سرمایہ داری نظام کا بحران
ریفرنڈم کے بعد یہ چیز سامنے آئی کہ یورپی یونین کے مخالفوں نے جو اعدادوشمار دیے وہ مبالغہ آمیز تھے
www.facebook.com/shah Naqvi
KARACHI:
برطانیہ کی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ بریگزٹ پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ پارلیمان میں ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق اس عدالتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم تھریسامے ارکان پارلیمان کی منظوری کے بغیر یورپی یونین کے ساتھ بات چیت شروع نہیں کر سکیں گی۔
یاد رہے کہ پچھلے سال جون میں برطانیہ میں ریفرنڈم منعقد ہوا۔ دونوں نکتہ نظر کے حامیوں نے برطانوی عوام پر اثرانداز ہونے کے لیے ایک بہت بڑی پروپیگنڈا مہم چلائی اور جب ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ صرف 52 فیصد افراد یورپی یونین سے نکلنا چاہتے ہیں جب کہ 48فیصد اس کے خلاف ہیں۔ ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد وہ لوگ بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ گئے جو یورپی یونین میں رہنا چاہتے تھے۔
ریفرنڈم کے بعد یہ چیز سامنے آئی کہ یورپی یونین کے مخالفوں نے جو اعدادوشمار دیے وہ مبالغہ آمیز تھے۔ یہاں تک برطانوی عوام کو گمراہ کیا گیا کہ یورپی یونین میں شمولیت کی وجہ سے برطانیہ کو اربوں پونڈ ہفتہ وار خسارہ ہو رہا ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت کی وجہ سے غیرملکی تارکین وطن جن میں یورپ میں بسنے والی کم ترقی یافتہ اقوام بھی شامل ہیں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بیروز گاری صحت تعلیم کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
خدشہ ہے کہ ان مدوں پر جو سہولت سوشل ویلفیئر کے حوالے سے مل رہی ہے وہ کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم نہ ہو جائے۔ سب سے بڑا ایشو دنیا کے مختلف اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارکین وطن تھے جن کی بہت بڑی تعداد برطانیہ میں قیام پذیر ہے۔ ان کا مذہب، نظریات اور طرز زندگی کو برطانوی عوام کے سامنے بدترین طریقے سے ایکسپلائٹ کیا گیا۔
مسلمانوں کے خلاف تعصبات اتنے بڑھے کہ مذہبی سیاسی اور سرکاری شخصیات بھی ان کی لپیٹ میں آ گئیں۔ دائیں بازو کے گورے تنگ نظر مذہبی نسل پرست لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کی تعداد اور شرح پیدائش برطانیہ کے لیے خطرہ ہے۔ایک وقت آئے گا کہ اسلام اور مسلمان فیصلہ کن قوت اختیار کرتے ہوئے اپنے مذہب، نظریات اور طرز زندگی کو برطانوی عوام پر بذریعہ قوت نافذ کر دیں گے۔
اپنے معاشی مسائل یورپ میں دائیں بازو کی الٹرا رائیٹ نسل پرست قوتوں نے اپنے معاشی مسائل بیروزگاری کا ذمے دار مسلمان تارکین وطن کو ٹھہرا دیا جو کروڑوں کی تعداد میں یورپ میں آباد ہیں۔ ان متعصب سیاسی قوتوں کے نزدیک اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمانوں کی آمد روکی جائے۔
دوسرے مرحلے میں یورپ مرحلہ وار مسلمانوں کو اپنے آبائی ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو شعلہ بنانے میں خود مسلمان ہی سب سے زیادہ قصور وار۔ اپنے طرز زندگی مذہب نظریے پر اصرار اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش۔ مغرب میں ہونے والی ہر دہشتگردی میں مسلمانوں کا ملوث ہونا۔ اس پر نسل پرست طنزیہ کہتے ہیں کہ یہ مسلمان جن ملکوں سے آتے ہیں وہاں بادشاہت آمریت اور نام نہاد جمہوریت کے سوا کچھ نہیں۔
یہ لوگ تو اپنے آبائی ملکوں میں گھروں کے باہر کیا گھروں کے اندر تک محفوظ نہیں۔ اپنی حکومتوں کے ہاتھوں بھوک غربت بیروزگاری میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ جب یورپ امریکا آتے ہیں تو اعلیٰ ترین انسانی مساوات کا مزہ چکھتے ہوئے جب خوش حالی ان کے دروازے پر دستخط دیتی ہے تو بے اختیار ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یورپ امریکا میں اسلام نافذ کیا جائے۔ جسے انھوں نے بذریعہ قوت فتح کر لیا ہو۔ ٹرمپ کے آنے سے یہ نسل پرست قوتیں یورپ میں مزید مضبوط ہوں گی اور بہت زیادہ امکان یہ ہے یورپین اقوام ان متعصب قوتوں کو ووٹ دے کر امریکی عوام کی طرح اقتدار میں لے آئیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند دن پیشتر برطانوی خاتون وزیراعظم کے دورہ امریکا پر برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ہے۔ یورپ، امریکا میں رہنے والے مسلمان تارکین وطن کے اچھے دن تمام ہوئے اب ان کو آنے والے دنوں میں تاریک مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا جو بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ گرتی ہوئی شرح پیداوار اور کمزور معیشت ہے۔
رنگ و نسل کے تعصبات اس بات کا نتیجہ ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو رہا ہے۔ اس میں انسانیت نہیں منافع ہی سب کچھ ہے۔ اسی حقیقت کو چینی صدر نے چند دن پیشتر ڈیوس میں خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ عالمی معاشی بحران کی وجہ بے جا منافع ہے جس کی وجہ سے عالمی معاشی صورت حال کمزور ہے۔ نتیجہ عالمی معیشت کا سرد بازاری کا شکار ہونا ہے۔
کمزور عالمی معیشت کی وجہ سے بیروزگاری بھوک غربت میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خود پاکستان میں اس وقت ایسا معاشی نظام رائج ہے جو دولت مند کو مزید دولت مند اور غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے۔ اس نظام کے پیچھے ریاستی طاقت پوری قوت سے کھڑی ہے۔ڈیوس کانفرنس میں برطانوی ادارے آکسفیم کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں ارتکاز دولت کے حوالے سے بتایا گیا کہ دنیا کے صرف8 لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جو دنیا کے 3 ارب 60 کروڑ افراد کے برابر ہے جب کہ بھارت میں57ارب پتیوں کے پاس216 ارب ڈالر دولت ہے ،جتنی پورے ملک کی70فیصد آبادی کے پاس ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ارتکاز دولت کی وجہ سے دنیا سے غربت کے خاتمے کی کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ارب پتی ٹیکس چوری کرتے ہیں جب کہ غریبوں کو دی جانے والی مراعات کم کر دی جاتی ہیں۔ امیر غریبوں کا استحصال کر کے امیر تر ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کی وجہ سے مغرب میں سیاسی تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں جیت اس کا ثبوت ہیں۔
یہ ارتکاز دولت ہی ہے جس کے ذریعے ملکوں اور عوام کو غلام بنایا جاتا ہے چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔ اپنوں پر ہاتھ ہولا رکھا جاتا ہے۔ اس دولت سے جنگی طاقت میں اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ استحصالی نظام کے خلاف کوئی نہ کھڑا ہو سکے اس طرح یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے کہ انسانوں کی مزید غلامی مزید استحصال مزید دولت' تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بادشاہت دنیا پر قائم رہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے فروری مارچ سے فیصلہ کن وقت شروع ہو جائے گا۔