امریکا ٹرمپ سے مختلف ہے

اس وقت امریکا جس سنگین اخلاقی اور سیاسی بحران سے دو چار ہے


Zahida Hina February 05, 2017
[email protected]

بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز پر کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کسی ایک ملک میں سربراہ مملکت کی جمہوری بنیادوں پر تبدیلی ساری دنیا کو تلپٹ کردے گی اور ملک بھی وہ جو دنیا کی عظیم طاقت ہو اور جہاں کی جمہوری اساس کی مثالیں دی جاتی ہوں۔

امریکا ایک ایسا ملک ہے جس نے انیسویں صدی کے اواخر اور پوری بیسویں صدی میں کمزور ملکوں پر تسلط جمانے فلپین، کوریا، جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق اور متعدد دوسرے ملکوں کو خونیں تصادم سے دوچار کرنے، وہاں لاکھوں کو ہلاک کرنے، ہزاروں کو عقوبت گاہوں میں ڈالنے، ہزاروں کو غائب کرنے اور جاپان کے دو شہروں کو ایٹمی موت کے منہ میں دھکیلنے جیسے غیر انسانی جرائم کیے۔

یہ 70ء کی دہائی تھی جب امریکی شہریوں کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ ' حبِ وطن' کے نام پر ان کے حکمران کیا کچھ کررہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ ایک امریکی حکمرانوں کا اور دوسرا انسان دوست، جمہوریت پسند او رروادار امریکیوں کا قبیلہ۔

اس وقت امریکا جس سنگین اخلاقی اور سیاسی بحران سے دو چار ہے، وہ امریکا کی اسی تقسیم کا مظہر ہے۔ امریکی انتخابات کے نتائج آنے تک کسی کو یقین نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوجائیں گے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے رجعت پسند سفید فام امریکیوں سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پہلے دن سے پورا کرنے میں مصروف ہوجائیں گے۔

انھوں نے جس پہلے حکم نامے پر دستخط کیے وہ سات مسلمان ملکوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے عوام سے جو وعدے کیے ہیں، انھیں ایک ایک کرکے پورا کروں گا۔ وہ میکسیکو کی سرحد پر کنکریٹ کی دیوار اٹھانے اور خاردار باڑھ لگانے کی بات کرتے ہیں اور اس کی تعمیر پر لاگت کا ایک حصہ میکسیکو سے 'وصول' کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اب سے پہلے امریکی صدور فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی اور دوسری زبانوں میں بھی بات کرتے تھے لیکن یہ بات موجودہ امریکی صدر کو سخت نا پسند ہے۔ ان کے سامنے ان کی پارٹی کے ایک اہم رکن جِِب بش نے اپنی بیوی کی زبان ہسپانوی بولی تو ٹرمپ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ہسپانوی نہیں انگریزی بولی جاتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھیں شاید علم نہیں تھا کہ ان کے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کی زبان ہسپانوی ہے۔ اس کے دو ٹیلی وژن چینل ہیں جو بہت مقبول ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہسپانوی پڑھائی جاتی ہے۔ اسے ٹرمپ کی کم علمی کے سوا کیا کہا جائے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ سابق صدر اوباما ہسپانوی جانتے تھے اور اس میں ٹویٹ بھی کرتے تھے۔ موجودہ صدر انگریزی کے سوا ہر زبان کے خلاف ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انھوں نے ہسپانوی کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا تو یہ ان کے خلاف مزاحمت کی زبان بن جائے گی اور بہ طور خاص کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوانوں میں پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہوجائے گی۔

حلف کی تقریب میں کسی لگی لپٹی کے بغیر انھوں نے یہ کہا کہ انتہا پسند اسلامی دہشتگردی کو ہم دنیا کے نقشے سے مکمل طور پر کھرچ دیں گے، مٹادیں گے۔ ان کے اس جملے نے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں غیر مسلموں کو، امریکیوں، برطانویوں، فرانسیسیوں اور جرمنوں سب ہی کو دہلا دیا۔ وہ سمجھ گئے کہ دنیا کے سب سے طاقتور حکمران کی زبان سے یہ جملے کس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں۔ یہ کسی بھی انتہا پسند تنظیم کے لیے کس قدر دل پسند ہوں گے اور وہ ان جملوں کو بنیاد بنا کر کیسے نئے 'جہادیوں' کو اپنے ساتھ شامل کرسکیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتہاپسندوں کی نئی کھیپ تیار کرنے میں بہت کارگر ہوں گے۔

اپنے حسابوں ٹرمپ اور ان کے ساتھی کٹر قوم پرست ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ متشدد قوم پرستی دوسری جانب کے لوگوں کو پیچھے ہٹنے کی بجائے کہیں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے عورتوں کی صحت اور خاندانی بہبود کے بارے میں جو نکتۂ نظر اختیار کیا اور اسقاط کو غیر قانونی قرار دیا، اس نے بے شمار عورتوں کو اس حد تک برافروختہ کیا کہ وہ تقریب حلف برادری کے دوسرے ہی دن 2 لاکھ کی تعداد میں نیویارک میں، واشنگٹن اور چھوٹے بڑے امریکی شہروں میں احتجاج کرتی نکلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بدن کے مالک ہیں۔ یہ بات ہم طے کریں گی کہ ہمارے کتنے بچے ہوں۔

مسلمانوں کے خلاف ان کے بیانات نے سیاہ فام کے ساتھ سفید فام امریکیوں کو بے پناہ مشتعل کیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مظاہروں، بیانات اور ٹوئیٹر پر ٹرمپ مخالف تحریروں کا سیلاب اُمنڈ آیا ہے۔ امریکی اپنے ملک کو ایک روادار اور کثیر المشرب آبادی والا ملک سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں وہ صدر نہیں آرہا جو امریکی آئین کے درپے ہے اور جس کے خیال میں امریکی سرحدوں کو بند کرکے وہ کوئی معرکہ کررہا ہے۔

امریکی فلمی ستاروں اور لکھنے والوں نے مسلمانوں کی رجسٹریشن کے بیان پر شدید احتجاج کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر امریکی مسلمانوں کا اندراج مذہب کی بنیاد پر کیا گیا تو وہ خود اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر رجسٹر کرائیں گے ان میں میڈونا اور میرل اسٹریپ جیسی مشہور اداکارائیں شامل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ جنھوں نے عراق جنگ کے زمانے میں عراق مخالف بیانات دیے تھے اور جو نسلاً اور مذہباً یہودی ہیں انھوں نے بھی کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ اس نوعیت کی زیادتی ہوئی تو وہ خود کو مسلمان کہلائیں گی۔

ٹرمپ صاحب نے شاید اس احتجاج اور مزاحمت سے کوئی سبق نہیں سیکھا، یا شاید انھیں لوگوں کو مشتعل کرنے میں لطف آتا ہے۔ تب ہی انھوں نے حلف اٹھانے کے بعد یہ کہہ دیا کہ ''رپورٹر کرئہ ارض پر سب سے بددیانت برادری ہیں''۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحافیوں کے غم و غصے کا کیا عالم رہا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کا تعلق پریس کی آزادی سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ پہلی ترمیم جس کی اس قدر شہرت ہے، وہ صحافیوں کو اتنا تحفظ فراہم نہیں کرتی جتنا کہ عموعی طور سے خیال کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی صحافیوں بہ طور خاص رپورٹروں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک ایسا صدر جس کو کسی بات کی پروا نہیں اور جو نرگسیت کا مریض ہے، وہ پریس کا گلا کسی طور پر بھی گھونٹ سکتا ہے۔ اس بات کو اتنی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے کہ نیویارک ٹائمز انٹرنیشنل میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ٹرمپ صاحب 'فریڈم آف دی پریس' کا ایک لفظ مٹا کر اپنے قلم سے 'فریڈم آف دی پریذیڈنٹ' لکھ رہے ہیں۔ یہ گہرا طنز صحافی برادری کی تشویش کا اظہار ہے۔

اسی طرح نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل میں ایک کارٹون چھپا ہے جس میں ایک امریکی پولیس والا ائیرپورٹ پر ایک عورت کو جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور جس کے ہاتھ بھی پشت پر باندھ دیے گئے ہیں جس میں انصاف کا ترازو ہے، دھکیلتا ہوا انٹرنیشنل ڈپارچر لاؤنج کی طرف لے جارہا ہے۔ یہ اس کا اشارہ ہے کہ انصاف کی دیوی جس کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے، اسے امریکا سے دیس نکالا مل رہا ہے۔

ایسے ہی متعدد کارٹون مختلف امریکی اخباروں میں چھپ رہے ہیں اور صحافی برادری کے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ نکولس کرسٹوف کا شمار باضمیر اور باشعور امریکی دانشوروں میں ہوتا ہے۔ کرسٹوف کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی انتہا پسند مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک میں تشدد اور خون خرابہ کرتا ہے تو ہم اعتدال پسند مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور ان انتہا پسندوں کی مذمت کریں۔

وہ سوال کرتا ہے کہ کیا اپنے اس مطالبے کی رو سے ہم پر یہ ذمے داری عائد نہیں ہوتی کہ ہم اپنے انتہا پسندوں کی مخالفت کریں۔ اسی بنیاد پر میں اپنے مسلمان ہم وطنوں سے معذرت کرتا ہوں۔ آپ کے سفر پر جو سفاکانہ اور بے دردانہ پابندی لگائی گئی ہے، وہ آپ کی نہیں، ہماری توہین ہے۔ آپ کو یہ جاننا اور سمجھنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ، امریکا نہیں ہیں۔

ٹیکساس کے شہر وکٹوریہ کی جب اکلوتی مسجد کو ایک پر اسرار آگ نے خاکستر کردیا تو علاقے کے یہودی رہنماؤں نے مسلمانوں کو اپنے سینے گاگ کی چابی دے دی اور چار گرجا گھروں کے لوگوں نے مسلمانوں کو جگہ دے دی کہ جب تک انھیں ضرورت ہو، وہ اسے استعمال کریں اور پھر چند دنوں کے اندر علاقے کے لوگوں نے 10 لاکھ ڈالر کا چندہ اکٹھا کیا اور مسلمانوں کو دیا کہ وہ نئی مسجد تعمیر کریں۔

نکولس کرسٹوف پاکستان، افغانستان اور یمن کی مسجدوں میں بیٹھا ہے اور اس نے نہایت نفرت انگیز تقریریں سنی ہیں لیکن وہ امید رکھتا ہے کہ دنیا کے عیسائی، مسلمان، یہودی اور دوسرے مذاہب کے لوگ رواداری کا اور ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں گے تاکہ دنیا کو ہر طرح کے انتہا پسندوں سے نجات ہوسکے، دنیا ایک ایسی جگہ ہو جہاں سب ایک دوسرے کے بچوں سے محبت کریں اور انھیں خوبصورت اور پُر امن دنیا میں چھوڑ کر رخصت ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں