عالمی اقتصادی فورم اور ہماری ترجیحات
سیاسی جماعتوں کی صفوں میں فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے عناصر موجود ہیں
ڈیووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے بارے میں، یہ بے سروپا تاثر قائم ہے کہ یہ صرف امیروں کا ایک کلب ہے۔ ہر سال یہاں دنیا بھر کے انتہائی ممتاز سیاست دانوں، سربراہانِ مملکت، صف اول کی کاروباری و صنعتی شخصیات، انسان دوست اور سماجی کارکن اور ذرایع ابلاغ کی اہم شخصیات و دیگر نمایاں افراد کو، عالمی و مقامی سطح پر معیشت، صحت، ماحولیات، میڈیا اور سیکیورٹی جیسے دیگر اہم امور سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے کے لیے یکجا کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے مقتدر طبقے اور اہل علم و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ ڈیووس میں منعقد ہونے والا عالمی اقتصادی فورم حقیقی طور پر، معیشت اور سماجی سیاسیات سے متعلق ہونے والی سال کی اہم ترین تقریب ہے۔ اس فورم کا بنیادی مقصد ''دنیا کے حالات میں بہتری'' ہے، یہی سبب ہے کہ عالمی قیادت مقامی و بین الاقوامی اور معاشی ایجنڈا طے کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھتی ہے۔ یہاں مختلف نکتہ ہائے نظر سننے کے ساتھ ساتھ انھیں سمجھا بھی جاتا ہے۔ اسی لیے اپنے مؤقف کے ابلاغ کے لیے اس فورم میں شرکت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
شی جن پنگ ڈیووس تشریف لانے والے پہلے چینی صدر ہیں اور ان کے ساتھ چین سے آنے والا وفد بھی اپنے ملک کی نمایندگی کرنے والا اب تک کا سب سے بڑا وفد تھا۔ دو دہائیوں سے چین کی مجموعی معیشت کا چوتھائی برابر بھارت ڈیووس فورم پر اجارہ داری قائم کرکے اس کے بھرپور فوائد حاصل کرتا رہا ہے۔ یہ بات خوش آیندہ ہے کہ عالمی معیشت میں چینی قوت کے پھیلاؤ کے لیے بے مثال ذہانت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الگ تھلگ رہنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے مقامی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنے کی (protectionist ) پالیسی سے پیدا ہونے والے خدشات کے باوجود چین کے لیے کئی دیگر مارکیٹوں میں زیادہ ساز گار مواقع موجود ہیں۔ اسی تناظر میں صدر شی جن پنگ نے اقتصادی عالم گیریت کا دفاع کیا۔ چین کے کامیاب ترین کاروباری ''علی بابا''کے بانی جیک مانے انفرااسٹرکچر پر معمولی اور افواج پر غیر معمولی امریکی اخراجات اور وسائل کے ضیاع کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو، انتہائی مختصر نوٹس پر، شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے ''پاکستان بریک فاسٹ''، ''پاکستان لنچ''اور ''پاکستان ڈنر'' کے علاوہ تین عام نشستوں میں شرکت کی اور دو آف دی ریکارڈ اجلاسوں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے پاکستان اور پاک فوج مخالف پروپیگنڈے کا زور دار انداز میں جواب دیا، جو عالمی سطح پر مشکلات میں گھرے پاکستانی بیانے کے لیے غیر معمولی مثبت نتائج کا باعث بنے گا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انفرادی سطح پر عالمی اور بزنس لیڈز کے ساتھ اہم( اور بعض کے نزدیک نتیجہ خیز)دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستانی حالات کے تناظر میں پبلک سیشن زیادہ مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔
''پاکستان بریک فاسٹ'' کے لیے میری دعوت کو وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے پہلے تو نظر انداز کردیا۔ بعد میں ان کی جانب سے بدھ کو ''ابراج'' کے وزیر اعظم کے لیے منعقدہ پُرہجوم عشایے میں شرکت اور گفتگو کا موقعہ دینے کے لیے ہم سے بارہا رابطہ کیا گیا۔ 45منٹ بعد ان کی کچھ اور مصروفیات تھیں، اسی لیے ابتدا میں انھوں نے گفتگو کی، ابھی ان کے پاس وقت تھا، لیکن سابق آرمی چیف کا خطاب شروع ہوتے ہی وہ تقریب سے اٹھ کر چلی گئیں۔ وہاں موجود دو سو سے زاید شرکاء نے اسے محسوس کیا۔ میرے بیٹے ضرار سہگل اور بہو کشمالہ(مسعود شریف کی صاحبزادی) نے بعدازاں وزیر صاحبہ پر یہ واضح کیا کہ اگر وہ تھوڑی دیر وہاں رُک جاتیں تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ اپنے گھر کے گندے کپڑے دنیا کے سامنے دھونے کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنی گفتگو میں راحیل شریف نے آپریش ''ضرب عضب'' اور کراچی میں کارروائی کے لیے نواز حکومت کی جانب سے سیاسی سطح پر فوج کی مدد کوعلی الاعلان سراہا۔
