واپس بلیک بورڈ پر

شاید امریکا کے ہاتھ اتنے جلے ہوئے نہیں جتنے جرمنی کے تھے


جاوید قاضی February 01, 2017
[email protected]

KARACHI: شاید امریکا کے ہاتھ اتنے جلے ہوئے نہیں جتنے جرمنی کے تھے۔ جمہوریت نے اپنی کوکھ سے ہٹلرکو جنم دیا تھا اور ہٹلر نے اْسی جمہوریت کی پیٹھ میں خنجرگھونپا تھا۔ جب ریشٹاگ (پارلیمنٹ) نے آئین میں ترمیم لا کر ہٹلرکو تاحیات جرمنی کا چانسلر بنا دیا تو یہی ہٹلر اور اِس کی نازی پارٹی تھی جس نے ریشٹاگ کو آگ لگا دی اور پھر یوںآہستہ آہستہ جرمنی اپنے اندر سے جلتا رہا اور پھر جرمنی کی جلتی ہوئی آگ نے بالآخر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کیا امریکا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے؟ ٹرمپ حکم پرحکم صادرکرتا جائے۔

مسلمانوں کو امریکا بدر کرتا جائے۔جب وہاں کی کانگریس اور سینیٹ کے تو جیسے لب سِل گئے ہوں۔ وہاں عدالتیں اپنے آئین کی محافظ بن کر ٹرمپ کے فرمان کو عبوری حکم سے روک بیٹھیں۔ مورخ کہتا ہے جرمنی جب اندر سے جل رہا تھا تو دنیا کوکچھ بھی خبر نہ تھی ۔نہ کوئی فکر تھی۔دنیا اپنی ذات میں رہنے والی دنیا تھی۔ وہ زمانے تھے کہ میرے سندھ سے بھی چھوٹے برطانیہ کے امپائرکا سورج ڈھلتا نہیں تھا۔امریکا نے تو اْن زمانوں میں غلاموں کو درآمد کیا۔ فرانس و برطانیہ وغیرہ نے تو غلامی کے طوق برآمدکیے اور قوموں کو غلام بنایا۔صدیاں بیت گئیں۔

اْن غلامیوں میں اْن غلام قوموں کی ایسی نفسیات بنائی کہ جب سامراج (برطانیہ،فرانس وغیرہ)کمزور بھی ہوا، جب اِن غلام قوموں کو آزادی نصیب ہوئی، تو انھیں کچھ بھی خبر نہ تھی۔انگریز جیسا بھی تھا اِس کا قانون بہت اعلیٰ تھا۔اس کی جمہوری اقدار، سائنس، ریاضیات و معاشی فکر میں جدت تھی۔اِن غلام قوموں کو بالآخراپنے اندر سے آگ لگی اور آمریتیں اْبل پڑیں۔برطانیہ کمزور ہوا تو امریکا طاقتور، یوں کہیے کہ سامراج کہیں نہیں گیا اور غلامی نیم غلامی میں تبدیل ہوئی۔

دوسری طرف اشتراکیت کی فکر بہت اعلیٰ تھی۔ پیغام موثر تھا، اْس کی معاشیات میں پڑے بنیادی اصول بہت اعلیٰ تھے، مگر اْسے بھی اندر سے آگ لگی۔مصطفیٰ زیدی کے بقول

آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا

شعلہ جس نے مجھے پھونکا مرے اندر سے اٹھا

آمریتوں نے اْس کے اندر بھی ڈیرے جما دیے۔اْن کے پاس آئین تو تھا مگر آئین کے محافظ نہ تھے یعنی عدالتیں نہ تھیں۔بس صرف ایک کمیونسٹ پارٹی تھی بس صرف ایک عدالت بھی تھی تو کمیونسٹ پارٹی تھی تو انصاف بھی وہی یعنی مدعی بھی وہی تو منصف بھی وہی۔آج ٹرمپ نے فیضؔ کی اِن سطروں کی طرح واپس بلیک بورڈ پر مْجھے جانے کے لیے مجبورکیا۔بس صرف ان کے اس شعر میں''بہار''کو میری مودبانہ گزارش ہے کہ''خزاں''سمجھیے گا۔

''بہارآئی تو لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے

تیرے ہمارے سوال سارے،جواب سارے

اْبل پڑے ہیں عذاب سارے''

ٹرمپ اچانک تو ایک رات میں ظہور پذیر نہیں ہوا! یہ سلگتی ہوئی چنگاری امریکا کے اندر بھڑک رہی تھی جو بلآخر ٹرمپ کی شکل میںظہور پائی۔مگر یہ چنگاری اتنی شدید اتنی گہری ہے جو بلاشبہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے؟ تو جواب یہ ہے کہ نہ دنیا نہ امریکا نہ امریکا کی عدالتیں اْس نیند میں غلطاں ہے جس نے دوسری جنگ ِعظیم کو جنم دیا تھا۔امریکا کی جمہوریت قانون کی حکمرانیت کے تابع ہے یعنی''روسو'' کے سوشل کنٹریکٹ کے خیال سے نکلا ہوا آئین بہ مقابلہ ٹرمپ۔جان لاک کے ریاست کا تصور بہ مقابلہ ٹرمپ۔امریکا میں سْلگتی ہوئی چنگاری بہ مقابلہ انسانی حقوق۔

'' دنیا بڑی باں وری پتھر پْوجنے جائے

گھرکی چکی کوئی نہ پْوجے جس کا پیسا کھائے''

دنیا کے کونے کونے کے مہاجروں کی کوکھ سے بنا امریکا، لبرٹی کے نام پر بنا امریکا، لبرل اقدار کا امین امریکا، ہر ایک کو آزادی دینے والا امریکا۔ تین سوسال پرانی جمہوری اقدارکا امریکا،اپنے اندر سرمایہ۔ اپنا لالچ اپنا سامراج،اْس کی سامراجی کیفیت،جب ٹوٹ پھوٹ رہی ہے اور دنیا ایک ہو رہی ہے تو وہ فکر، وہ سوچ کہ امریکا دنیا کی اب سْپرطاقت نہیں رہے گا،یہ اْس کی شکل ہے جو ٹرمپ کی صورت میں بنی ہے۔

دیکھیے تو صحیح ہرگلی کوچہ و بازار جاگ اْٹھا ہے اپنے تاریخی کردارکو ادا کرنے کے لیے۔جب کرسچن اپنے آپ کو اندراج کرائیں گے،جب ہر مذہب کے رہنے والے امریکا کے اندراپنا اندراج کروائیں گے کہ''میں مسلمان ہوں ''! وہ اس لیے نہیں کے وہ مسلمان ہیں فقط یکجہتی کے نام پر، تاکہ امریکا کی اعلیٰ اقدار جوکہ اْس کے آئین میں ضم ہیںاْن کا بھر م رہ جائے۔اس طرح تو امریکا کبھی اپنے سیاہ فام شہریوں کے لیے بھی نہیں کھڑا ہوا تھا۔ مگر اْس تضاد کے ردِعمل میں جو 1868ء میں چودھویں ترمیم(جس کا پہلے بھی میں کہیں ذکرکرچکا ہوں)امریکا کے آئین میں آئی تھی ۔

اْسی سیاہ فام تاریخ میں پڑے ظلم وجبرکے خلاف،انقلاب کی صورت میں منور ہوئی تھی جس نے دنیا کے مہذب آئینوں میں اپنی جگہ بنائی۔سوال یہ ہے کہ کیا اب اتنا بڑا امریکا، اتنے بڑے امریکا کی اقدار، یورپین یونین وغیرہ ، وغیرہ تو ہم جیسی نیم مہذب دنیا کی سول سوسائٹیز ٹرمپ Syndrome کو روک سکیں گی؟ ابھی ٹرمپ دو چار سال چلے گا ۔اْس کو پوتن اور ایسے کئی دنیا کے اندر سربراہان جنہوں نے جمہوریت کے نام پر لوگوں سے پاپولر، نعروں ونفرتوں کے نام پر ووٹ لیا۔خود اْسی جمہوریت کے لیے خطرہ بنے،اْن کا ساتھ تو رہے گا، کیونکہ دنیا اچھی خاصی بدل گئی ہے۔

یہ وہ زماں ومکاں نہیں ہے جو دوسری جنگِ عظیم سے پہلے تھا اِسی لیے یہ چِنگاری شعلہ تو بن جائے گی ، کہیں کہیں آگ کی طرح نظر بھی آئے گی،مگر جھلسا دینے والی ، خاک بسر کرنے والی آگ کی طرح پھیلے گی نہیں۔ سرد جنگ کے زمانوں میں ہم جیسے جدید نو آبادی ملکوں میں، آمروں کا جنم ہوا ، کچھ آمر جمال ناصر ، ٹیٹو، سوئیکارنو وغیرہ جیسے تھے اور بہت سے آمر ضیاء الحق، پِنوشے، پھولپاٹ وغیرہ جیسے بھی تھے مگر بنیادی طور پر آمریت بْری تھی وہ سرد جنگ کا عکس تھی۔

اب جب سرد جنگ کے بعد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ٹرمپ کی شکل میں آن پڑا ہے، جب کہہم جیسے نیم مہذب ممالک ،جہاں جمہوریتیںوعدالتیں آئینی اقدار اتنی مضبوط نہیں ہیں، وہاں آمریتیوں کے آنے کے خطرات اور بڑھ گئے۔ٹرمپ یعنی وائٹ ہاؤس اور اس کے سامنے تین بڑے ادارے یعنی کانگریس، سینیٹ اور سپریم کورٹ ہیں مزید براں امریکا کے دو اور بھی سْتون ہیں امریکا کی صحافت و امریکا کی متحرک و فعال سِول سوسائٹی۔ کانگریس و سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت ہے جوکہ ٹرمپ کی پارٹی ہے لیکن ریپبلکن پارٹی اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہاں پر پیپلزپارٹی و میاںصاحب کی پارٹی کہ جو صاحب کہے وہ صحیح ہے۔ عین ممکن ہے کہ امریکا کے اندر یہ ٹکراؤآگے جا کر ٹرمپ کو، مدت پوری ہونے سے پہلے وہائٹ ہاؤس سے مواخذے کے ذریعے فارغ کروا دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں