کتابوں کی روشنی آخری حصہ

’’جوئے شیر‘‘ کی شیریں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے افسانے کو تخلیق کیا ہے


Naseem Anjum January 29, 2017
[email protected]

FAISALABAD:

شام سے پہلے کے تمام افسانے قابل توجہ ہیں اور فکر و خیال کے بہت سے در وا اور سوچ و آگہی کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں، ''جوئے شیر'' بھی ایسا ہی ایک افسانہ ہے، مصنف نے بڑھتی ہوئی عمر کی لڑکیوں کے رشتوں کی تلاش اور تمناؤں کو پروان چڑھانے کے لیے ماں باپ، خصوصاً ماں کی تگ و دو کا نقشہ کامیابی سے کھینچا ہے۔ اور اگر کامیابی نصیب ہوجائے تو دوسری ضرورت سر اٹھاتی اور بے چین رکھتی ہیں۔


''جوئے شیر'' کی شیریں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے افسانے کو تخلیق کیا ہے۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس کی بنت میں کہیں جھول نہیں، کہانی زندگی کے حقائق کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، افسانے میں خوشیوں، کامیابیوں اور احساس ندامت، ضمیر کا بوجھ اور ان جذبات کی عکاسی بے حد خوبصورتی کے ساتھ کی ہے جو انسان کو پریشان کن حالات سے دوچار کرتے ہیں، لیکن انسان بے چارہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو مطمئن کر ہی لیتا ہے کہ وہ خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطی ہوسکتی ہے۔

اسی طرح افسانہ ''وہ شخص'' بھی موجودہ دور کی تصویر کشی کرتا ہے اور اپنے قاری کو اس بات سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ گناہ انسان کو دوزخ میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں بڑی سخت سزائیں ہیں۔ ڈاکٹر زاہد حسین افسانے محض تفریح طبع یا شہرت کے حصول کے لیے نہیں لکھتے ہیں بلکہ معاشرتی تلخ حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سید عرفان طارق کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ سہ ماہی ''الحنیف'' پابندی سے شایع ہو رہا ہے، عرفان طارق اسے دیدہ زیب بنانے کے لیے خلوص دل اور تندہی سے مشقت کرتے ہیں، رسالے کی تحریریں بھی متاثر کن ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی سے جگ مگ کر رہی ہیں، احادیث حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینی و فکری مضامین قارئین کو اندھیرے سے بچنے کی طرف آنے کی ترغیب و ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ اگر کوئی ہدایت کا طلبگار اور دین و دنیا میں اپنا مقدر سنوارنا اور سرخرو ہونا چاہتا ہے تو وہ قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرکے انسانیت کو زندہ رکھنے کی سعی کرے گا ۔ جریدہ ''الحنیف'' ایک مکمل مکتب کی مانند ہے، جہاں سے ہر شخص بلاتخصیص عمر و مرتبہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

اخبار خواتین کی سابق ایڈیٹر اور اپنی صلاحیتوں پر ایوارڈ حاصل کرنے والی شمیم اختر کی خودنوشت ''دل میں چبھے کانٹے'' شایع ہوئی ہے۔ کتاب کیا ہے معلومات کا ایسا خزینہ ہے جس کا تعلق شمیم اختر کی ذات سے ہے، ظاہر ہے خود نوشت ہے، کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ شمیم اختر بے حد بہادر اور سچی خاتون ہیں ان کی تحریروں میں تصنع و بناوٹ کی کوئی جگہ نہیں ہے، صداقت میں لپٹی ہوئی تحریر میں روانی بھی ہے اور دلکشی بھی۔ اللہ نے ان کی زبان میں اتنی تاثیر عطا کی ہے کہ ادھر زبان سے خواہش، دعا اور بددعا کا اظہار ہوا اور ادھر دعا شرف قبولیت کے دائرے میں مقید ہوگئی۔

کتاب میں درج ہے اور سنا بھی ہے کہ وہ آج کل کینسر جیسے مرض سے مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہیں۔ میں ان خاتون محترم کو صوفی منش کہوں، جوگی کہوں یا پھر خود سر، اپنی سزا خود تجویز کرنے والی یا قسمت کی دھنی، جو مانگا، وہ اللہ کے حکم سے پایا اور بڑے بڑے کام کر ڈالے۔ وہ اکیس برس تک اخبار خواتین کی ایڈیٹر کے منصب پر فائز رہیں، وہ پاکستان کے تمام قومی اخبارات میں اپنے قلم کا جادو جگاتی رہیں۔ گھریلو اور دفتری ذمے داریاں بے حد وقار و خودداری کے ساتھ نبھائیں۔ان کی تحریر میں بلا کی روانی اور سادگی ہے۔ قاری کسی بھی جگہ ابہام کا شکار نہیں ہوتا ہے، بس پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

ایک اور کتاب میری نگاہوں کے حصار میں ہے، نام ہے ''سعودی عرب آج اور کل، جیساکہ میں نے دیکھا'' مصنف کا نام رضی الدین سید ہے۔ معروف قلم کار ہیں، کتاب 6 ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں سعودی عرب کی مختصر تاریخ ہے، جس میں وہابی تحریک، سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں پاکستانیوں کا کردار کے حوالے سے معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔

باب دوم سعودی عرب ایک نئے زاویہ نگاہ سے، باب سوم ایک ہجوم معاشقاں، ہے سوئے حرمین رواں۔ اس باب میں بہت سے اہم موضوعات کو دائرہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ باب چہارم ''خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے'' مذکورہ باب بھی بہت سی اہم معلومات اپنے قارئین کو پہنچاتا ہے۔ باب پنجم اور باب ششم بھی مختصرات اور ضمیمہ جات کے عنوانات کے تحت ہے۔ انھوں نے شخصیات اور مقامات مقدسہ کے بارے میں بتایا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔

ضمیمہ 7 میں رضوان صدیقی کا مضمون بعنوان ''پاکستان اور ملائیشیا، ایک موازنہ'' بہت اچھا مضمون ہے، جو ہمارے ملک پاکستان اور ملائیشیا کے طرز زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ بہت آسان الفاظ میں بے حد عقیدت و محبت کے ساتھ مصنف نے سعودی عرب کے طرز نظام زندگی اور حج و عمرے کی اہمیت و افادیت پر خامہ فرسائی کی ہے۔ کتاب کا ایک ایک جملہ سعودی عرب کی تہذیب و ثقافت، جذبہ ایمانی اور عدل و انصاف کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دن کے بارے بجے کا وقت ہو یا رات کے تین بجے کا، پروانوں کا یہ وہ قافلہ ہے جو کبھی رکا نہیں، تھما نہیں، دنیا کا یہ پہلا گھر ہے جس کے گرد دن کے چوبیس گھنٹوں اور سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں اسلام کے پروانوں کا طواف مسلسل جاری رہتا ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پہلے گھر کی عظمت کے گرد گھومتا ہے:

دنیا کے بت کدوں میں، پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

حرمین شریفین کی عمارتیں حسن اور وسعت کے اعتبار سے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ انھیں مکمل طور پر مسلمان مہندسین (انجینئرز) اور نقشہ گروں نے اپنی ذاتی عقیدت اور مہارت سے تعمیر کیا ہے۔ ان عمارات کی تعمیر میں غیر مسلم انجینئرز کا کوئی بڑا حصہ نہیں ہے۔ اموی، عباسی، ترک، سلاطین اور سعودی حکمرانوں نے انھیں اپنے ملک کی عمارتوں کی تعمیر کے لیے ان سے کسی بھی قسم کی خدمات لینے سے گریز کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ مقدس و متبرک تعمیرات ہیں۔

اس خطے پر اللہ کی رحمت زائرین و حجاج پر خصوصی طور پر برستی ہے کہ مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کے عالمی اجتماع کے مواقعوں پر کوئی وبائی امراض نہیں پھوٹتے ہیں۔ غرض رضی الدین سید کی کتاب قارئین کے لیے ایک بہترین تحفہ ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے بارے میں بہت سی معلومات کا درجہ رکھتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں