یومِ یکجہتی کشمیراور حافظ صاحب کی نظر بندی
پانچ فروری کو ملک بھر میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کا ہر فرد، بِلا امتیاز، باہر نکلتا ہے
26سال قبل جب جماعتِ اسلامی نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں و کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کے حق میں اور وادی پر مسلسل بھارتی استبداد کے خلاف پاکستان بھر میں5 فروری کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' منانے کا باقاعدہ اعلان کیا تو کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ اقدام رفتہ رفتہ ایک تحریک بن جائے گا۔ یہ سب اس لیے ہُوا کہ ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کی بنیاد رکھنے والوں کی نیت میں اخلاص تھا۔
ہر سال اب پانچ فروری کو ملک بھر میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کا ہر فرد، بِلا امتیاز، باہر نکلتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یکمشت اور یکجہت ہو کر اقوامِ عالم کو بتایا جائے کہ دنیا کا کوئی ملک مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دے، نہ دے مگر پاکستان اور پاکستانی کشمیریوں کے ساتھ تھے، ہیں اور تب تک رہیں گے جب تک مسئلہ کشمیر اہلِ کشمیر کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی متفقہ قرار دادوں کی روشنی میں حل نہیں ہو جاتا۔
اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو کشمیری بھائیوں کے ساتھ اس اظہارِ محبت و اخوت میں پاکستان کا بڑا نقصان ہُوا ہے۔ معاشی بھی اور جغرافیائی بھی لیکن پاکستان نے اس کے باوصف اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ قومی سطح پر ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کا منایا جانا اب اسقدر مقبول اور مروّج ہو چکا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اس میں اپنا حصہ ڈالنے سے انکار نہیں کر سکتی؛چنانچہ اِس بار بھی ہماری جمہوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ دن سرکاری سر پرستی میں پورے ملک میں پورے جذبوں کا ساتھ منایاجائے گا۔
''یومِ یکجہتی کشمیر'' سے عین پانچ روز قبل پاکستان میں کشمیریوں کے عظیم دوست اور مسئلہ کشمیر کوحل کرنے میں اپنی عملی خدمات پیش کرنے والوں کے ''سالارِ اعلیٰ'' پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کو نظر بند کردیا گیا ہے۔ ساتھ اُن کے چار قریبی ساتھی بھی اس اقدام کی زد میں آئے ہیں۔ حافظ صاحب کی جماعت اور اُن کی سرپرستی میں بروئے کار ایک این جی او بھی نئی پابندیوں کے حصار میں آ چکی ہیں۔ اعلان کے مطابق حافظ صاحب اور اُن کے ساتھی چھ ماہ نظر بند رہیں گے۔ ''جماعت الدعوہ'' کے کارکنوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے قائدین کی رہائی کے لیے 5فروری2017ء کو زبردست احتجاج بھی کریں گے اور ساتھ ہی ''یومِ یکجہتی کشمیر'' بھی پوری طاقت اور توانائی کا ساتھ منعقد کریں گے۔
اِس دن سے مگر صرف پانچ دن قبل حافظ صاحب کو اپنے گھر میں نظر بند کرنے کا فیصلہ مناسب اور مستحسن نہیں گردانا گیا۔ابھی تو حافظ صاحب کو یہ اعلان کیے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ''جماعت الدعوہ'' کے زیرِ اہتمام ، 26 جنوری تا 5فروری ، مسلسل ''عشرہ کشمیر'' منایا جائے گا کہ اچانک اب یہ افتاد پڑ گئی ہے۔ کیا دباؤ اتنا شدید تھا کہ ہمارے حکمرانوں کو فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑگیا ؟ یا واشنگٹن میں سریر آرائے سلطنت ہونے والے نئے حکمران ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے بعض فیصلے ہی اتنے سخت آ ئے ہیں ( مثلاً سات اسلامی ممالک کے عوام پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی) کہ حفظِ ماتقدم کے طور پر پاکستان کو حافظ صاحب کے بارے میں یہ اقدام کرنا پڑگیا؟کیا یہ پاکستان کے خلاف بھارت کے آٹھ سالہ مسلسل پروپیگنڈوں کا نتیجہ ہے ؟جتنے منہ اُتنی باتیں۔ امریکا کے ممتاز تھنک ٹینک، وُڈ رُو وِلسن انٹرنیشنل، میں بیٹھے ''ماہر'' مائیکل کو گلمین نے کہا ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی کے عقب میں امریکی دباؤ نہیں بلکہ چین کا مشورہ کار فرما ہے۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے موقع پر حافظ صاحب اور اُن کے چار معتمد ساتھیوں کی نظر بندی پاکستان اور ہمارے حکام کا اپنا فیصلہ ہے۔ اس سلسلے میں حافظ صاحب کی نظر بندی والے دن وزیر داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس دیکھ لیجئے یا یکم فروری 2017 ء کو آئی ایس پی آر کے سربراہ ، میجر جنرل آصف غفور، کی اخبار نویسوں کو دی گئی مفصل پریس بریفنگ کا احوال پڑھ لیا جائے۔
دونوں اہم اور متعلقہ افراد کے دیے گئے بیانات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اِن حساس ایام میں حافظ صاحب ، اُن کے چار ساتھیوں اور جماعت الدعوہ کو ''محدود'' کرنے کا فیصلہ سیاسی اور عسکری قیادت کا متفقہ اقدام تھا؛چنانچہ آئی ایس پی آر کے سربراہ اپنی پریس بریفنگ میں حافظ صاحب کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہتے ہُوئے مختصر طور پر سنائی دیتے ہیں:'' حافظ سعید کی نظر بندی کا فیصلہ تمام ریاستی اداروں نے مل کر کیاہے۔قومی مفاد مقدم ہے'' اور یہ کہ'' ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے۔جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہم(بھارت سے) تمام تصفیہ طلب امور ،بشمول مسئلہ کشمیر ، کا حل بات چیت اور امن کے ساتھ چاہتے ہیں۔مگر امن کی اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔'' ڈی جی آئی ایس پی آر کی باقی باتیں تو پس منظر میں چلی گئیں لیکن حافظ صاحب کی نظر بندی کے بارے میں اُن کے ادا کیے گئے چند جملے قومی اور عالمی میڈیا کی ہیڈ لائن بن گئے۔
پاکستان نے (بظاہر) امریکا اور بھارت کا منہ بند کرنے کے لیے ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے عین موقع پر یہ قدم تو اٹھا لیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بھارت بھی پاکستان کے اس تازہ اقدام سے مطمئن اور خوش ہے کہ نہیں؟ بھارتی میڈیا کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بھارت حافظ صاحب کو نظر بند کیے جانے پر خوش تو ہے لیکن وہ ابھی ( امریکی نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے) پاکستان سے ''ڈُو مور'' کی توقعات بھی کر رہا ہے۔
مثلاً یکم فروری 2017ء کو بھارت کے نئے پارلیمانی سال کے موقع پر بھارت کے دونوں ایوانوں سے بھارتی صدر، پرنب مکھر جی، نے جو خطاب کیا ہے، اس میں پاکستان کے اس تازہ اقدام کے بارے میں اپنی بالا دستی کا اظہار تو ملتا ہے لیکن پاکستان کے بارے میں نہ دل صاف کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کو ''کلین چِٹ'' دینے پر تیار نظر آئے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہُوا ہے کہ بھارتی میڈیا نے ہمارے آئی ایس پی آر کے سربراہ کے مذکورہ دونوں بیانات کو خاصا نمایاں کرکے شایع اور نشر کیا لیکن تبصروں اور تجزیوں میں ڈنڈی مارتے ہُوئے پاکستان کے خلاف طنز کرنے سے بھی ساتھ ہی باز نہیں آئے۔پاکستان تو امنِ عالم اور جنوبی ایشیا کو پُرامن اور پُرسکون رکھنے کی خاطر پہلے بھی اقدام کرتا رہا ہے، اب پھر اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ آیا بھارت بھی پاکستان کے حق میں کوئی نرم گوشہ رکھنے کے لیے تیار ہے کہ نہیں؟ جواب اس کا نفی میں ہے۔
اس حوالے سے تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ 2فروری2017ء کو پاکستان نے ''سارک'' کے سیکریٹری جنرل (ارجن بہادر ٹھاپہ) کی رخصتی پر اپنے ایک انتہائی تجربہ کار سفارتکار(امجد حسین سیال)کونامزد کیا ہے ۔ اصول کے مطابق اس عہدے کے لیے اب پاکستان کی باری ہے لیکن بھارت نے سخت مخالفت کرتے ہُوئے امجد حسین سیال کا نام ، بغیر کسی وجہ کے، مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کو ''سارک'' کا یہ قابلِ احترام عہدہ یکم مارچ 2017ء کو سنبھالنا تھا مگر بھارت نے مخالفت کرکے پاکستان کا راستہ (فی الحال) مسدود کر دیا ہے۔ بُغض رکھنے والے ایسے ہمسائے سے ہم مزید کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں!