یہ گھریلو ملازم
پولیس ٹرائیل کورٹ میں بچی کے مالکوں راجہ جج راجہ خرم کے خلاف چالان لکھوایا گیا
یہ صرف ایک دن کی دو خبریں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ گھر میں کام کرنے والی بچیوں پر تشدد کیا گیا ہے لیکن اس کی معمولی سزا کی اطلاع نہیں دی گئی۔ ان ملزموں میں ایک تو جج صاحب بھی ہیں۔ گارڈن ٹاؤن لاہور کے پراپرٹی ڈیلر کے ہاں کام کرنے والی ایک بچی پر کھولتا ہوا پانی پھینک دیا گیا جس سے وہ جل گئی۔ گھر میں معمولی اجرت پر کام کرنے والی ایک کمسن بچی 12سالہ رخسانہ کام کرتی تھی۔ گھر کے مالک نے اس ملازمہ سے کوئی کام کہا تو اس میں تاخیر ہونے پر مالک غصہ میں آ گیا اور گرم پانی بچی کے چہرے پر گرا دیا جس سے وہ بری طرح جھلس گئی۔
پولیس نے اس کمسن ملازمہ کا طبی معائنہ کرالیا اور اب یہ زخموں کے علاج کے لیے اسپتال میں داخل ہے۔ پولیس نے مالک مکان کے بھائی عمران کو حراست میں لے لیا جب کہ ملزم آصف اور اس کی اہلیہ فرار ہو گئے ہیں۔ ان کے اس غیر معمولی تشدد نے بچی کی زندگی تباہ کر دی۔ وہ اگرچہ اسپتال میں زیر علاج ہے لیکن اس بچی کے چہرے کا کیا حال ہو گا اور وہ ایک عورت کی حیثیت میں کس طرح اپنی باقی زندگی بسر کرے گی یہ مستقبل ہی بتائے گا۔ فی الحال تو بارہ سالہ رخسانہ بطور عورت زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس بچی پر ظلم کرنے والوں کو سزا کون دے گا۔
اب ایک اور گھریلو ملازمہ کی بات سنئے۔ اس کمسن ملازمہ سے جھاڑو گم ہو گیا تھا۔ یہ گھریلو ملازمہ جس کا نام طیبہ بتایا گیا سخت سردی کے اس موسم میں رات کو رضائی کے بغیر سونے پر مجبور کی گئی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم کے پڑوسیوں نے بتایا کہ اسے اکثر گندے کپڑوں میں رکھا جاتا اور مارا پیٹا بھی جاتا۔ جب اس سے جھاڑو گم ہو گیا تو اسے تشدد اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بچی کو جس کا نام طیبہ ہے اکثر بھوکا رکھا جاتا اور اس کی عام حالت قابل رحم ہوتی تھی۔ سخت سردی میں رات کو اسے رضائی نہیں دی جاتی تھی۔
پولیس ٹرائیل کورٹ میں بچی کے مالکوں راجہ جج راجہ خرم کے خلاف چالان لکھوایا گیا۔ جج راجہ خرم کے خلاف چالان کرایا جائے گا۔ بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ اور میڈیکل رپورٹ موصول ہو چکے ہیں۔ پولیس نے ملزم ماہین ظفر کو تشدد کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ جج راجہ خرم کے خلاف سیکشن 328 دو سو ایک اے کا چالان کرایا جائے گا۔ بچی کا ڈی این ٹیسٹ اور میڈیکل رپورٹ موصول ہو چکی ہے۔ بچی کے جسم پر رپورٹ کے مطابق زخموں کے 21نشان موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کیس سن رہا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق خاتون ماہین ظفر تشدد کی ذمے دار ہے۔ پولیس رپورٹ کے ماہین ظفر اور جج راجہ خرم علی خان کو بچی کو اسپتال کی سہولت نہ دینے کا الزام بھی دیا گیا ہے۔ جج خرم علی کے نام کی تختی اتار دی گئی ہے اور ان کے خلاف مقدمے عدالت میں بھیج دیے گئے ہیں۔
اخبار کی یہ دو مطبوعہ خبریں ہیں اور اس لیے دوبارہ نقل کر دی ہیں کہ آپ انھیں بھول نہ جائیں اور گھریلو ملازمین پر جو تشدد ہوتا ہے اسے ذہن میں رکھیں۔ گھریلو کام کاج والے بہت ہی غریب بچے ہوتے ہیں جن کے ماں باپ مجبور ہو کر انھیں کچھ دولت مند اور بے رحم لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے مندرجہ بالا یہ اس کے مختصر نمونے لیکن اصل میں ان بچوں کو بڑے ہی بے رحم سلوک کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے۔
ان کے والدین کی غربت اور مجبوری کی سزا ان بچوں کو دی جاتی ہے اور یہ مسئلہ کسی ایک گھر کا نہیں یہ اکثر اس گھر کا ہے جہاں انسانوں کے یہ بچے زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں کہ وہ دو وقت پیٹ بھر کر کھا سکیں مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ان گھریلو ملازمین کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہو۔ سردی کے اس موسم میں رات کو انھیں گرم لحاف نہیں ملتا اور وہ جوں توں کر کے صبح کر لیتے ہیں اور رات بسر کر لیتے ہیں۔ ہمارے پاس ان مظلوموں کا کوئی علاج ہے یا نہیں یہ کام حکومتوں کا ہے جو ہر گھر میں جھانک سکتی ہیں۔ انسانوں کے ان بچوں کو ذہن میں رکھیں اور پھر اپنے بچوں کو۔ اگر انسانوں کے دلوں میں کچھ نرمی ہے تو ان گھریلو ملازمین کی زندگی انسانوں کی زندگی بن سکتی ہے ورنہ کھولتا پانی ان کا مقدر ہے۔