دھرنے اورخانہ جنگی کی دھمکیاں
شیخ رشید بیان بازی، بسیارگوئی اور زبان وبیان کے بے قابوگھوڑوں کو سرپٹ دورانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے
شیخ رشید بیان بازی، بسیارگوئی اور زبان وبیان کے بے قابوگھوڑوں کو سرپٹ دورانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ سیاست کے خمیر میں سنسنی خیزی، تحیرآفرینی اور تجسس آمیزی کو شامل کرنا اُنہی کا طرہ امتیاز ہے۔آتش فشانی، شعلہ بیانی اورجوشِ خطابت میں عدم احتیاطی بھی اُن کا کمال اور خاصہ ہے۔ مخالفوں کی تضحیک وتحقیر اور اُنہیں طنزواستہزاء کا نشانہ بنانے میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ علم ِ نجوم سے ناواقفی کے باوجود آنے والے دنوں کی نوید سنانا اور مستقبل قریب کی خبریں دینا اُن کا پرانامشغلہ ہے۔شاید اِسی لیے وہ ہمارے میڈیا ہاؤسزکو بڑے عزیز اور مطلوب ومرغوب ہیں۔گرچہ اُن کی آج تک ایک بھی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی لیکن وہ اپنے اِس مشن میں مشغول ومصروف ہیں۔
پاناما کیس کے حوالے سے وہ روزانہ کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں۔اُنہیں عدلیہ پر بڑا اعتماد ہے اور اپنے دلائل پربھی خوب اعتباراور ناز ہے کہ فیصلہ اُن کے حق میں آئے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اُس سے مایوسی اور نااُمیدی کا بھی اظہارکرتے رہتے ہیں۔اِسی لیے کبھی کبھی اشتعال انگیز رویے اپنانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں ایک خود کش حملہ آور ہوں۔ اپنا کفن ساتھ لیے پھرتا ہوں، اگر انصاف نہیں ملا تو میں خونی دھرنا دوں گا۔کبھی کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ نے درست فیصلہ نہ دیا تو اِس ملک میں خانہ جنگی ہوگی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اُن کے پسِ پردہ مقاصد،عزائم اورارادے کیا ہیں۔ یعنی اگر فیصلہ اُن کے حق میں نہیں آیا توکیا وہ یہاں خون کی ندیاں بہائیں گے؟ جومقاصد پچھلے دھرنے میں حاصل نہ ہوسکے اِس بار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔کیا یہ براہ راست عدلیہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں ہے۔
وہ آخر کیاچاہتے ہیں، نواز شریف دشمنی میں ساری قوم سے بدلہ لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔2002ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا افسوس اپنی جگہ لیکن اپنی قوم اور اِس ملک سے اُس کا انتقام لینا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہمارے یہ رہنما ریشہ دوانیوں اورسازشوں کومزید مہمیزکرنے کی خواہش لیے ہر روز بنی گالاکا چکر لگاکر خان صاحب کو خون خرابے کے لیے اُکساتے دکھائی دیتے ہیں۔ خود توکچھ کرنہیں سکتے دوسروں کے کاندھوں پر انتقام کی آگ کو ٹھنڈاکرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ وہ صرف معاندانہ اور منتقمانہ کارروائی کی ذریعے نواز شریف سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اپنی اِسی آرزوئے تشنہ کی تکمیل کے لیے وہ مضطرب ومشتعل دکھائی دیتے ہیں۔
2014ء کے متوفی لانگ مارچ کے دوران بھی وہ اپنے عزائم کا بے دریغ اظہارکیاکرتے تھے۔ مارو، مرجاؤاورجلادو جیسے اشتعال انگیز جذباتی نعرے لگاکر وہ قوم کو تباہی و بربادی کے جانب ڈھکیلنا چاہتے تھے۔
نامرادیوں اور ناکامیوں کے بھنور میں پھنسے ہمارے یہ کوتاہ اندیش سیاست داں اب پاناما کیس کو اپنی حسرتوں اور اُمیدوں کا محور بنائے ہوئے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے قطع نظر2018ء سے پہلے پہلے وہ مزاحمت اورانارکی کے ذریعے اِس ملک میں فساد اورافراتفری مچادینا چاہتے ہیں۔ اِسی مقصد سے اب اُنہوں نے خونی دھرنا دینے کا عندیہ بھی دے ڈالا ہے۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاناما کا فیصلہ مفروضوں کی بنیاد پر ہونا نا ممکن ہے ۔اِس کے لیے ٹھوس ثبوت اورشواہد ضروری ہیں۔اِس فیصلے سے پاکستان کی تاریخ رقم ہونی ہے۔اتنا بڑا فیصلہ صرف پٹیشنریامخالف فریق کی خواہشوں پر نہیںدیا جاسکتاہے۔ جب تک ٹھوس اور مستند ثبوت فراہم نہیں کیے جاتے کسی فریق کو مجرم قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اِسی ڈر اورخوف سے شیخ رشید آج کل انتہائی مضطرب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔اپنی اِسی بے چین طبیعت اوردل گرفتگی کوچھپانے کے لیے وہ خونریزی اور خانہ جنگی کی باتیں کرنے لگے ہیں، لیکن اُنہیں شاید معلوم نہیں کہ یہ قوم اب کسی کی خواہش یا شہ پر انارکی اورتباہی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اُسے معلوم ہے کہ کون اِس ملک کا خیرخواہ ہے۔کون اُن کی ترقی وخوشحالی کا ضامن ہے اورکون تباہی وبربادی کا متمنی اور داعی ہے۔کون اِس ملک کو آگے لے جا رہا ہے اورکون اپنے تباہ کن رویوں سے ملک وقوم کو اندھیروں کی جانب دھکیل رہا ہے۔
انتہائی نامناسب اورمشکل حالات کی باوجود حالات اِس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین برس میں ملک پیچھے نہیں آگے کی طرف ہی بڑھا ہے۔ دہشت گردی کا عفریت اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اورآئے دن کے پر تشدد احتجاج سے شہریوں کو نجات ملی ہے۔ ملک میں سڑکوں اورموٹر ویزکا جال بچھایا جا رہا ہے۔ ہر بڑے شہر میں میٹرو بس سروس لائی جارہی ہے جن سے اس ملک کے غریب لوگ ہی استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ قوم کا پیسہ قوم پر خرچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے یہی پیسہ کہاں غائب ہوجاتا تھا کسی کو معلوم نہیں۔ ہیلتھ انشورنس اسکیمیں متعارف ہو رہی ہیں۔اسپتال اور یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ انرجی سیکٹر میں قابل ِقدر پیش رفت ہورہی ہے۔ اسٹاک ایکس چینج ریکارڈ قائم کررہا ہے۔بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ ذکراضافہ ہورہا ہے۔
سی پیک پر کا م تیزی سے جارہی ہے۔پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے ذریعے سارے ملک میں خوشحالی کی اُمید ہوچلی ہے۔بلوچستان میں امن وامان قائم کرکے وہاں کے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جارہا ہے۔ بلوچ قوم کے استحصال کا خاتمہ کرکے وہاں احساسِ محرومی ختم کوکیاجا رہا ہے ۔یہ سب کامیابیاں ہمارے حکمرانوں کی صرف تین سالوں کی محنت اورکاوشوں کا نتیجہ ہیں۔2013ء سے پہلے کا دور اندھیروں ، ناکامیوں اور نااُمیدیوں کا دور تھا۔ ملک دہشت گردوں کے رحم وکرم پر تھا۔ہرروز بم دھماکے اور خود کش حملے ہواکرتے تھے۔کراچی بے قابواور بے لگام انارکی کا شکار تھا۔پندرہ بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔مستقبل تاریک دکھائی دیتا تھا۔دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست کے نام سے پہچان رہی تھی ،مگر اب خدا کے فضل وکرم سے صورتحال بدل چکی ہے۔ ہماری معیشت ایک ابھرتی ہوئی معیشت بن چکی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے برملا اعتراف کررہے ہیں۔ دنیا کے کئی ملک سی پیک میں شامل ہونے کی استدعا کررہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ ڈیووس میں ہونے والی عالمی اقتصادی فورم کے47ویں اجلاس میںتمام ملکوں کے سربراہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اُنہوں نے اِس سلسلے میں پاکستا ن کے وزیرِاعظم کی کوششوں کو سراہا اوربیرونی سرمایہ کاری کے لیے اُسے ایک مثبت اور پرکشش معیشت قراردیا۔اِن تمام کامیابیوں کے باوجود ہمارے یہاں کچھ لوگوں کو ملک کی ترقی ہضم نہیں ہورہی۔وہ آئے دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کردینے کی موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔
2014ء میں وہ یہ کوشش کرکے ناکام ہو چکے ہیں، مگر اب بھی وہ چین سے نہیں بیٹھ رہے۔اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کسی طرح اِس حکومت کوگرا دیں۔سابق آرمی چیف کے باعزت رخصت ہوجانے کے بعد وہ انتہائی مایوسی کے عالم میںاب خونی دھرنے اورخانہ جنگی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ عدلیہ سے اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں وہ ایک بارپھر انتشاراور فساد کی سیاست دہرانا چاہتے ہیں۔لیکن انشاء اللہ اُن کا یہ خواب بھی اُن کے سابقہ خوابوں کی طرح کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ وہ ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہی ٹہرائے جائیں گے۔