لڑتے لڑتے ہوگئی گُم

قبل اِس کے عدم برداشت ہمارے معاشرے کو تباہ کردے، آگے بڑھیں اور مسکراہٹ کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کریں۔


پاکستان میں تو سیاسیات کے مفکرین کے تمام نظریات ہی رد ہو جاتے ہیں۔ یہاں سیاست میں وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے جو سب سے بڑا جگت باز ہوتا ہے۔

مناحِل میری بھتیجی ہے، شروع سے ہی میرے بہت قریب رہی ہے۔ اُس کی میٹھی میٹھی باتیں ہمیشہ تسکین پہنچاتی رہی ہیں، بچپن میں جب اُس نے الفاظ کی ادائیگی کا آغاز کیا تبھی سے میں نے اُسے بچوں کی نظمیں، مسنون دعائیں ازبر کرا دی تھیں۔ بچپن میں جب بھی وہ بچوں کو لڑائی کرتے دیکھتی تو ایک نظم کا مصرع اکثر گنگنایا کرتی ''لڑتے لڑتے ہوگئی گُم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم''۔ مجھے آج مناحِل کی توتلی زبان سے نکلی ہوئے یہ الفاظ شدت سے یاد آرہے ہیں، اِس کی وجہ اپنے اردگرد روزانہ معمول کے مطابق اور خلاف معمول پے در پے رونما ہونے والے درجنوں واقعات ہیں۔

موٹر سائیکل کے اچانک اوور ٹیک کرنے پر دست و گریباں ہونا، دودھ کی دکان پر باری کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے بیچ دھینگا مشتی، باس کی جانب سے ملازمین کو صلٰواتیں سنانا، ساس اور بہو کی توتکار، اور الفاظ کی بولی سے شروع ہونے جنگوں کا اختتام گولی کی شکل میں ہونا ہمارے معاشرے کے وہ المیے ہیں جو کہ ہمیں خاموش قاتل کی مانند مردہ بنا رہے ہیں۔

اسلام صبر کا درس دیتا ہے، اس کے ساتھ دیگر مذاہب بھی رواداری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ معاشرتی علوم کے ماہر اور سماجی رویوں کے محقق عدنان خالد سے میں نے جب عدم برداشت اور تشدد کی وجوہات جاننے کے لئے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ''جب دلیل ہار جاتی ہے تو تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، انسان ہارنا پسند نہیں کرتا، جیت کے لئے وہ ہر ممکنہ ذریعہ استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ جیت کے لئے تشدد کا ہتھیار بھی استعمال کرنے سے وہ باز نہیں آتا۔''

سرفراز راجہ صحافی ہیں، تشدد، عدم برداشت اور نفرت سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ تشدد اور عدم برداشت کی اصل وجہ جہالت ہے، مگر اُن کی اِس بات سے میں متفق نہیں ہوں۔ وجہ یہ کہ ملک کے سنجیدہ ترین طبقے میں شمار ہونے والے پارلیمنٹیرینز کی جانب سے تشدد کا طریقہ اختیار کرنا اُن کی اس بات کی نفی کرتا ہے۔ 20 کروڑ سے زائد آبادی میں سے محض چند سو افراد منتخب ہو کر قانون سازی کے لئے صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر بنتے ہیں۔ یعنی بیس کروڑ میں سے چند سو افراد کو ہی یہ اعزاز ملتا ہے کہ وہ قوم کی خدمت اور اُن کی ترجمانی کرسکیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے مہذب ترین ادارے یعنی قومی اسمبلی میں جس طرح حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے اُس کی نظیر پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ملی اور یقیناً یہ مناظر دیکھ کر کسی بھی پاکستانی کا سر فخر سے بلند نہیں ہوا ہوگا۔

پارلیمان میں ہنگامہ آرائی سے یوں لگ رہا تھا جیسے میانوالی میں بٹیروں کی لڑائی ہورہی ہو یا اصیل مرغوں کی لڑائی جاری ہو۔ لاتیں اور گھونسے ایسے چلائے جارہے تھے جیسے فری اسٹائل ریسلنگ کا دنگل لگا ہوا ہو، دلیل کی ہار پر حکومتی ارکان اور اپوزیشن کے ارکان باہم گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ محسوس ہورہا تھا یہ پارلیمان نہیں بلکہ گاما پہلوان کا اکھاڑہ ہے۔

