تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
چادر میں ملفوظ اس شخص کو وہ کوئی بے جان چیز سمجھا
GILGIT:
چلیے آج کچھ تھوڑا سا کہانی کہانی کھیلتے ہیں لیکن جو کہانی ہم سنانے جارہے ہیں وہ کہانی نہیں بلکہ حقیقہ ہے، ایک پہاڑی علاقے کا ایک نوجوان روزانہ پاس کے شہر میں مزدوری کے لیے جاتا تھا۔ ایک دن جاتے جاتے ایک انسانی تقاضے کے لیے راستے سے ہٹ کر ایک گڑھے میں اترا اور اپنے اوپر چادر ڈال کر تقاضا پورا کرنے لگا، بے چارے کو کچھ قبض کی شکایت تھی اس لیے کافی دیر تک بیٹھا رہا اتنے میں ایک پرندہ آکر اس کے عین سامنے بیٹھ گیا۔
چادر میں ملفوظ اس شخص کو وہ کوئی بے جان چیز سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے کاندھے پر بیٹھ گیا، پرندہ اس شخص کے لیے بالکل ہی نیا تھا اس لیے اسے پکڑ لیا، شہر میں لوگوں نے اسے دیکھا تو بتایا کہ یہ تو بڑا قیمتی پرندہ ہے اور عرب کے شیوخ اس کی بڑی قیمت دیتے ہیں وہ پوچھ پاچھ کر پرندوں کے ایک سوداگر تک پہنچا جو عرب شیوخ کو یہ پرندے سپلائی کرتا تھا، اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس شخص نے پرندے کے ایک لاکھ روپے کی پیش کش کی، سمجھ گیا کہ ''چیز'' کام کی ہے اس لیے اس نے انکار کیا مزید جھٹکا اسے اس وقت لگا جب اس نے پانچ لاکھ بتائے اور اس شخص نے فوراً ڈن کر دیا۔
پانچ لاکھ لے کر وہ گاؤں آیا اور ان پرندوں کی تلاش میں نکل پڑا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص نہ صرف کروڑ پتی ہو گیا بلکہ براہ راست عربوں سے معاملہ کرنے لگا، دولت ہن کی طرح اس پر برسنے لگی، کہانی کے بارے میں اتنا بتا دیں کہ یہ لفظ بلفظ سچی ہے بلکہ اس شخص کو ہم جانتے ہی نہیں بلکہ اچھی خاصی شناسائی بھی تھی، اپنے عروج کے دور میں اس نے آسانی سے آنے والی دولت کے بل پر زبردست عیاشیاں شروع کیں۔
ہمارے ٹی وی کی ایک گلوکارہ پر بھی لٹو ہو گیا تھا ساتھ ہی جوئے بازی بلکہ تقریباً ہر بازی بھی کھیلنے لگا، ایک ایک طوائف کے لیے وہ عرب ممالک سے قیمتی تحائف منگوانے اور نذر کرنے لگا اس خاص منظور نظر طوائف کے لیے تو اس نے اس کے باپ کی خواہش پر نیا چیسز منگوا کر اس پر بس کی باڈی چڑھائی اور لا کر اس کے گھر سامنے کھڑی کر کے چابی تھما دی، لیکن کہانی میں ٹوسٹ اس وقت آگیا جب وہ پرندے نایاب ہوتے ہوتے ختم ہو گئے، باز کے خاندان کے یہ شکاری پرندے ویسے بھی کم تعداد میں ہوتے ہیں آمدن ختم ہو گئی لیکن جو کچھ اس نے شروع کیا ہوا تھا برابر چل رہا تھا جب بینکوں وغیرہ کے قرضے بھی چڑھ گئے تو اس نے آمدن کا ایک اور ذریعہ تلاش کیا، علاقہ غیر کے کچھ ٹرانسپورٹر لوگوں کو قسطوں پر گاڑیاں دیتے تھے۔
ظاہر ہے کہ دس لاکھ کی گاڑی بیس میں دیتے تھے اس یار نے ان سے گاڑیاں قسطوں پر لینا شروع کیں اور یہاں نقد پر آدھی قیمت پر فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، گاڑیاں دینے والے معمولی لوگ نہ تھے انتظامیہ کے ساتھ ان کی ساجھے داری تھی چنانچہ ایک دن باقاعدہ پولٹیکل ایجنٹ کے وارنٹ اور آدمیوں کو لا کر اسے اٹھوا لیا گیا اور علاقہ غیر میں بٹھا کر واجب الادا رقم مانگ لی گئی، لواحقین نے سب کچھ بیچ کر اور کچھ قرضے وغیرہ لے کر اسے رہا تو کرا لیا لیکن اب اس کے پاس کچھ نہیں تھا، سوائے پہاڑ جیسے قرضے کے۔
چنانچہ ایک دن ایسا غائب ہوا کہ آج تک کوئی پتہ نہیں چلا ۔ کم از کم لواحقین اور قرض خواہ کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے البتہ ہمیں معلوم ہے کیونکہ ایک مرتبہ ہم نے اسے اچانک دیکھ لیا تھا ایک مزار شریف میں ایک ملنگ بنا ہوا اور لنگر پر گزارہ کرتا ہوا، لیکن ہم نے آج تک کسی نہیں بتایا ہے، کیا خیال ہے یہ کہانی ہم نے آپ کو کس لیے سنائی کیا ہم داستان گو ہیں جو یونہی کہانیاں سناتے پھریں، ذرا اس کہانی پر گہرائی میں جھانکیں ۔۔۔ تو آپ کو صاف دکھائی دے گا کہ
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
زیادہ دماغ سوزی کرنے کی ضرورت نہیں جو ''چیز'' ہے ہی نہیں اس پر زور ڈالنے سے کیا فائدہ؟ پاکستان بھی ایک پرندہ ہے جو ندیدوں کے ہاتھوں لگ گیا تھا جہاں تک ممکن ہے اسے بیچا گیا اور رقم پر ایسا کوئی عیش ہے ہی نہیں جو نہیں کیا گیا، جن لوگوں کے ہاتھ یہ پرندہ لگا تھا وہ اس خوشی میں بھول گئے تھے کہ آخر یہ پرندہ کب تک انڈے دے گا اور کب تک مارکیٹ میں اس کی مانگ رہے گی، وہ تو اسے بیچتے رہے کھاتے رہے اور پھر آیا وہ زمانہ جو سود خوروں کے ہاتھ میں پڑ گیا قرضے لیے جاتے رہے عوام کو اداروں کو حتیٰ کہ سرزمین کو بھی گروی رکھ دیا گیا، ساڑھے بائیس ہزار ارب ڈالر۔
ایک مرتبہ پھر پڑھئے، ساڑھے بائیس ارب ڈالر ہیں تو یقین نہیں آرہا ہے، ساڑھے بائیس ہزار نہیں بلکہ اتنے ہزار ارب اور وہ بھی ڈالر جن کے اگر ہم روپے بنائیں تو شاید پورے پاکستان کی سرزمین کو ڈھانپ لیں ۔ یہ قرضہ اب تک لیا جا چکا ہے لیکن یہ صرف ''قرضے'' کا سادہ سا لفظ نہیں ہے اور نہ ہی قرضہ حسنہ اور نہ قرض ہنسنا بلکہ ''قرض رونا'' ہے کیونکہ اس کا جو سود بنتا ہے اسے ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لیا جارہا ہے کیونکہ اس ساڑھے بائیس ارب ڈالر تو اپنی جگہ ہیں بلکہ برابر بڑھوتری کر رہے ہیں اور اس پر جو سود ادا کیا جارہا ہے وہ پاکستان کی جی ڈی پی یا آمدنی کا اسی فیصد ہوتا ہے، گویا ملک کے عوام جو دن رات خون پسینہ ایک کر کے بلوں، مہنگائیوں، ٹیکسوں اور نہایت ہی ظالمانہ طریقوں سے حکومت کو ادا کر رہے ہیں ان کا سی فیصد تو سود میں چلا جاتا ہے اور باقی بیس فیصد ''چالیس چور'' آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔
تنخواہوں، مراعات اور اللے تللے میں خرچ ہو جاتا ہے، لیکن آخر کب تک ''علاقہ غیر'' سے سود پر گاڑیاں لے کر نقد میں فروخت کر کے ''تماش بینی'' جاری رہ سکے گی، حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ دیوالیہ ہونے میں بس ایک پیاز کی جھلی جتنا فاصلہ ہے، سیاسی نوسر باز کیسے بھی بیان کریں حقائق بدلنے والے نہیں ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چوری عیاشی اور لوٹ مار کرنے والوں نے تو باہر کے ملکوں میں اپنے اپنے ٹھکانے کر لیے ہیں یہ خدا مارے کہاں جائیں گے جن کے اوپر ایک لاکھ پنتیس ہزار قرضہ فی فرد مع سود کے چڑھا ہوا ہے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل ''ملک'' عدم میں شب ہجراں ہوں گے