فیئر ٹرائل بل وقت کی ضرورت ہے اس سے دہشت گردوں کو سزا دینے میں آسانی ہو گی

ملزم کو تو حق ہے کہ اپنا دفاع کرسکے مگر مجرم بھی کمزور قوانین کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔


قانون دان اور سماجی رہنما فیئر ٹرائل بل کی حمایت اور مخالفت میں منقسم ہیں۔ فوٹو : فائل

پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کے چیدہ چیدہ واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے مگر 9/11کے واقعہ کے بعد اس میں کافی شدت آئی اور ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف نئے قوانین بنانے کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔

پاکستان جو دہشت گردی سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، اب تک ہزاروں بے گناہ افراد دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہو کراپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کے بارے میں پاکستان کے اندر مختلف نکتہ نظر پائے جاتے ہیں،کچھ لوگ دہشت گردی کے واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کو ملوث قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے نکتۂ نظر کے مطابق اس میں بیرونی ممالک کا ہاتھ ہے جوکہ تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے دہشت گردی کی وارداتیں کرواتے ہیں۔

ان دو نکتۂ ہائے نظر کے علاوہ ایک محدود تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو لاہور میں دو پاکستانی نوجوانوں کے قتل کے ذمہ دار ریمنڈ ڈیوس کے نام سے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اور امریکی پرائیویٹ فورس بلیک واٹر کو تمام دہشت گردی میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ دہشت گردی میں کون ملوث ہے، اس کی روک تھام کے لئے پاکستان میں پچھلے 11سال سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے دہشت گردوں کو گرفتار کرتے تھے مگر واضح قوانین کے نہ ہونے کے باعث ٹھوس ثبوت نہ ملنے سے عدالتیں انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوتی تھیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر دیر آید درست آید کے مصداق 20دسمبر 2012ء کو قومی اسمبلی میں فیئر ٹرائل بل 2012ء منظور کیا گیا جس کے تحت جدید سائنسی آلات کے ذریعے حاصل کئے گئے شواہد کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جاسکے گا،شواہد کے غلط استعمال پر 3سال قید ہوگی اور کسی بھی ایجنسی کا سربراہ کسی مشکوک شخص کے وارنٹ کیلئے ہائیکورٹ میں درخواست دے گا۔ اس بل کے پاس ہونے سے دہشت گردی روکنے کیلئے کیا فوائد حاصل ہوں گے اور بنیادی انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزی کی روک تھام کیسے ہوگی، اس حوالے سے ''ایکسپریس'' نے فورم کا اہتمام کیا جس میں ممتاز آئینی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اعظم نذیر تارڑ
ممبر پاکستان بار کونسل
''سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس طرح کے قانون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وقت گزرنے کے ساتھ قوانین میں تبدیلیوں اور اضافے کی ضرورت رہتی ہے جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے اور تمام بڑے واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو ثبوت نہ ہونے کے باعث رہا کردیا گیا۔

ہجرت اﷲ کو ٹی وی کے سامنے رنگے ہاتھوں اسلحے سمیت گرفتار کیا گیا مگر کمزور قانون کے باعث وہ بھی رہا ہو گیا۔ ہمارے ہاں فوجداری مقدمات میں سزا دئیے جانے کا عمل بہت کم ہے۔ جاپان اور سنگاپور میں فوجداری مقدمات میں 90فیصد مجرموں کو سزا ہوجاتی ہے، یور پ میں 70فیصد مجرموں کو سزا ہوجاتی ہے، مگر ہمارے ہاں صرف 10فیصد مجرموں کو سزا ہوتی ہے، باقی کمزور شہادتوں کے باعث چھوٹ جاتے ہیں جبکہ بھارت میں بھی یہ 30 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔

1

دہشت گردی کے تناظر میںدیکھا جائے تو موجودہ بل کے ذریعے بنایا جانے والا قانون بہت خوش آئند ہے، ملزم کو تو حق ہے کہ اپنا دفاع کرسکے مگر مجرم بھی کمزور قوانین کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔ اس قانون سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ پاکستان میں صرف 2فیصد لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں جبکہ 98فیصد لوگ اس کا شکار ہیں تو 2فیصد کیلئے 98فیصد کے حقوق ختم نہیں کئے جا سکتے، اس قانون سے 98 فیصد عوام کے حقوق محفوظ ہوجائیں گے۔ جرائم پیشہ افراد جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے کارروائیاں کرتے تھے لیکن یہاں پر قانون نہ ہونے سے وہ بری ہوجایا کرتے تھے ۔

ماضی میں اگر کوئی ادارہ اس تکنیک کا استعمال کرتا تھا تو وہ غیر قانونی طور پر ایسا کرکے ثبوت اکٹھا کرتے تھے لیکن عدالت اس کو بطور ثبوت نہیں مانتی تھی لیکن اب نئے قانون کے ذریعے آسانی پیدا کردی گئی ہے کہ ٹیلی فون کے ڈیٹا اور ای میلز کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اس طرح کے قانون 10سال قبل نافذ کردئیے گئے تھے لیکن یہاں پر اب اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے بہت عرصہ کے بعد ایک اچھا اقدام کیا ہے ۔

اس قانون سے ایجنسیاں جنہیں پہلے کسی بھی معاملے میں پوچھا ہی نہیں جاسکتا تھا جو ان کے جی میں آتا تھا کرتی تھیں ، ان کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں، پہلے بھی امن وامان کے ذمہ دارادارے ٹیلی فون ٹیپ کرتے تھے مگر اس وقت کوئی قانون نہ ہونے کے باعث یہ سب غیر قانونی طور پر ہوتا تھا مگر اس قانون کے بعد ان اداروں کو قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے اور جو لوگ مخلص ہوکر کام کرنا چاہیں وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرسکیں گے۔

اس سے دہشت گردی اور دیگر اہم ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کو روکا جاسکے گا، اس کے استعمال سے کوئی بھی ادارہ ثبوت اکٹھا کرسکے گا جس کو عدالت کے روبرو پیش کیا جاسکے گا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی ادارے کا سربراہ مشکوک شخص کے خلاف ہائیکورٹ سے 60دن کا ریمانڈ لے سکے گا، اگر جج ابتدائی طور پر پیش کئے گئے شواہد سے مطمئن ہوگا تو ریمانڈ دے گا، اگر متعلقہ ادارے اسے مطمئن نہ کرسکے تو ریمانڈ نہیں ملے گا، یہ ریمانڈ بڑھا کر 90دن کا کیا جاسکے گا۔ اس دوران وہ ادارہ دیکھے گا کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اس سے تفتیش کرنے کے بعد اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کردیا جائے گا۔ ماضی میں اس تکینک کا استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے دہشت گرد عدم ثبوت کی وجہ سے رہا ہوگئے تھے۔

اب ایک ایسا قانون بنایا گیا ہے جس کے ذریعے جدید تکنیک کو استعمال میں لایا جاسکے گا۔ اس قانون کا اطلاق صرف دہشت گردی کے کیسز میں ہوگا کسی اور کیس میں یہ قانون لاگو نہیں ہوگااور اس قانون کے تحت کسی کو سزا نہیں دی جاسکے گی بلکہ یہ صرف تفتیش کیلئے کارگر ہوگا۔ اس کے تحت جو شواہد فلٹر ہوکر آئیں گے وہ عدالت میں قابل قبول ہوں گے۔ اس قانون میں صرف وفاقی تحقیقاقی اداروں کو استعمال کی اجازت دی گئی ہے جو کہ ملکی سکیورٹی کے ذمہ دار ہیں۔ اگر 98فیصد لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے 2فیصد لوگوں کی پرائیویسی میں خلل پڑتا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے ایسا کرنا مجبوری ہے''۔

نوید چودھری
رہنما پیپلز پارٹی
''پاکستان میں دہشت گردی بہت بڑھ گئی تھی اور اس طرح کے کسی قانون کی شدید ضرورت تھی۔ یہ خوش آئند ہے کہ پارلیمنٹ ایک ایسا بل لے کر آئی ہے اور تمام اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں نے مشترکہ طور پر اسے پاس کیا ہے۔اس بل کو حکومت نے پوائنٹ سکورنگ کیلئے نہیں پاس کرایا بلکہ مفاد عامہ میں یہ بل پاس کیاگیا ہے ، یہ جو کہا جارہا ہے کہ اس بل کا غلط استعمال ہوگا تو کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ ماضی میںایسا ہوتا رہا ہے مگر اب میڈیا اور سول سوسائٹی جس حد تک متحرک ہوگئی ہے ایسا ہونا مشکل ہوگا۔

ماضی میں بھی خفیہ ادارے ٹیلی فونز کی ریکارڈنگ کرتے تھے مگر اس میں مسائل تھے کیونکہ کوئی قانون نہیں تھا تاہم اب قانون بننے سے اس پر عملدرآمد آسان ہوگا۔ ابھی لوگ اس پر قانون کے اندر رہ کر عملدرآمد کیلئے تیار نہیں ہیں مگر ایک بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ججوں اور گواہوں کو دباؤ میں لاکر کیسز کے فیصلے بدلنے پر مجبور کردیا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوسکے گا یہ ایک اچھا بل ہے۔