یہ کھیل و تماشا پوری دنیا میں براہِ راست نشر ہوا۔ اِدھر تماشا ختم ہی ہوا تھا کہ اسمبلی سے واک آؤٹ کرنے والے اپوزیشن کے اراکین نے اسمبلی کے باہر سارے جھگڑے کا ملبہ حکومتی ارکان پر ڈال دیا، اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ حکومتی ممبران اسمبلی نے اپوزیشن کی خواتین کی جانب نازیبا اشارے کئے۔ یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے میرا سر شرم سے جُھک رہا ہے۔ ایک سنجیدہ سیاست دان کی جانب سے میڈیا کے سامنے ایسا بیان، یعنی ایک مرتبہ پھر عورت کی تذلیل، مجھے بچپن میں اپنے استاد کی جانب سے کہا گیا جملہ یاد آگیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بیٹا! بزدل مرد ہمیشہ عورت کے پلو میں اپنی عافیت تلاش کرتا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان میں قانون سازی اور عوام کی بہتری کے لئے کام کرنے کے بجائے ریسلنگ کے مقابلے منعقد کیوں کئے جارہے ہیں؟ سندھ اسمبلی میں جگت بازیاں اور الفاظ سے گریبان تک کی جنگیں، پنجاب اسمبلی میں بھی ایسی لڑائیوں کی بے تحاشہ مثالیں ماضی میں ملتی ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اسمبلی کی لڑائیاں بھی ضرب المثال بنی ہوئی ہیں۔

اِن ارکان کو ایک لمحے کے لیے سوچنا چاہیے کہ جس عوام کے قیمتی ووٹوں سے آپ منتخب ہوئے ہیں، جن کے لئے آپ کا کردار رول ماڈل ہے، جو آپ کو کاپی کرتے ہیں جو اپنے شام و سحر آپ کے تذکرے کے ساتھ کرتے ہیں اُن کے لئے آپ کیا پیغام دے رہے ہیں؟

اِس لیے اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رول ماڈل تبدیل کرلیں، غیر سنجیدہ، تشدد پسند عناصر کو مسترد کریں۔ سیاست تو صبر کا نام ہے، برداشت کا چلہ ہے۔ چاروں جانب سے چلنے والے تیروں کو سینوں پر سہنے کا پیغام ہے۔ خیر سیاست کے میدان کی بات ایک طرف جگت بازی اور میڈیا کوریج حاصل کرنے والے سیاست دان کو عوام اور پارٹی سربراہ کی جانب سے خصوصی توجہ اور شفقت حاصل رہتی ہے۔

اسٹیج سے سیاسی مخالفین کی کردار کشی جیت کا راستہ ہموار کرتی ہے تو اسمبلی میں پہلوانی کے جوہر دکھانے سے بہتر کمائی والی وزارت ملنے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز عوام کو انصاف فراہم کرنے والے ملک کا معتبر ترین اور تعلیم یافتہ سمجھے جانے والا طبقہ میری مراد وکلاء کا دنگل بھی میڈیا پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج سعد رفیق کی عدالت میں وکلاء نے اپنی ہی عدالت لگالی۔ قتل کے مقدمہ میں پیشی پر آئے وکلاء آپس میں الجھ پڑے۔ دورانِ سماعت فریقین کا آپس میں تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ وکلاء تلخ کلامی کے بعد ایک دوسرے کو گھونسے اور لاتیں مارتے رہے۔ ساتھی وکلاء کی بیچ بچاؤ کی کوششیں ناکام رہیں۔ یہاں بھی جب اُن کے دلائل ہار گئے تو انہوں نے ایک دوسرے پر وار شروع کردئیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر وکلاء کے شرمناک کردار پر سر پیٹنے کو جی کرتا ہے۔

عدالت ثبوت اور دلائل پر فیصلے سناتی ہے جبکہ معزز وکلاء اپنی چودھراہٹ کے ذریعے فیصلے کروانا چاہتے ہیں۔ خیر یہ تو مثال ایک ایسے معاشرے کی ہے جہاں 90 فیصد سے زائد آبادی اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو غصے پر قابو پانے والوں کو پہلوان کہتا ہے، مگر یہاں سب سے زیادہ خونخوار شخص ہی خود کو پہلوان تصور کرتا ہے۔ عدم برداشت قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایک لمحے کو سوچئے کہ اگر کسی موٹر سائیکل سوار یا رکشہ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے آپ زخمی ہوجائیں اور اُسے دس بارہ بڑی بڑی گالیان دینے کے بجائے مسکراتے ہوئے دیکھ لیں گے تو آپ کی شخصیت کے حوالے سے کتنا اچھا پیغام جائے گا، صرف یہی نہیں بلکہ ایسا کرنے کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر وہ اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے اگلی بار ڈرائیونگ میں احتیاط برتے گا۔

اگر آپ باس ہیں اور غلطی کے باوجود اگر اپنے ملازم کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئیں گے تو لازمی طور پر وہ اگلی بار کوئی غلطی شاید غلطی سے بھی نہ کرے، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے گا۔ خندہ پیشانی اور مسکراہٹ بہت سے مسائل کو خود بخود ختم کردیتی ہے۔ قبل اِس کے عدم برداشت ہمارے معاشرے کو تباہ کردے آگے بڑھیں اور مسکراہٹ کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں