ڈپلومیسی
ڈاکٹر خلیل چشتی کے بعد بھارت کی جیل میں قید ادریس عالم کا معاملہ فوری توجہ اور بلاتاخیر حل کا متقاضی ہے۔
''شیام، دام، دنڈ، بھید،'' یعنی پیار محبت، زر و دولت، سزا و سرزنش اور مکرو فریب۔ یہ ہیں وہ چار مختلف حربے جو ہندو ڈپلومیسی کے مہاگرو بلکہ گرو گھنٹال چانکیہ نے حکمرانی کے لیے تجویز کیے تھے۔ وہی چانکیہ جس کے آگے ''دی پرنس'' نامی کتاب کے مصنف میکاولی کی حیثیت طفل مکتب کی سی ہے۔ بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سمیت بھارت کے تمام سیاسی قائدین آج تک چانکہ نیتی (پالیسی) پر ہی عمل پیرا ہیں۔ بھارت کے نئے وزیر خارجہ سلمان خورشید کے تازہ ترین بیان کو بھی چانکیہ نیتی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اپنے اس بیان میں ایک ہی سانس میں نرم اور گرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے کرکٹ، مذاکرات یا جنگ سمیت ہر طرح کے ذرایع استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ Blow hot and blow cold کے اسٹائل پر مبنی اپنے بیان کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کرکٹ کی ''بھاشا'' سمجھتا ہے تو ہم اسے کرکٹ کی بھاشا میں سمجھائیں گے۔ اگر وہ بات چیت کی بھاشا سمجھتا ہے تو بات چیت کے ذریعے سمجھائیں گے اور اگر وہ جنگ کی بھاشا سمجھتا ہے تو ہم اسے جنگ کی بھاشا میں سمجھا سکتے ہیں۔
سلمان خورشید کا تعلق بھارت کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے ہے اور ان کے ابا جان بھی کانگریسی حکومت میں وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ اپنے من پسند ہاں میں ہاں ملانے والے مسلمانوں کو ''شو بوائے'' کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف بھارت کی اولین سیاسی جماعت کانگریس کی بلکہ اس کے بعد کی جماعتوں بشمول بی جے پی کی ایک سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے۔ بھارت میں مسلمان گورنروں، وزیروں، سفیروں اور صدور کا تقرر بھی عملاً اسی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ پوری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی جاسکے کہ بھارت سچ مچ ایک سیکولر ملک ہے۔
بھارت کی ہندو قیادت کی یہ پالیسی ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دوسری جانب اس کا مقصد بھارتی مسلمانوں پر یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ حکومت تمام لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے۔ بھارت کی اسی پالیسی کے تحت دنیا کے اہم مسلم ممالک میں اکثر و بیشتر مسلمان سفیروں کو ہی تعینات کیا جاتا ہے۔ تاہم بھارت کے اس ڈھول کا پول کھولنے کے لیے یہی حقیقت کافی ہے کہ دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود بھارت کی مسلح افواج میں مسلمانوں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بھارت میں آئے دن ہونے والے مسلم کش فسادات سے بھی بھارتی سیکولرزم کا بھانڈا پھوٹتا رہتا ہے۔ پاکستان کو وقفے وقفے سے دھمکیاں دینا بھارتی حکومت کا معمول رہا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ وطن عزیز کا نمک کھانے والے بعض آستین کے سانپوں نے بڑا واویلا کیا تھا کہ پاکستان ایٹم بم نہ بنائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی سائنسدانوں اور سیاست دانوں نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بناکر بھارت کے مذموم عزائم کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادیا اور آج ہم اس قابل ہیں کہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔
پاکستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے میں ناکام ہونے کے بعد بھارتی حکمرانوں نے اب دیگر حربے اختیار کرنا شروع کردیے ہیں جن میں ثقافتی یلغار اس کا سب سے بڑا اور موثر حربہ ہے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی بڑھتی ہوئی نمائش اور ٹی وی پر بھارتی پروگراموں کی تشہیر اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں' اور تو اور اب تو پاکستان کے اشتہارات بھی بھارت میں تیار کرائے جارہے ہیں اور بھارتی فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کی اداؤں پر مبنی اشتہارات سے پاکستان کے ٹی وی ناظرین کو بہلایا اور لبھایا جارہا ہے۔
مگر ثقافتی جارحیت کی کامیابی کا خواب دیکھنے والے بھارتی حلقوں کو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان ثقافتی محاذ پر بھی بھارت کے چھکے چھڑا سکتا ہے کیونکہ اس کے اداکار، فنکار، اور گلوکار بھارت میں بھی اپنی عظمت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی ڈراموں اور دیگر پروگراموں سے خائف ہوکر ہی تو بھارت سرکار نے ان پر پابندی لگائی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب پاکستان کے بے مثال ٹی وی ڈراموں نے بھارت میں اپنی مقبولیت کے ڈنکے بجادیے تھے۔
بھارتی حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ابھی حال ہی میں اس نے پاکستان کی ہندو برادری کی آڑ لے کر ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی۔ اس میں ناکامی کے بعد اس نے ممبئی حملوں کو لے کر بات کا بتنگڑ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ دنیا کی توجہ ان مظالم کی جانب سے ہٹائی جائے جو اس کی فوجیں اور ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے مدت دراز سے ڈھا رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی زرعی زمینوں کو بنجر بنانے کے لیے بھارت پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم تعمیر کررہا ہے۔
تاہم امن و آشتی اور دونوں ملکوں کے عوام کی اقتصادی بدحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے نہایت فراخدلی کے ساتھ بھارتی حکومت کا ہاتھ تھام لیا اور دوطرفہ تجارت کو بھی قبول کرلیا حالانکہ اعداد و شمار گواہ ہیں کہ ماضی میں دو طرفہ تجارت کے عدم توازن کی وجہ سے سارا نقصان پاکستان ہی کو اٹھانا پڑا ہے۔ بھارت اپنی من پسند اشیا پاکستان کو برآمد کر رہاہے جب کہ پاکستان سے چینی کی درآمدات پر عائد ڈیوٹی کی شرح اس نے دگنا کردی ہے۔
پاکستان میں جو حلقے بھارت کے ساتھ خیرسگالی کے فروغ میں ضرورت سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش ہیں انھیں بھارتی حکمرانوں کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ دھمکی کی بھاشا استعمال کرکے وہ امن کو نقصان پہنچانے کے مرتکب اور ذمے دار قرار پائیں گے۔ بھارت اگر امن کے معاملے میں مخلص اور نیک نیت ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس کا عملی ثبوت پیش کرنا چاہیے کیونکہ محض زبانی جمع خرچ یا جھوٹے ناٹک کے بل پر یہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ایک طرف امن و دوستی کی بات ہے تو دوسری جانب وہ مسلسل تراشا ہے جس نے بھارتی جیل میں قید ادریس عالم اور پاکستان میں رہنے والے اس کے بال بچوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
بزرگ شہری ڈاکٹر خلیل چشتی کی دردناک کہانی کے اختتام کے بعد بھارت کی جیل میں قید ادریس عالم کا معاملہ فوری توجہ اور بلاتاخیر حل کا متقاضی ہے جسے پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ادریس عالم 1986 میں بھارت کے پاسپورٹ پر اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے پاکستان آیا تھا۔ اس دوران اس نے یہاں شادی کرلی اور 1999 میں پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد یہیں پر سکونت پذیر ہوگیا۔ کانپور میں اس کے والد احمد جان شدید بیمار ہوئے تو وہ قسمت کا مارا ان کی عیادت اور خدمت کے لیے 15 روز کے ویزے پر بھارت چلا گیا۔
اسی دوران احمد جان کا انتقال ہوگیا اور حالات سے مجبور ہوکر ادریس کو بھارت میں مزید قیام کرنا پڑا۔ متعلقہ حکام کو اس بارے میں مطلع کرنے پر اسے گرفتار کرلیا گیا۔ تب سے آج تک یہ بے چارہ بھارت میں قید ہے جب کہ یہاں کراچی میں اس کے بیوی بچے اس کی واپسی کے انتظار میں بری طرح تڑپ رہے ہیں۔ انسانیت کے نام پر ہماری حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ نئی دہلی میں اپنے ہائی کمیشن کو ادریس کی پاکستانی شہریت کی فوری تصدیق کے احکامات جاری کرے۔ دریں اثناء چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم افتخار چوہدری صاحب سے بھی اس کیس کا سوموٹو نوٹس لینے کی بھی استدعا کی جاتی ہے۔