سیاسی جماعتوں کی صفوں میں فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے عناصر موجود ہیں۔ یہ عناصر فوج اور حکومت کے مابین غلط فہمی بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں، جن کے نتیجے میں مجموعی فضا خراب ہورہی ہے۔ حال ہی میں راحیل شریف کے حوالے سے منفی خبریں اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جمہوریت کی حفاظت اور استحکام سے کسی کو انکار نہیں لیکن ایسے عناصر کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی عجب ''اتفاق''ہے کہ فوج کے خلاف ہرزہ سرائیاں اسی وقت سامنے آتی ہیں جب مودی سرکار افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کرتی ہے۔
راحیل شریف نے ڈیجیٹل عہد میں دہشتگردی کومہلک کینسر سے تعبیر دیا اور خبردار کیا کہ آج ڈیجٹل پلیٹ فارم دہشتگردوں کی بقا کے لیے مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ''سوشل میڈیا کے ذریعے مؤثر انداز میں بھرتیاں آسان ہوگئیں ہیں۔ دہشتگرد عناصر کی مالی معاونت کرنے والے، مددگار، سہولت کار اور ہمدرد سبھی ایسی کارروائیوں میں مشترکہ حصہ لے رہے ہیں۔'' سول حکومت کی تحسین کے ساتھ جنرل راحیل شریف نے پاکستانی سپاہیوں کی قربانیوں کا مدلل انداز میں تذکرہ کیا جس سے پاکستان کی ایک انتہائی مثبت شبیہ دنیا کے سامنے آئی۔ ایک غیر مصدقہ پول کے مطابق راحیل شریف کا شمار ڈیووس میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہنے والی پانچ بڑی شخصیات میں کیا گیا ہے۔
راحیل شریف کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو دہشتگردی سے مقابلے کے لیے ہم آہنگی اور خفیہ معلومات کے بروقت تبادلہ درکار ہے۔ اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے تجربات ، وسائل اور ٹیکنالوجی کے تبادلے اور مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے خفیہ ادارے دونوں ممالک کے مابین پیدا ہونے والی عدم اعتماد کی فضا ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ دونوں ممالک کا مقدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقوں میں دراندازی کی روک تھام بڑا چیلنج ہے۔ خوف و ہراس پھیلانے کی کاوشوں کو معلومات کے تبادلے کے ذریعے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
پاک فوج کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی اقتصادی فورم نے پاکستان کے سابق سپہ سالار کو مدعو کیا، جو درحقیقت دہشتگردی کے خلاف برسرپیکار ہمارے سپاہیوں کی کامیابی کا اعتراف ہے۔ محدود وسائل، غیروں کے کارندوںاور نادیدہ دشمنوں کی کوششوں کے باوجود ہمارے سپاہی اقوام عالم کے سامنے اپنی کامرانی ثابت کرچکے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اور کاروباری قیادت کو عالمی اقتصادی فورم میں اپنی شرکت یقینی بنانے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ گلوبل ولیج میں باہمی قربتیں بڑھ رہی ہیں، تیز رفتار ٹیکنالوجی کے انقلاب سے تبدیل ہوتے زمینی حقائق، سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کے نتایج دور رس ثابت ہوں گے۔ برق رفتار تغیرات کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ قائدین باہمی اور عالمی سطح کے نت نئے پہلو بدلتے امور کا حل نکالنے کے لیے، گہرائی سے ان کا تجزیہ کریں اور آیندہ حکمت عملی کے لیے باہمی مشاورت اور خیالات کے تبادلے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
عالمی اقتصادی فورم کے میڈیا ہیڈ اولیور کین کے نزدیک عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ عالمی اجلاس مختلف خطوں کی مختلف کمیونٹیز، ہر عمر اور سماجی شعبے کا نمایندہ اجتماع ہے۔ مستقبل میں پاکستان کے لیے فکری و عملی سطح پر عالمی سرمایہ کاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنا مؤقف ڈیووس میں آنے والوں کے سامنے بھی درست ثابت کرنا پڑے گا۔