2

اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس سے سیاسی نقصان نہیں ہوگا،ماضی میں سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہوتے رہے بلکہ یہاں تک تھا کہ وزیراعظم تک کے فون ٹیپ ہوتے تھے اور مستقبل میں اس کے استعمال ہونے کا خطرہ ہے ، مگر اس وقت مثبت چیز یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدرآمد سے ایسا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی اس قانون کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ کار سامنے آگیا ہے۔

حکومت نے اس بل کو منظور کرواکے بہت اچھا اقدام کیا ہے، اس بل کے ذریعے قانون غلط استعمال کرنے والے تفتیشی افسر کے خلاف بھی کارروائی ہوسکے گی۔ اگر قانون نافذکرنے والے ادارے ایمانداری کے ساتھ کام کریں تو یہ قانون ان کے لیے بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔ ماضی میں بھی ٹیلی فون اور ای میلز پر چیک تھا لیکن اسے قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی اس ریکارڈ کو بطور قانون عدالت میں پیش کیا جاسکتا تھا لیکن اب ایسا کرکے ان اداروں کو جدید تقاضوں کے مطابق تفتیش کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ جہاں تک ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا تعلق ہے تو اگر کوئی مشکوک بندہ ہے تو اس کا فون ٹیپ ہونا چاہئے مگر اسے بلیک میلنگ کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے''۔

سردار اکبر علی ڈوگر
سیکرٹری ہائیکورٹ بارلاہور
''تفتیش کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بہت فائدہ مند قانون ہے مگر ہمارے معاشرے میں مسئلہ یہ ہے اگر کوئی بندہ کسی کے خلاف ہے تو اس کے خلاف مواد جمع کرنا شروع کردیتا ہے، تاہم اس قانون میں یہ اچھا نکتہ ہے کہ اس کے غلط استعمال کی صورت میں 3سال کی سزا بھی رکھی گئی ہے ، جو اس کے غلط استعمال میں روک تھام کے طور پر استعمال ہوگی۔

3

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت ریکارڈ کیا گیا مواد اگر کوئی انٹر نیٹ پر رکھ دیتا ہے تو جس بندے کے بارے میں مواد رکھا گیا اس کو بہت زیادہ نقصان ہوگا اور اس کی زندگی تباہ ہوجائے گی، اس پہلو سے دیکھیں تو اس قانون کے غلط استعمال سے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں مگر جو دہشت گردی اس وقت ہمارے ملک میںہورہی ہے اس کے باعث یہ قانون بہت اچھا ہے اور اس سے ملزموںپر چیک اینڈ بیلنس رکھنا آسان ہوجائے گا''۔

داؤد ثقلین
منیجر پروگرامز ایکشن ایڈ
''جب یہ بل آیا تو انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس کی مذمت کی گئی کیونکہ یہ بل بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے خلاف ہے، عام لوگ ای میل اور ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے خوف کا شکار رہیں گے، دہشت گردی کا معاملہ تو عالمی سطح کا ہے، بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں، یہاں مسنگ پرسنز کا مسئلہ پہلے ہی کافی گھمبیر ہے ان کی کوئی خبر نہیں ۔

پہلے کسی بھی کیس میں شہادتیں ٹھوس بنیادوں پر ہوتی تھیں مگر اب اس قانون کے بعد ای میل اور ٹیلی فون کے ریکارڈ کے ذریعے شہادتیں عدالت میں پیش کی جاسکیں گی جوکہ ایک غیر محفوظ طریقہ ہوگا۔ اس بل میں یہ تو لکھا گیا ہے کہ غلط استعمال پر 3سال سزا ہوگی مگر اس میں چیک کیا ہوگا جس پر سزا کا تعین ہوگا۔

4

اس بل میںلکھا ہے کہ کوئی بھی افسر اگر اس مواد کو کسی کے خلاف استعمال کرنا چاہے تو اسے عدالت میں پیش کرسکے گا مگر ہمارے جیسے ملک جس میں حکومتی رٹ پہلے ہی موجود نہیں ہے وہاں اس کی سزا کون دے گا اور دوسرا یہ کہ اگر کسی بندے پر شک کی بنیاد پر عدالت میں اس کا ریکارڈ چیک کرنے کی درخواست دی جائے گی تو شک کس بنیاد پر ہوگا اور شک کیلئے کیا شواہد پیش کئے جائیں گے۔ اس لئے مجموعی طور پر اس قانون سے عوام کی پرائیویسی متاثر ہوگی''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