بنگالی شہریوں کے معاملات
دو قومی نظریہ پر وجود میں آنے والا دو حصوں پر محیط ملک نظریہ پر گرفت کمزور ہونے کی بنا پر دولخت ہوگیا
دو قومی نظریہ پر وجود میں آنے والا دو حصوں پر محیط ملک نظریہ پر گرفت کمزور ہونے کی بنا پر دولخت ہوگیا۔ نصف صدی کے قریب بیت جانے کے بعد بھی اس نظریہ پر کاربند افراد دونوں ملکوں میں نظریہ سے جڑے رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں اس نظریہ سے وابستہ افراد کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جارہاہے یا وہ محصورین کے کیمپوں میں غیر انسانی ماحول میں زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں اور پاکستان میں بنگلہ زبان بولنے والے پاکستانی شہریوں کے علاوہ پاکستان کے لیے دو مرتبہ ہجرت کرنے والے بہاریوں کو بھی ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ان کے استحصال کے سرکاری ادارے بن چکے ہیں، جو انھیں ان کے بنیادی انسانی آہنی اور قانونی حقوق سے محروم کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ان افراد کے لیے پاسپورٹ، قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے یا تجدید کرانے کا مرحلہ کسی غیر ملکی کی شہریت حاصل کرنے سے بھی زیادہ مشکل بنادیا گیا ہے۔
ایسے افراد جن کے اپنے اور والدین کے پرانے شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے پاسپورٹ حاصل کیے الیکشن کمیشن کی جاری کردہ ووٹر لسٹ میں درج ہیں، وہ سالہا سال سے ووٹ کا حق استعمال کررہے ہیں۔ یہیں پیدا ہوئے، تعلیم حاصل کی، شادیاں کیں، بچے پیدا ہوئے، اب ان کے شناختی کارڈ کی تجدید ان کی اولاد کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ب فارم کے حصول کے لیے ان پر بلاجواز قسم کے اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔ تجدید و تصدیق کے لیے ری پارٹیشن سرٹیفکیٹ طلب کیے جاتے ہیں۔
باپ، دادا تک کو پیش کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، ستر سال کی خواتین سے نکاح نامہ طلب کیا جاتا ہے، اصل شناختی کارڈوں کو مشکوک قرار دے دیا جاتا ہے۔ شناختی کارڈ بلاک کردیے جاتے ہیں۔ ایک بڑے سرکاری ادارے کے ریٹائر افسر جو پیدائشی پاکستانی ہیں، زندگی میں کبھی ملک سے باہر نہیں گئے، اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے دفتر گئے تو ان سے کہا گیا ماں باپ کے شناختی کارڈ لائیں، بتایا گیا کہ ماں باپ تو بہت پہلے انتقال کرچکے ہیں تو کہا گیا کہ پھر بھائی بہن کو لے کر آئیں، بتایا گیا کہ بھائی تو کوئی نہیں ہے، اکلوتی بہن کینسر کی مریضہ ہے، جو بستر مرگ پر زندگی کے آخری ایام بسر کررہی ہے، دفتر آنے کے قابل نہیں ہے۔
بیٹا آسٹریلیا کا شہری ہے، دو چار سال میں کبھی پاکستان آتا ہے۔ انھوں نے اپنے سابقہ ادارے کا سروس کارڈ، تقرری اور ریٹائرمنٹ کے کاغذات دکھائے اور بتایا کہ سروس کے دوران میری پوری انکوائری کرائی گئی تھی۔ میں پکا، ستھرا پیدائشی پاکستانی ہوں لیکن دفتر والوں نے ان کی ایک نہ مانی اور دفتر سے باہر کا راستہ دکھادیا۔ اب یہ شخص عدالت کے ذریعے انصاف اور شناختی کارڈ کے حصول کا طالب ہے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جب ایک پڑھے لکھے سرکاری افسر جو تمام تر قانونی ثبوت بھی رکھتا ہے، اتنی قباحتیں اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کردی گئیں ہیں تو عام شہریوں خصوصاً بنگلہ زبان بولنے والوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔ جن کی غالب اکثریت ناخواندہ، غربت و افلاس کی ماری مضافاتی کچی و تاریک بستیوں میں زندگی بسر کررہی ہے، جو زیادہ تر ماہی گیری، قالین، پولٹری، ٹیکسٹائل میں چھوٹی موٹی ملازمتوں پر گزر بسر کررہے ہیں۔
شہروں میں گنے کی مشینوں، پان کے کیبنوں اور ٹائر پنکچر وغیرہ کی دکانوں پر کام کرنے والے بنگالی صرف ان کے ملازمین ہیں، جب کہ اصل مالکان عموماً پولیس والے یا غیر بنگالی افراد ہیں جو رات کو ان سے ساری کمائی لے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مسلم الائنس پاکستان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کے سامنے بلاجواز محب وطن بنگالی زبان بولنے والوں کے بلاک کیے گئے شناختی کارڈوں کی فوری بحالی کے لیے شدید احتجاج کیا گیا۔ مقررین کا کہناتھا کہ CNIC بلاک ہونے کی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں، ان کے گھروں میں فاقے چل رہے ہیں، بانیان پاکستان کی اولاد کے CNIC بلاک کیے جانا تحریک پاکستان اور اس کے دفاع کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی ارواح سے بے وفائی اور انھیں ایذا پہنچانے کے مترادف ہے۔
مظاہرین نے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر از خود نوٹس لینے کے احسن اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اب لاکھوں بلاک شناختی کارڈ بحال ہوجائیںگے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل نے بنگالی برادری کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاکہ وہ خصوصی طور پر شناختی کارڈ کے حصول کے مسئلے پر وزیراعظم سے بات چیت کریں گے، انھوں نے بتایاکہ وزیراعظم بنگالی برادری کو درپیش مسائل حل کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں جلد ہی اہم اعلانات کرنے والے ہیں۔
بنگالی ایکشن کے وفد کو پی پی پی کے مرکزی رہنما سینیٹر سعید غنی نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کے جائز مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں، ان کے حل میں کوئی کسر نہیں چھوڑیںگے۔ جو معاملات وفاق سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سلسلے میں وہ خود وفاق سے رابطہ کریںگے۔
شناختی کارڈ اور ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے یہ شہری منتقل جائیداد، اموات و پیدائش، وراثت و عائلی معاملات وغیرہ کے معاملے میں بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچے مڈل سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ آیندہ ماہ شروع ہونے والی مردم شماری سے بنگالی شہری بہت خوف و ہراس کا شکار ہیں، کیوںکہ اس میں نادرا کی جانب سے جعلی قرار دیے جانے والے CNIC کے حامل افراد کو غیر ملکیوں کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، دوسرے مادری زبان کے کالم میں بنگلہ زبان کا ذکر نہیں ہے۔
بانیان پاکستان کے جنرل سیکریٹری کبیر احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے 31 ممالک کے 38 لاکھ غیر قانونی رہائش پذیر افراد کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے نارا NARA (National Alien Registration Authority) کا ادارہ قائم کیا تھا، اس ادارے نے ایسے بنگالی نژاد پاکستانی شہریوں کو بھی زبردستی رجسٹرڈ کیا جس کے پاس پرانے شناختی کارڈ، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ، پاکستانی پاسپورٹ، قانونی جائیدادیں تھیں، ان شواہد کے باوجود ان بے گناہ بنگالیوں کو پکڑ کر بھاری رشوتیں وصول کی جاتی ہیں یا پھر انھیں بارڈر کراس کرنے کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیاجاتا ہے، جنھیں عدالتیں رہا کردیتی ہیں۔
کچھ دن قبل ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ نے ایئرپورٹ پر تعینات عملے کو احکامات جاری کیے تھے کہ پاکستان سے ایمرجنسی پاسپورٹ پر ملک سے جانے والے بنگالیوں کو بغیر کسی تحقیقات کے جانے دیا جائے، جب کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم بنگالیوںکو سفر کے لیے اسپیشل برانچ سے اجازت نامہ اور وزارت داخلہ سے اخراج نامہ اور ایمرجنسی پاسپورٹ ہمراہ لانا لازمی قرار دیا گیا ہے، ان احکامات سے جعلی دستاویزات رکھنے اور سنگین جرائم میں مطلوب افراد بھی باآسانی ملک سے باہر نکل سکتے ہیں۔ باوثوق ذرایع کے مطابق ان احکامات کے جاری کرانے میں ایک اسمگلر کا ہاتھ ہے جو مخصوص لوگوں کو غریب بنگالیوں کی آڑ میں ملک سے فرار کرنا چاہتا ہے۔
جب متعلقہ ادارے اتنے کرپٹ اور ظالم اور حکمران بے حس و لاپرواہ ہوںگے تو شہریوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔ نادرا، نارا اور ایف آئی اے جیسے ادارے براہ راست محکمہ داخلہ کے تحت آتے ہیں، چوہدری نثار حساس اور سنجیدہ نظر شخصیت کے حامل ہیں جو مختلف معاملات پر فوری ایکشن لیتے ہیں، انھیں اس قومی مسئلے اور انسانی المیہ پر ذاتی توجہ دے کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، جن سے بے گناہ شہریوں کے بنیادی انسان حقوق کا تحفظ ہو اور قانون شکن عناصر کسی طور قانون سے نہ بچ پائیں۔