مہ ناز سُروں کی شہزادی تھیحصہ اول
مہ نازکی مدھر آواز ان کی شخصیت اوراس کے فنی سفر سے متعلق کچھ یادیں اور باتیں تازہ کرونگا
موسیقی کی دنیا میں ملکہ ترنم نورجہاں کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری میں جس آواز کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی وہ گلوکارہ مہ ناز کی آواز تھی ایک ایسی آواز جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا جس کے گلے میں سُروں کا رچاؤ سوز وگداز کے ساتھ مٹھاس اور گلے میں چھوٹی چھوٹی مرکیوں کا خزانہ تھا یہی وجہ تھی کہ میڈم نورجہاں نے کئی بار یہ برملا کہا تھا کہ مہ ناز ایک گنی گلوکارہ ہے اس آواز میں بھی ایک جادو ہے میں بھی اسی لیے مہ ناز پر اپنی شفقتیں نچھاورکرتی ہوں۔ مہ ناز بہت جلدی اس دنیا سے رخصت ہوگئی مگر اس کی سریلی آواز برسوں دلوں پر دستک دیتی رہے گی۔
آج کے کالم میں مہ نازکی مدھر آواز ان کی شخصیت اوراس کے فنی سفر سے متعلق کچھ یادیں اور باتیں تازہ کرونگا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بھی نوعمر تھا اور ریڈیو پاکستان کراچی سے جوان فکر پروگرام کے ساتھ ساتھ بزم طلبا کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا میں نے پہلی بار مہ نازکو ریڈیو اسٹیشن کے احاطے میں اپنی والدہ کلاسیکل سنگر اورنوحہ خواں کجن بیگم کے ساتھ دیکھا تھا۔
یہ گندمی رنگ کی گول مٹول سی لڑکی تھی اور محرم کے دنوں میں کالا دوپٹہ اوڑھے اپنی والدہ کے ساتھ سوزوسلام اور نوحہ خوانی کے پروگرام میں اپنی والدہ کے ساتھ سنگت کیا کرتی تھی پھر اسے موسیقی سے دلچسپی پیدا ہوتی چلی گئی، ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لینے لگی تو یہ کنیز فاطمہ بھی ایک دن ریڈیو ہی کے ایک میوزیشنر اور استاد امراؤ بندوخان کے بھانجے اوراستاد امیر احمد خان کے چھوٹی بھائی وزیر احمد خان نے مشورہ دیا کہ شوبز میں آنے کے لیے اپنے نام میں کچھ تبدیلی کرلو وزیراحمد خان کا بھی موسیقی کے دہلی گھرانے سے تعلق تھا وزیر احمدکی بے تکلفی تھی۔ انھوں نے کہاکہ تم اپنا نام مہ ناز رکھ لو مہ ناز کے نام پرکنیز فاطمہ مسکراکے رہ گئی تھی مگر اس کے دل کے کسی کونے میں یہ نام اٹک گیا تھا پھرکچھ عرصے بعد ہی ریڈیو سے جب یہ اساتذہ کی غزلیں گانے لگی تو اس نے اپنا نام مہ ناز رکھ لیا تھا۔
مہ نازکی ابتدا ریڈیو پاکستان کراچی سے ہوئی پھر اس نے جب ٹیلی ویژن کی طرف رخ کیا تو ٹی وی پروڈیوسر امیر امام نے اس کی آوازکو سراہتے ہوئے اپنے موسیقی کے پروگرام نغمہ زار میں پہلی بار ٹی وی کے ناظرین سے متعارف کرایا اور مہ ناز نے نغمہ زارکے پہلے پروگرام میں محمد افراہیم جو ان دنوں ہندوستان سے نیا نیا کراچی آیا تھا اور ہندوستان سے باقاعدہ محمد رفیع کا شاگرد بن کر آیا تھا مہ ناز نے اس کے ساتھ اپنا پہلا گیت گایا جس کے بول تھے۔
بچھڑے بہت اب آن ملے
دیب جلاؤ، پیار بڑھاؤ
جاگے بھاگ ہمارے
یہ ایک نیم کلاسیکل اندازکا گیت تھا پھر اسی پروگرام ''نغمہ زار'' میں کئی بار حصہ لیا اور انھی دنوں نیا گلوکار محمدعلی شہکی بھی منظر عام پر آیا تھا۔ مہ ناز نے محمد علی شہکی کے ساتھ بھی ٹیلی ویژن پروگرام کے لیے کئی دوگانے گائے اور اب مہ نازکی آواز ٹیلی ویژن کے ذریعے سارے پاکستان میں پھیلنے لگی تھی اس کی آواز میں سروں کی خوشبو تھی جو اس کے فنی سفر کو آگے بڑھارہی تھی ۔ اسی دوران مہ ناز لاہورگئی، وہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے نئے اور پرانے شاعروں کی غزلیں ریکارڈ کرائیں انھی غزلوں میں اس کی گائی ہوئی احمد فراز کی ایک غزل کو بڑی شہرت ملی، جس کے بول تھے ''اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں''
خوش قسمتی سے مہ نازکی ملاقات موسیقار اے حمید سے ہوگئی۔ انھوں نے اسے سنا تو کہا ارے بھئی تمہاری آواز تو فلموں کے لیے بڑی موزوں ہے تم اب کراچی نہ جاؤ لاہور کی فلم انڈسٹری کو تمہاری خوبصورت آواز کی ضرورت ہے۔ مہ ناز نے موسیقاراے حمید کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پھر لاہور ہی میں سکونت اختیارکرلی۔ موسیقار اے حمید ان دنوں کئی فلموں میں موسیقی دے رہے تھے۔ مہ ناز نے لاہور میں جس فلم کے لیے اپنا پہلا گیت ریکارڈ کرایا وہ فلم موسیقار اے حمید کی موسیقی میں فلم حقیقت کے لیے ایک دوگانا تھا جو احمد رشدی کے ساتھ مہ ناز نے گانا تھا گیت کے بول تھے:
میں نے تمہیں بلایا تھا
کاہے کو گھبرائی ہو
عاشق نہیں منگیتر ہوں
کیوں اتنی دیر سے آئی ہو
اس سے ملنا بری بات ہے
جس کے ساتھ سگائی ہو
چند دنوں کی بات ہے سجنا
کیوں اپنی رسوائی ہو
یہ خوبصورت ڈوئیٹ وحید مراد اور ان دنوں نئی نئی آئی ہو اداکارہ ممتازکے ساتھ آؤٹ ڈور لوکیشن میں فلمایا گیا تھا اوریہاں یہ بات مجھے بڑے افسوس کے ساتھ لکھنی پڑرہی ہے کہ آج موسیقار اے حمید گلوکار احمد رشدی اور گلوکار مہ ناز تینوں ہی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا فن فلم بینوں کے دلوں میں رچا بسا ہے ۔ اے حمید نے پھر اس دوران ہدایت کار حسن طارق کی فلم ''جہیز'' اور ایک کاسٹیوم فلم حیدر علی کے لیے بھی مہ ناز کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے ، تینوں فلمیں یکے بعد دیگرے نمائش کے لیے پیش ہوئیں مگر کوئی فلم بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔
تینوں فلموں کی ناکامی نے مہ نازکو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا مگر پھر خوش قسمتی سے موسیقار نثار بزمی کی مہ ناز سے ملاقات ہوگئی، مہ ناز نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، مجھے لگتا ہے لاہورکی فلم انڈسٹری میں میرا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ نثار بزمی اﷲ والے آدمی تھے انھوں نے مہ نازکو تسلی دیتے ہوئے کہا زندگی میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے اوپر والے سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
میں بھی جب نیا نیا لاہور آیا تھا تو میری حالت بھی کچھ اسی طرح کی تھی مگر مجھے میرے اﷲ پر پورا بھروسہ تھا میں نے حوصلے کمزور نہیں ہونے دیے تم بھی تسلی رکھو آیندہ ماہ ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ''پہچان'' کا آغاز ہورہاہے ۔ میں اس فلم کی موسیقی دے رہا ہوں اس فلم کے لیے میں تمہاری آواز میں گیت ریکارڈ کراؤںگا۔ فلم کی کاسٹ میں ندیم اور شبنم ہیں بس تم تھوڑے دن اور انتظار کرلو، مہ نازکو نثار بزمی کی باتوں سے بڑا سہارا ملا پھر کچھ دنوں کے بعد موسیقار نثار بزمی نے مہ نازکی آواز میں ایک گیت فلم پہچان کے لیے ریکارڈ کرایا جس کے بول تھے۔
میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا
میری آنکھوں میں تیرا ہی رنگ رہے گا
اس گیت کی ریکارڈنگ کے وقت ہی دھوم مچ گئی جب فلم پہچان ریلیز ہوئی تو فلم بھی ہٹ ہوئی اور مہ ناز کا گیت بھی سپر ہٹ ہوا پھر فلم سلاخیں کا ایک اور گیت ہٹ ہوگیا جس کے بول تھے ''تیرے میرے پیارکا ایسا ناتا ہے'' پھر تو مہ ناز پرگیت برسنے لگے اور اس کی آواز کی مہک لاکھوں دلوں میں گھر کرتی چلی گئی۔ اس دوران میں بھی بحیثیت نغمہ نگار منظر عام پر آگیا تھا ''پہچان'' کی ریکارڈنگ کے دوران ہی میری ملاقات مہ ناز سے ہوئی تھی، چند ہی دن بعد مجھے ہدایت کار اقبال اختر کے ساتھ فلم شرمیلی لکھنے کا موقع ملا، شرمیلی کے مکالمے اور سارے گیت میں ہی لکھ رہا تھا فلم کے لیے ندیم اور ممتازکوکاسٹ کیا گیا تھا۔ اسی دوران یہی گیت کی سچویشن پر میں نے ایک لکھا تھا جو کورس کی شکل میں مہ ناز اور لڑکیوں پر ایک ٹیبلو کی صورت میں عکس بند ہونا تھا وہ گیت بھی مہ نازکی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے۔
میں نہ جاؤںگی سسرال میرا میاں کمائے نہ
چاندی چلا لائے نہ
اس کے بعد ہی اس فلم کے لیے دوسرا گیت بھی مہ ناز ہی نے گایا جو ایک ڈؤٹ تھا اور مہ ناز کے ساتھ اے منیر نے مل کر گایا تھا جس کے بول تھے۔
عشق والوں سے یوں بے رخی چھوڑدو
دل کسی کا جلانا تو اچھا نہیں
یہ دونوں گیت بھی فلم بینوں میں بڑے پسند کیے گئے۔ اب مہ ناز اور میں بھی ایک دوسرے کی گڈ بک میں آگئے تھے۔ اسی دوران فلمسازوہدایت کار ایس اے بخاری کی فلم کس نام سے پکاروں میں مجھے گیت لکھنے کا موقع ملا اورمیرا لکھا ہوا وہ گیت مہ ناز کے ساتھ ناہید اختر دونوں نے مل کر گایا تھا جو فلم میں بابرا شریف نوین تاجک اور شاہد پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے۔
کیسی لڑکی تجھے پسند آئے گی۔ کون ہوگی جو تیرے من بھائے گی۔
اور ایک دلچسپ بات اس گانے کی یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس گیت کے دوران ہیرو شاہد اپنی پسند بتاتے ہوئے چند مکالمے بولتا ہے، مگر وہ وعدہ کرکے نہیں تو ہدایت کار کے کہنے پر مہ ناز اور ناہید اختر کے درمیان میں نے بھی ہیڈ فون لگاکر شاہد کے چند مکالمے ریکارڈ کرائے جن کا فلم میں کسی کو پتا بھی نہ چلا کہ وہ مکالمے شاہد کے نہیں تھے اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ EMI گراموفون کمپنی نے فلم کا جو ریکارڈ ریلیز کیا تھا۔ (جاری ہے)