت، بدنی اور روحانی قوت۔ جرأت، حوصلہ، ولولہ اور جذبات و احساسات جیسی بے مثال خوبیوں کے ساتھ انسان کو بہترین شکل و صورت بھی دی۔

اپنا دفاع کرنے کے لیے قوت غضبیہ عطا کی اور انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں اتحاد و یگانگت اور اخوّت و بھائی چارے کے فروغ کے لیے جذبۂ ترحم و محبّت عطا کرنے کے ساتھ توحید الہٰی اور انسانیت سے محبت کا درس دینے کے لیے اپنے جلیل القدر بندوں یعنی انبیائے کرامؑ کو مبعوث فرمایا، اور پھر سب سے آخر میں اپنے حبیب مکرم حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے آکر خون کے پیاسوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کر دی۔ جو لوگ سال ہا سال قتل و غارت گری میں مصروف رہتے تھے، انہیں ایک دوسرے کا ہم درد و غم خوار بنادیا۔ جس کا ذکر اﷲ رب العزت اپنے پاک کلام میں یوں فرماتا ہے:

'' اور ﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو، جو اس نے تم پر کی۔ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔''

اگر ہم نبی اکرم ﷺ کے ارشادات عالیہ ملاحظہ فرمائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ واقعی نبی اکرم ﷺ اس کائنات میں محبت کا درس دینے کے لیے مبعوث ہوئے اور یہ بھی کہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے۔ اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جو دہشت گرد ہیں، وہ مسلمان ہی نہیں ہیں۔

ایک مرتبہ ایک دیہاتی حاضر ہوا اور کہنے لگا۔ کیا آپؐ بچوں سے پیار کرتے ہیں۔۔۔ ؟ ہم لوگ تو بچوں سے پیار نہیں کرتے۔ یہ سن کر حضورؐ نے ارشاد فرمایا : '' اگر اﷲ نے تیرے دل سے محبت صلب کرلی ہے تو میں کیا کروں۔'' (بخاری)

نبی اکرم ﷺ نے لڑکیوں کی اچھی تربیت کرنے اور ان سے پیار و محبت سے پیش آنے پر جنت کی بشارت دی۔ (شرح السنہ)

رحمت اللعالمین ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور پیار و محبت کا درس دیا، بل کہ خود اپنے عمل سے اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ '' اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول اﷲ ﷺ کے گھر آجانے کے بعد بھی اپنی کم عمری کی وجہ سے لڑکیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری چند سہیلیاں تھیں وہ بھی میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ جب حضورؐ گھر میں تشریف لاتے تو میری سہیلیاں شرم کی وجہ سے اِدھر اُدھر چھپ جاتی تھیں، لیکن حضورؐ میری دل بستگی کی خاطر انہیں میرے پاس بھجوا دیتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتی تھیں۔ '' (بخاری)

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' اے لوگو! تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔ بھوکوں کو کھانا کھلایا کرو اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرو یعنی پیار و محبت سے پیش آؤ۔'' ( ترمذی)

آپؐ نے فرمایا: '' وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے لوگوں کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ ہو۔ جو شخص اﷲ اور اس کے رسول اکرم ﷺ پر ایمان لایا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہم سائے کو تکلیف نہ دے۔ '' (بخاری)

یتامیٰ کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: '' مسلمانوں کا سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور سب سے بُرا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جائے۔ ''

( ابن ماجہ)

آپؐ نے عامۃ الناس کے ساتھ حسن سلوک اور پیار محبت کے بارے میں ارشاد فرمایا: '' جو لوگ مہربانی کرنے والے ہیں ان پر رحمن مہربانی فرماتا ہے۔ تم زمین والوں پر مہربانی کرو اﷲ تعالیٰ اور آسمان کے فرشتے تم پر مہربانی کریں گے۔'' ( ترمذی)

اس حدیث کا مطلب ظاہر ہے کہ اگر تمہاری خواہش ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم پر مہربان رہے اور نظر رحمت فرمائے تو تمہیں چاہیے کہ ہر انسان پر خواہ وہ دوست ہو یا دشمن، مسلم ہو یا کافر مہربانی کرو۔ مثلاً بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، ننگوں کو کپڑا پہناؤ، بیماروں کی خبر لو، اندھوں کو راستہ بتاؤ، مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کرو۔ غرض یہ کہ ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کہ یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ جس انسان کے دل میں اﷲ کے بندوں کے لیے شفقت و محبت کا جذبہ نہیں ہے، وہ اﷲ کی رحمت سے محروم ہے۔

آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں بھائی چارے، رواداری اور امن و آشتی کا دور دورہ ہو تو ہمیں رحمت عالمینؐ کے نظریۂ محبت پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر اپنے ایمان کو مضبوط کیا جائے اور اﷲ اور اس کے آخری پیغمبر ﷺ کے احکامات پر عمل کیا جائے، یقینا اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں