جرمن سائنسدانوں اور قذافی نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے میں مدد دی

پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کی معاونت کی معلومات نہیں ہیں، سی آئی اے رپورٹ


این این آئی January 30, 2017
پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ فوٹو؛ فائل

1982میں مرتب کی گئی سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن سائنسدانوں اور قذافی نے ایٹم بم بنانے میں پاکستان کی مدد کی تھی۔

سی آئی اے کی جانب سے افشاکی گئی دستاویزات میں سے ایک کے مطابقسی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لیبیا کے صدر قذافی کا پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ایک خفیہ معاہدہ تھا جس کے تحت پاکستان نے ایٹم بم تیار کرنا تھے اورلیبیا کو ایٹمی تحفظ فراہم کرنا تھا۔اس مقصد کیلیے قذافی نے پی آئی اے طیاروں کے ذریعے 50کروڑ ڈالر کراچی پہنچائے۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کے ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں، اگرچہ جنرل ضیا کو ایٹمی سرگرمیوں پر امریکا کی ممکنہ ناراضی کا علم تھا اور انھوں نے ایک مرتبہ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کا ایٹمی ہتھیار تیارکرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن ان کے دور میں بھی یہ کام رکا نہیں جب کہ رپورٹ میں اس وقت کی امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ تعمیر کرنے کے حوالے سے خبردارکرتے ہوئے سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982 میں امریکا پر اثر انداز ہونے والے عالمی واقعات نامی رپورٹ میں کیں۔

ادھر رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے آلات اور پرزہ جات خرید رہے ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ اگلے دو ماہ میں وہ پلوٹونیم کشید کرنے کے لیے ری پراسیسنگ پلانٹ بھی شروع کر دیں گے تاہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ" سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز ''ورلڈوائڈ رپورٹ'' میں جولائی 1981 کی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ کس طرح جرمن سائنسدانوں اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے خفیہ طور پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی تھی۔ قذافی اس مقصد کیلیے تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو فراہم کررہے تھے جبکہ جرمنوں کے حوالے سے مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی ملاقات کا ذکر ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں