ملک بھر میں مردم شماری شفاف اور غیر متنازع ہونا ضروری ہے ایکسپریس فورم

مردم شماری کے حوالے سے مختلف شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں گفتگو


کوشش کی جارہی ہے کہ تمام مراحل اس طرح انجام پائیں کہ عوام کو کسی قسم کی شکایت نہ ہو۔ فوٹو: ایکسپریس

CHARSADDA: کسی بھی گھر، علاقے، شہر یا ملک کا نظام بہتر سے بہتر طریقے سے چلانے کیلیے ضروری ہے کہ وہاں رہائش پذیر لوگوں کی صحیح تعداد کا علم ہوتاکہ اُسی حساب سے اُن کے لیے کام کیے جاسکیں یا منصوبے بنائے جاسکیں۔ جب ہم کسی ایک گھر کا نظام بھی رہنے والوں کی گنتی کیے بغیر نہیں چلاسکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک بھر کے ترقیاتی منصوبے بناتے وقت، عوام کے لیے مختلف قسم کی سہولتوں کی فراہمی کی تیاریوں کے وقت ہم بھول جائیں کہ جس چیز کا اعلان کیا گیا ہے وہ کتنے لوگوں کیلیے ہے۔

مردم شماری کی اہمیت کو جانتے اور سمجھنے کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مردم شماری کو خاص اہمیت نہیں دی جارہی ، اس پر کسی کی توجہ نہیں رہی یا جان بوجھ کر اس اہم معاملے کو پس پشت ڈالا گیا۔ وجوہ کچھ بھی ہوسکتی ہیں ، مردم شماری نہ ہونے کے اسباب سیاسی بھی ہوسکتے ہیں، قدرتی آفات بھی کبھی رکاوٹ بنی ہوں گی اور کبھی کسی اور سبب ، پاکستان میں مردم شماری کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہوسکا، آخری بار مردم شماری 1998 میں کی گئی تھی، اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ 18 سال سے ملک بھر میں عوام کے لیے کیے گئے فیصلے اندازے سے کیے جارہے ہیں ۔

مردم شماری کتنی ضروری ہے؟، اس کو کیوں تاخیر کا شکار کیا گیا؟، ایسی کون سی وجوہ تھیں جن کی وجہ سے ایک اہم قومی فریضہ نظر انداز کیا جاتا رہا ؟ ، کیا اس میں بھی سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں؟، مردم شماری کے معاملے پر آخر سیاسی جماعتیں یکساں موقف سے کیوں گریزاں رہیں؟، مردم شماری کے انعقاد میں کیا کیا مراحل ہوں گے اور اسے کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا؟۔

ایسے ہی سوالات لیکر ہم نے ''ایکسپریس فورم '' میں اپنے اپنے شعبوں کی اہم شخصیات سے بات کی، شرکا میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شامل تھے اور ماہرین بھی، سب نے اپنے حساب سے مردم شماری کے حوالے سے اظہار خیال کیا، کراچی میں منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' کی روداد نذر قارئین ہے۔



سید ناصر حسین شاہ (رہنما پیپلزپارٹی، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ)

مردم شماری انتہائی اہم معاملہ ہے۔ مردم شماری کے عمل میں حکومت سندھ کے متعلق جو بھی شکوک شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں، ہم توصرف یہ چاہتے ہیں کہ مردم شماری صاف و شفاف ہو۔ پوری دنیا میں اس وقت بھی وسائل کی تقسیم کا بڑا انڈیکیٹر آبادی ہی ہے، ہم کس طرح مردم شماری کو متنازع بناکر اپنا نقصان کریں گے؟۔

شہری آبادی ہو یا دیہی آبادی ہو، جہاں بھی آبادی کا شمار کم ہوگا نقصان تو پورے صوبے کا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کے اوپر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اس سلسلے میں حکومت سندھ کو اپنی تجاویز دیں، ہماری کوشش ہے کہ مردم شماری کے انتظامات کے عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ رکھا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری میں عوام کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔

یہ درست ہے کہ ملک میں مردم شماری مقررہ وقت پر ہونی چاہیے، گزشتہ مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور اب 2017 میں ہونے جارہی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس مرتبہ مردم شماری عدالت کے حکم پر کرائی جارہی ہے۔ سب کو بخوبی علم ہے کہ پیپلز پارٹی مختلف اوقات پر اس معاملے کو اٹھاتی رہی ہے، پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں اس سلسلے میں پیش رفت بھی ہوئی اور گھر شماری کرائی گئی لیکن تنازعات کے باعث یہ عمل مکمل نہ ہوسکا تھا۔

گھر شماری کے عمل میں اس طرح بھی ہوا کہ دو یا تین بلاکس میں 4 سے 5 ہزار گھر ظاہر کیے گئے، حالانکہ عمومی طور پر ایک بلاک دو سے ڈھائی سو گھروں مشتمل ہوتا ہے، یہ مفروضات نہیں ریکارڈ کی بات ہے۔یہ درست ہے کہ غلط اعدادو شمار مرتب کرنے پر کارروائی ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہوئی۔ایم کیو ایم مختلف فورمز پر یہ باتی کہتی آ رہی ہے کہ گزشتہ گھر شماری کے عمل پر 4ارب روپے خرچ ہوئے تھے، اس وجہ سے نئی گھر شماری نہ کرائی جائے۔

معلوم نہیں ایم کیو ایم کیوں چاہتی ہے کہ وفاق کا خرچہ بچ جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سابقہ گھر شماری کے دوران غلط اعداد و شمار صرف شہری علاقوں میں درج ہوئے، دیہی علاقوں میں بھی اس طرح کا عمل ہوا تھا۔ اس مرتبہ کوشش ہے کہ ایسا عمل نہ ہو، ہر شمار کنندہ کے ساتھ ایک فوجی جوان ہوگا، اس مرتبہ کہیں بھی کوئی نو گو ایریا نہیں ہوگا، جو بھی فارم دیا جائے گا وہ ہی بھرا جائے گا۔ فوج ہمارے ملک کا ادارہ ہے،کسی بھی عمل میں فوج کو بلانے کا فیصلہ سب کا متفقہ ہوتا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے دور میں مردم شماری کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کُل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی جس میں شریک تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ مردم شماری کے عمل میں فوج کا ہونا ضروری ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سمیت کراچی میں مینڈیٹ رکھنے والی تمام جماعتوں کو چاہیے کہ کہ وہ مردم شماری کے عمل میں شامل ہوں، جبکہ میڈیا کو بھی اپنا کردار کرنا چاہیے تاکہ مردم شماری صاف اور شفاف ہوسکے۔ آبادی صرف کراچی کی نہیں بڑھی، صوبے کے تمام شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

ریحان ہاشمی (ایم کیوایم پاکستان)

مردم شماری کے معاملے پرمتحدہ قومی موومنٹ متعدد بار قومی اسمبلی اورسینیٹ میں آواز بلند کرچکی ہے ۔جب خانہ شماری پر4ارب روپے خرچ ہوسکتے ہیں تومردم شماری میں تاخیرکیوں؟۔ اربن سندھ کی آبادی اب بہت بڑھ چکی ہے، صاف اورشفاف مردم شماری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ کہیں مردم شماری کے عمل کومتنازع بنانے کی کوشش تونہیں کی جارہی۔ وفاق اورسندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان شکوک کوختم کروائیں۔ خانہ شماری کا تمام ڈیٹا اسلام آباد جاچکا ہے اس معاملے پرکسی نے سوال نہیں اٹھایا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مردم شماری کے عمل میں تاخیرسے ملک بھر میں رہنے والے عوام اورتمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھے والے افراد متاثر ہورہے ہیں۔ جب ہم پولیوویکسین کوجاری رکھ سکتے ہیں تومردم شماری میں اتنی تاخیر کیوں؟۔ وفاق اورصوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ایک مرتبہ پھرمردم شماری کاعمل تاخیر کا شکار نہ ہوجائے۔

ایم کیوایم یہ سمجھتی ہے کہ مردم شماری کے عمل سے قبل وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے نمائندوں کو پاکستان کے عوام کوآن بورڈ لیناچاہیے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سندھ حکومت سے مردم شماری سمیت مختلف امورپرمشاورت کرناچاہتی ہے مگرہم سمجھتے ہیںپہلے پی پی قیادت یہ طے کرلے کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے فیصلوں پرعملدرآمدکراسکتی ہے یا نہیں۔کراچی میں آبادی کاتناسب اس درجہ بڑھ چکاہے کہ آج 80 گز کے گھرمیں کئی سو افراد رہائش پذیر ہیں اور زمین کے گھرکے بجائے پورشن کا ٹرینڈ چل نکلاہے جس گھر میں پہلے 5 افرادرہتے تھے اب وہاںکئی سورہتے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں سیوریج، پانی اورپارکنگ کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

عمران اسماعیل (رہنما پاکستان تحریک انصاف)

مردم شماری کے عمل میںتاخیرکی ذمے دارسندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہے ، پیپلزپارٹی ہمیشہ صوبے میںمردم شماری کروانے کے عمل سے خوف زدہ رہی ہے اورنئے نئے حربوںسے وہ مردم شماری کے عمل میں رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ ن لیگ کو بھی یہی خطرہ رہتا ہے کہ مردم شماری ہونے سے کہیں پنجاب میں اس کی نمائندگی کم نہ ہوجائے۔ سندھ کے شہری علاقے پیپلزپارٹی کے ہیں،اس کے باوجود وہاں ووٹ ایم کیوایم کوپڑتا ہے۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری کے عمل کوشفاف بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکواعتمادمیں لیا جائے ، اس طرح بہترمانیٹرنگ ہوسکتی ہے۔دوسری جانب مردم شماری میںزبان کے خصوصی خانے کامعاملہ مسئلہ بن سکتاہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک رہ گئے ہیں جہاں تاحال مردم شماری کی ضروت آج بھی ہے ورنہ زیادہ ترممالک میں آج الیکٹرانک سسٹم موجودہے۔

ہم وفاقی حکومت سے کہناچاہتے ہیں کہ نادرا کو مزید اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس2008میں موقع تھاکہ وہ مردم شماری کرواتی مگرانھوں نے موقع ہونے کے باوجود اپنے مفادکی خاطریہ موقع گنوادیا، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اربن سیکٹر کو رد کیا ہے۔ آج ان کاووٹ بینک اندرون سندھ تک محدودرہ گیاہے کیونکہ پی پی قیادت کی ہمیشہ اندرون سندھ توجہ کامرکزرہا ہے۔

پیپلزپارٹی صوبائی حکومت اس لیے بھی خوف زدہ ہے کہ اس عمل کے بعدپی پی کاووٹ بینک ماضی کے مقابلے میں مزید کم ہوگا۔ جب شفاف اندازسے مردم شماری ہوگی توشہری ووٹ بینک بڑھے گاجس کانقصان پیپلزپارٹی کے سوا کسی کوبھی نہیں ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اورپنجاب میں حکمراں مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت کومعلوم ہے کہ شفاف مردم شماری سے ان کے ساتھ کیا ہونا ہے۔ اس ہی لیے یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے فائدے دیکھ کرملک کے فیصلے کرتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف سمیت صوبے کی تمام جماعتیں سندھ حکومت کاساتھ دینے کے لیے تیار ہے لیکن حکومت اورسیاسی جماعتوں کے درمیان جوایک رابطوں میں فاصلہ ہے اس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ حکومت بڑے بھائی ہونے کاکردار ادا کرتے ہوئے صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے ۔ جب تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پرہوں گی توکوئی بھی قوت ہمیں اپنے فیصلوں سے نہیں ہٹاسکتی۔



سورٹھ تھیبو (رکن سندھ اسمبلی، مسلم لیگ ن)

مردم شماری ایک قومی مسئلہ ہے، سیاسی جماعتیں اس کو متنازع نہ بنائیں ۔ اگر کسی جماعت کے کوئی تحفظات یا سفارشات ہیں تو وہ حکومت کو پیش کریں تاکہ مردم شماری خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کی جا سکے ۔ ملک میں آخری مرتبہ 1998 ء میں مردم شماری ن لیگ نے کرائی تھی،اب طویل عرصے بعد ملک میں دوبارہ مردم شماری ہونے جا رہی ہے جس کا کریڈٹ بھی وزیر اعظم نواز شریف کو جاتا ہے۔ آبادی کی صحیح تعداد پتہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ اس لیے اگر بغیر کسی سیاست کے مردم شماری مکمل ہو گئی تو یہ پاکستان کی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔

عوام کو چاہیے کہ وہ مردم شماری میں صحیح طریقے سے اپنے خاندانوں کا اندراج کرائیں ۔ صوبائی حکومتیں بھی مردم شماری کے حوالے سے وفاق کے ساتھ تعاون کریں ۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو اس معاملے میں شامل کریں کیونکہ بلدیاتی نظام جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مردم شماری علاقائی سطح پر ہوتی ہے۔ اس لیے خانہ شماری اور مردم شماری کے کام میں بلدیاتی نمائندے شامل ہوں گے تو یہ کام خوش اسلوبی سے حل ہوگا۔ مردم شماری میں پاک فوج کی شمولیت خوش آئند ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے درخواست ہے کہ سندھ میں نئے شناختی کارڈز کے اجرا کے عمل کو تیز کیا جائے۔

نصرت سحر عباسی (رکن سندھ اسمبلی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل)

مردم شماری ایک حساس قومی معاملہ ہے، اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مردم شماری کے معاملے میں پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور سفارشات کو نظر انداز کیا تو مردم شماری کی شفافیت پر سوال اٹھ جائیں گے ۔ مردم شماری کو مکمل کرنے کیلیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مرکز اور صوبائی سطح پر آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کریں تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پارلیمانی اور دیگر سیاسی جماعتیں مل کر اس قومی معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر سکیں۔

سندھ میں مردم شماری کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو تمام جماعتوں سے مشاورت کرنی چاہیے اور ان کو اعتماد میں لے کر مردم شماری مکمل کرنے کیلیے ایک مربوط نگرانی کا نظام قائم کرنا چاہیے ۔ وفاق اور صوبائی حکومت اس امر کو یقینی بنائیں کہ اس عمل کے دوران غیر ملکی تارکین وطن اپنے خاندانوں کو رجسٹرڈ نہ کراسکیں ۔مردم شماری پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ مردم شماری کو شفاف بنانا وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔

مردم شماری مکمل ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور آبادی کے تناسب سے سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) مردم شماری کے عمل میں ہرممکن تعاون کرے گی ، جہاں خامیاں نظر آئیں گی ، وہاں ہم ان کی نشاندہی کریں گے ۔ سندھ بھر کے عوام سے اپیل ہے کی کہ وہ خانہ شماری ومردم شماری میں بھرپور حصہ لیں تاکہ صوبے کی آبادی کا درست تعین ہوسکے۔

ڈاکٹر سید نواز الھدیٰ (تجزیہ کار و محقق)

مردم شماری میں سب جماعتوں کے اپنے اپنے مقاصد شامل ہوجاتے ہیں اس لیے مردم شماری متنازع بن جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب نمائندے مشاورت سے ایک پیج پر جمع ہوجائیں اسے اسمبلی کے ذریعے منظور کرائیں۔ مردم شماری ایک اہم ، حساس اور قومی معاملہ ہے اس لیے مردم شماری کے ڈیٹا میں رد وبدل کرنے والے کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور اس پر عملدرآمد یقینی کو بنایا جائے۔ اگر شمار کنندہ خانہ شماری یا مردم شماری کے ڈیٹا میں کوئی جعل سازی کرتا ہے تو اسے سخت سزا دینی چاہیے، سزا کا خوف اگر قائم ہوجائے گا تو مردم شماری شفاف طریقے سے ہوگی۔

محکمہ مردم شماری کے 2011ء کے بلاکس تصدیق شدہ ہیں جن کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے 2013ء کے انتخابات کیلئے انتخابی فہرستیں ازسرنو مرتب کیں اور دیگر امور انجام دیے۔ اب مردم شماری کیلئے نئے بلاکس شامل کیے جارہے ہیں جن کی سندھ حکومت سے تصدیق کرانا چاہیے تاکہ کوئی تنازع نہ کھڑا ہو۔ مردم شماری 2 مراحل میں ہوتی ہے، پہلے مرحلے میں خانہ شماری کی جاتی ہے جس میں گھروں کی تعداد اور افراد کی تعداد معلوم کی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں مردم شماری کا باقاعدہ کام ہوتا ہے جس میں گھرانے کا مکمل ڈیٹا معلوم کیا جاتا ہے اور تفصیلی سوالنامہ پرُ کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں