مہ ناز سُروں کی شہزادی تھی حصہ دوم

اور بھی کئی فلموں میں مہ ناز نے میرے لکھے ہوئے خوبصورت گیت گائے۔


یونس ہمدم February 04, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: اس ریکارڈ پر مہ ناز، ناہید اختر کے ساتھ یونس ہمدم بھی لکھا ہوا تھا،اب مہ ناز فلم انڈسٹری کی ہاٹ کیک گلوکارہ ہوچکی تھی۔لاہورکے تمام نامور موسیقار جن میں اے حمید کے بعد ایم۔اشرف، نذیر علی،کمال احمد،کریم شہاب الدین، امجد بوبی، روبن گھوش اورموسیقار ناشاد مہ ناز کی آوازکو اپنے گیتوں کے لیے ترجیح دے رہے تھے۔ اسی دوران موسیقارکمال احمد سنگیتا پروڈکشن کی تین فلموں میں موسیقی دے رہے تھے۔اور ان تینوں فلموں میں میرے لکھے ہوئے گیت ریکارڈ ہوئے تھے۔ یہ فلمیں 'عشق عشق، محبت اور مہنگائی' اور 'مہندی لگی میرے ہاتھ' تھیں۔ ہر فلم میں کچھ گیت تسلیم فاضلی کے تھے اورکچھ گیت میرے لکھے ہوئے تھے۔ مہ ناز کا ''مہندی لگی میرے ہاتھ'' کے لیے گایا ہوا ایک گیت جس کے بول تھے:

سنگ سنگ جینا ہے سنگ سنگ مرنا ہے
جب تک یہ جیون ہے جب تک یہ دنیا ہے

یہ بڑا ہٹ ہوا تھا جو فلم میں ندیم اور سنگیتا پر عکس بندکیا گیا تھا۔ اب میں مہ ناز کے ایک ایسے گیت کی طرف آتا ہوں جو پاکستان میں راجستھانی پس منظر میں بنائی گئی۔ فلمساز سرور سکھیرا کی فلم ''لال آندھی'' تھی۔ جس کے موسیقار بھی کمال احمد تھے یہ منفرد لہجے کا ایک گیت تھا جس کے بول بھی میرے لکھے ہوئے تھے اور فلم کے مکالمے بھی گیت کے بول تھے۔

تنے کجریو بنا کے اپنے نیناں میں بند کرلیوں
پھرکہیں جانے نہ دیوں

تنے ٹیکو بناکے اپنے ماتھے کے بیچ دھرلیوں
پھر کہیں جانے نہ دیوں

اس گیت کو راجستھانی زبان ہونے کی وجہ سے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور ان دنوں پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار نشرکیا جاتا تھا۔ یہ گیت فلم میں اداکارہ کویتا اور راحت کاظمی پر فلمایا گیا تھا۔

اور بھی کئی فلموں میں مہ ناز نے میرے لکھے ہوئے خوبصورت گیت گائے۔ میری آخری ملاقات ایک فلم ہی کی ریکارڈ کے سلسلے میں کراچی میں ہوئی تھی۔ وہ فلم ''طلسمی جزیرہ'' تھی جس کے فلمسازوہدایت کار سعید رضوی تھے۔ سعید رضوی میری کراچی کی پہلی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کا کیمرہ مین اور میرا دیرینہ دوست بھی تھا۔ اس نے اپنی فلم کے لیے لاہور سے موسیقارکمال احمد کوکراچی بلوایا۔ اس فلم کا پہلا گیت میرا لکھا ہوا تھا، جسے مہ ناز نے گایا تھا۔گیت کے بول تھے:

پھولوں کا خوشبو سے صحرا کا جگنو سے
رشتہ ہو جیسے
تیرا میرا بھی رشتہ ایسے

مذکورہ فلم میں یہ گیت فلم کے لیے ایک رشین اداکارہ پر فلمایا گیا تھا جو فلم کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کے دوران سعید رضوی کے اسٹوڈیو میں مہ ناز سے میری ایک طویل ملاقات رہی تھی۔ میں نے دوستانہ انداز میں مہ ناز سے پوچھا تھا۔ مہ ناز اگر برا نہ مانو ایک بات کا جواب دوگی کہ تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔ وہ بولی یہ ایک ذاتی سوال ہے میں نے کہا فنکار جب شہرت پالیتا ہے تو وہ اپنے سے زیادہ اپنے پرستاروں کا ہوتا ہے۔

ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہر پوچھنے والے صحافی سے کہا تھا کہ بھئی! ہم تو موسیقی کی دنیا میں آکر ایسے مگن ہوئے کہ ہمیں شادی کے بارے میں کبھی سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے موسیقی ہی سے شادی کرلی ہے۔ یہ بات سن کر مہ ناز نے مسکراتے ہوئے کہا۔ یونس ہمدم آپ ایک شاعر کے ساتھ صحافی بھی ہو، پتا نہیں میرے جواب کو کیا رنگ دے دو، میں نے کہا میں شاعر کے ساتھ ساتھ ذمے دار صحافی بھی ہوں۔ آپ کی شخصیت سب سے پہلے میرے لیے محترم ہے پھر میں آپ کے فن کا قدردان ہوں، میں بس جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے آخر شادی کیوں نہیں کی؟

مہ ناز نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ میری زندگی میں بھی ایک بار ایسا موقعہ آیا تھا کہ میں کسی کو اپنا شریک حیات بنا لیتی اور ایک ایسا شخص مجھے مل بھی گیا تھا۔ میں نے پھر پوچھا کیا وہ شخص موسیقی ہی کے شعبے سے تھا۔ مہ ناز نے کہا ہاں موسیقی ہی کی دنیا سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اس وقت میرے فنی سفرکا آغاز تھا اور وہ شخص ایک طویل انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔

میں نے بھی لتا منگیشکر کی طرح اپنے فنی کیریئر کو سبقت دیتے ہوئے اپنے آپ کو موسیقی کے شعبے کے سپرد کردیا تھا اور پھر موسیقی ہی میرا اوڑھنا اور بچھونا بن گئی پھر میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے فنی سفر میں آگے بڑھتی رہی اور پھر اتنی مصروف ہوگئی کہ پلٹ کر میں نے کبھی کسی کی طرف دیکھا ہی نہیں اور پھر ایک دن آئینہ دیکھتے ہوئے جب چند چاندی کے بال سر میں نظر آئے تو احساس ہوا کہ کتنے موسم گزرگئے اور کتنے برس بیت گئے ہیں۔ پھر میں بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہوگئی۔

اب تو موسیقی ہی میری زندگی کی ساتھی اور موسیقی ہی میرے ارمان اور موسیقی ہی میرا سہاگ ہے۔ میں مہ ناز کی باتیں خاموشی سے سنتا جا رہا تھا۔ مہ ناز واقعی سروں کی دیوی تھی۔ سروں کی شہزادی تھی جس طرح لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے سامنے سر ہاتھ باندھے ہمہ وقت کھڑے رہتے تھے اسی طرح مہ ناز کو سروں کی شہزادی کے روپ میں راگ اور راگنیاں خود سلام کرنے آتی تھیں یہاں اگر میں مہ ناز کے کچھ مقبول گیتوں کا تذکرہ نہ کروں تو میرے کالم میں ایک تشنگی رہ جائے گی۔ مہ ناز کے مقبول گیت تو اتنے ہیں کہ ایک کتاب مرتب کی جاسکتی ہے مگر میں یہاں صرف چند مقبول ترین گیتوں کا تذکرہ کروں گا۔

میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا(فلم، پہچان)

تیرے میرے پیار کا ایسا ناتا ہے (فلم، سلاخیں)

پیارکا وعدہ ایسے نبھائیں (فلم، آج اور کل)

پیارکی یاد نگاہوں میں بسائے رکھنا (فلم، تلاش)

میں جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے(فلم،خوشبو)

تو میرا گیت ہے، میں ہوں تیری صدا (فلم،عشق عشق)

مجھے دل سے نہ بھلانا (فلم،آئینہ)

دو پیاسے دل ایک ہوئے (فلم، بندش)

مجھے لے چل یہاں سے دور (فلم، پرستش)

ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یادکرے گی دنیا (فلم، ضمیر)

میں ہوتی ایک مورنی (فلم، بارات)

میرے سانوریا بانسری بجائے جا (فلم، بڑے میاں دیوانے)

میرا پیار بھی تو' زندگی بھی تو(فلم، الوداع نہ کہنا)

کچھ بولو نہ بولو نہ' پلکوں کی کھڑکی کھولو نہ (فلم، روشنی)

چھاپ تلک سب چھین لی رے

موسے نیناں ملائی کے (فلم، روشنی)

چھاپ تلک سب چھین لی رے ایک ایسا گیت ہے جو برسوں سے گایا جا رہا ہے۔ اس نیم کلاسیکل صوفیانہ کلام کو جو حضرت امیر خسرو کی سوغات ہے اب تک برصغیر کے بے شمارگلوکاروں نے گایا ہے۔ اس گیت کو ہندوستان اور پاکستان میں موسیقی کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ہزاروں آوازیں اپنا چکی ہیں اور مسلم فنکاروں کے علاوہ ہندو اور سکھ گلوکاروں نے بھی خوب گایا ہے مگر موسیقی سے گہری دلچسپی رکھنے والوں اور فن موسیقی پر دسترس رکھنے والے افراد کی حتمی رائے یہی ہے کہ اس صوفیانہ کلام کو استاد نصرت فتح علی خاں، عابدہ پروین اور مہ ناز نے یہ گیت بڑے رچاؤ کے ساتھ گایا ہے اورگائیکی کا صحیح حق ادا کیا ہے۔ جب کہ مہ ناز نے بھی یہ گیت جذب و عشق کے انداز میں دل کے تاروں کی سنگت کے ساتھ خوب ڈوب کر گایا ہے۔

مجھے ایک اعزاز یہ بھی حاصل رہا ہے کہ میں نے عابدہ پروین اور مہ ناز کو موسیقی کی مخصوص محفلوں میں رو برو سنا ہے۔ مہ ناز وہ گلوکارہ ہے جسے مسلسل چھ سات سال تک بہترین گلوکارہ کے ایوارڈز سے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ نگار ایوارڈ کے علاوہ نیشنل ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ، بولان ایوارڈ اور نہ جانے کتنی ثقافتی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈ دیے گئے ہیں کہ مہ ناز کے گھر کا ایک کمرہ صرف ایوارڈز سے بھرا ہوا ہے۔

مہ ناز کو حکومت کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے کے ساتھ لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی اسے اس کی زندگی میں ہی دیا گیا کسی کو کیا خبر تھی کہ مہ ناز جیسی لیجنڈ گلوکارہ جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائے گی مگر اس کی آواز خوشبو کی طرح برسوں تک لاکھوں دلوں میں مہکتی رہے گی۔ آج مہ ناز کا گایا ہوا فلم ضمیر کا گیت یاد آرہا ہے اور دل کو تڑپا رہا ہے:

ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں