وہ آگے دیکھنے سے قاصر تھے
انسان مطمئن ہو تو ذہن، جسم اور روح اکائی بن جاتے ہیں
KARACHI:
انسان مطمئن ہو تو ذہن، جسم اور روح اکائی بن جاتے ہیں۔ وجودکی وحدت، روشنی کا نہ ختم ہونے والا سفرہے۔ ذہن روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ یہ روشنی بانٹنے سے کہیں کم نہیں ہوتی، لیکن اگر سوچ مطمئن نہ ہو تو ذہن، جسم اور روح کا تکون منتشر ہوجاتا ہے اورجارحیت جنم لیتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جارحیت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔اسمبلی میں رہبر ایک دوسرے کے ساتھ لڑپڑتے ہیں۔ خوب ہاتھا پائی کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو برے الفاظ سنائے جاتے ہیں۔کوئی کسی کی بات سمجھنا نہیں چاہتا۔ ہرکوئی اپنی بات کہنا چاہتا ہے کہ وہ مد مقابل سے برتر ہے اور تکراری مکالمے جنم لیتے ہیں، یہ رہنما، رہبر اور چارا گر ہیں، یہ قابل مثال اور قابل تقلید ہیں۔ لہذا معاشرہ بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑتا ہے ۔
چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز ہے، لہذا عوام لہٰذا عوام کے دکھ لا دوا ہیں۔ ان کے زخم کبھی بھر ہی نہیں سکتے، لیکن عوام بھی کچھ کم نہیں۔المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنے ذہن سے نہیں سوچتے۔ اپنے کانوں سے نہیں سنتے۔ حتیٰ کہ ان کی زبان بھی اپنی نہیں ہے۔ یہ غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ یہ گدھے، کتے اورگائے کے گوشت میں فرق نہیں محسوس کرسکتے۔ زہرکو پانی کہہ کے پلایا جائے تو پی لیتے ہیں۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لیتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ لہٰذا ان کی قسمت کا سورج جلدی غروب ہوجاتا ہے۔
پھر منظر بدل جاتا ہے۔ تکریم کا کالا کوٹ پہنے لوگوں کے حقوق کے محافظ، ایک دوسرے کو دھکے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ عجیب چیخ وپکار مچی ہوئی ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کوکرسیاں اٹھا کے مار رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھے لکھے سندیافتہ لوگ ہیں۔ یہ قانون ترتیب دیتے ہیں۔ ہر بات میں قانون کا حوالہ دیتے ہیں، مگر خود قوانین کے دائرے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ جارحیت قومی مزاج بن چکی ہے۔ سماجی نفسیات غلط رخ پر سفرکر رہی ہے۔ لنڈزلے کے مطابق ''انسان کے سوچنے، ادراک کرنے، دوسرے افرادکی حقیقی یا تصوراتی موجودگی کو محسوس کرنے کے انداز کا سماجی مطالعہ سماجی نفسیات کہلاتا ہے۔'' یہ سماجی نفسیات انفرادی رویوں سے تشکیل پاتی ہے اور رویہ ذہنی کیفیت کا نام ہے۔
یہ رویے خیالات، تصورات، احساسات، پسند یا ناپسند کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ہر رویے میں کہیں نہ کہیں شدت پائی جاتی ہے۔ رویوں پر، والدین کے علاوہ بہت سی چیزیں اثرانداز ہوتی ہیں۔ جیسے ہم جولی، مذہب، تعلیمی ادارے اور ابلاغ عامہ وغیرہ۔پرنٹ، الیکٹرانک وسوشل میڈیا کے اثرات بہت گہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ماس میڈیا و دیگر ذرایع نے بناوٹی اورکھوکھلے رویوں کی تشہیرکی ہے۔ یہ رویے الیوژن واہمے پر منحصر ہیں۔ اشتہاری رویے تصویر کا ایسا رخ دکھاتے ہیں جو حقیقت سے دور ہوتا ہے۔ جس ٹی وائٹنر سے بنی چائے آپ پی رہے ہیں۔ اس میں ایسے کیمیکل کا زہر ملا ہے، جو سلو پوائزن کا کام دکھا رہا ہے۔ کیمیکلز کا سیلاب ہے ہر طرف۔ ایسے کیمیکلز جن سے بنی اشیا جلدی نتیجہ دکھاتی ہیں، مگر شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ جدید دنیا سہولت کے نام پر عذاب بانٹ رہی ہے۔
غذا کے نام پر اپنے اندر ہم غصہ، جارحیت اور بے اطمینانی جمع کررہے ہیں۔ ہم پرکھ کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اپنی غفلت کا بوجھ دوسرے کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔جارحیت کے ساتھ غفلت بھی سماجی رویوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ تمام المیے غفلت سے جنم لیتے ہیں۔ یہ نفع بخش کاروبار ہے۔ غفلت کیش کرائی جاتی ہے۔ فرینچ مضمون نگار مانٹین نے کیا خوب کہا ہے ''ایک کا نقصان، دوسرے کا فائدہ ہے۔'' کیونکہ منافقت کے بیج سے خوشحالی کی فصل خوب پھلتی و پھولتی ہے۔ یہ بھی غفلت کی ایک قسم ہے کہ جو جس کا کام ہے، وہ اسے کرنے سے کتراتا ہے۔ جیسے میونسپل کارپوریشنز کا کام شہروں میں صفائی و ستھرائی قائم رکھنا۔ مگر تاحد نظر کچرے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ باہر تو ٹریش کمپنیز ہیں۔ آپ فون کریں تو دروازے سے تمام تر آلودگی اٹھا کر مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا دیں گے۔ کوئی دریا یا سمندر آلودہ نہیں ہوگا۔
ایک طرف کھانے پینے کی اشیا کے ٹھیلے ہیں تو ساتھ ہی اوپن باتھ رومز۔ سیاسی شوروغل میں اگر عوام کی آواز سنائی دیتی تو آج پبلک باتھ رومز اور زیبرا کراسنگ ضرور بنادیے جاتے۔ ذہنی آلودگی کا تو جواب نہیں، جس کا بڑا مرکز فیس بک ہے۔ سوچوں کے تعفن میں سانسوں کی بے کلی بڑھ جاتی ہے۔ نازیبا گفتگو کا محور، چہروں کی یہ کتاب ذہنی انتشاروجارحیت کو پروان چڑھا رہی ہے۔ جس میں جھوٹ، واہمے، منافقت و خوشامد کی خوب پذیرائی کی جا رہی ہے۔ ڈپریشن اور نرگسیت کے مارے ہوئے لوگوں کی پناہ گاہ ہے یہ فیس بک۔ ہم تنہا نہیں بیٹھ سکتے۔ تنہائی کے تعمیری اثر سے بے بہرہ ہیں آج تک۔ ترقی یافتہ معاشرے تنہائی کے لمحوں کو ترستے ہیں۔ تنہائی کے احساس سے ذہنی تقویت حاصل کرتے ہیں اور ہم شور میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
بازاروں ومالز کے خبط میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا ہر طرف ہجوم بے کراں دکھائی دیتا ہے۔جس کی وجہ جارحیت پسندی بڑھی ہے۔ یہ احساس محرومی سے رابطے میں رہتی ہے۔ ناکامیوں کے زہر میں سانس لیتی ہے۔ ادھوری خواہشوں میں پنپتی ہے۔ خودپسندی کا آئینہ ہے۔ ہم اندرکے مکالمے کو سننا نہیں چاہتے۔ اندر کی آواز کو سلا دیتے ہیں۔ ذات کے مقابل کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ذہن سے روح ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر کھڑی ہے۔
ہم بدل گئے ہیں جدت کا لبادہ اوڑھ کر، مگر ہمارے ذہن تاریک دور سے جڑے ہیں۔ ذہن کا انتشار، جسم کی ناآسودگی اور ادھوری خواہشیں اذیت پسند رویوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہ جدت، شک کو ہوا دیتی ہے۔ شک ہر فساد کی جڑ ہے۔ یہ بے یقینی پیشہ ورانہ رویوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے مثبت گفتگوکے ہنر سے فروغ پا رہے ہیں۔ گفتگو، بہتر معیار زندگی کا تعین کرتی ہے اور تعمیری مکالمے بہترین سماجی نفسیات کو ترتیب دیتے ہیں، مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عہدہ نفیس ذہن کی ترجمانی نہیں کرتا اور مرتبہ عقل کا نعم البدل نہیں ہے، مگر پیسہ ہر خامی چھپا دیتا ہے۔
ان کی گردنیں پیچھے کی طرف مڑی تھیں
وہ آگے کے بجائے پیچھے پیچھے چل رہے تھے
کیونکہ وہ آگے دیکھنے سے قاصر تھے
(دانتے)