اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

ٹرمپ نے ایوان سفید میں داخل ہونے کے بعد ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نام پر مسلمان مخالف طینت کا کھلم کھلا اعلان کردیا


Shakeel Farooqi February 07, 2017
[email protected]

ہمارے ایک بزرگ بڑے مزے سے فرمایا کرتے تھے کہ جیسی شکل 'ع' کی ویسی ہی 'غ' کی۔ دونوں میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔ ہمیں یہ بات نئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے حوالے سے یاد آرہی ہے جن میں بعض خصلتیں مشترک ہیں۔ دونوں ہی سیماب صفت اور انتشار پسندی کے حامل ہیں اور دونوں ہی کے مسند اقتدار سنبھالنے سے قبل ہاہاکار مچ گیا تھا۔

مودی نے اپنی آمد کے فوراً بعد ہندوتوا کے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا تھا جب کہ ٹرمپ نے ایوان سفید میں داخل ہونے کے بعد ''اسلامی دہشت گردی'' کے نام پر مسلمان مخالف طینت کا کھلم کھلا اعلان کردیا۔ مسلم دشمنی دونوں کی گھٹی میں شامل ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ مسلمانوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی کا مرکزی کردار یہی تھا۔ہندوستان میں تقسیم سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جتنے بھی مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں وہ سب کے سب اس مسلم دشمن تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سازشوں اور پشت پناہی سے ہوئے ہیں، جس کے بطن سے مودی کی پیدائش اور جس کی گود میں مودی کی پیدائش ہوئی ہے۔

جس طرح سانپ کو کتنا بھی دودھ پلا دیں وہ کبھی اپنا زہر نہیں چھوڑے گا۔ اسی طرح مودی کے ساتھ بھی پاکستانی حکمراں چاہے جتنا اچھا سلوک کرلیں مگر اس پر اس کا کوئی بھی مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ مودی مسلم کش فسادات کے لہو میں تر بہ تر شاہراہ سے گزرکر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچا ہے تو ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب کے موقعے پر ہونے والے شدید مظاہروں اور احتجاجات کی رہ گزر سے ہوکر صدارتی محل میں داخل ہوئے ہیں۔

بھارت کے سابق پردھان منتری من موہن سنگھ نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر مودی جیت گیا تو بھارت کے لیے تباہی کا باعث ہوگا جب کہ امریکا کے معتبر حلقوں نے امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے اس خدشے کا اظہارکیا تھا کہ ٹرمپ کی فتح امریکا کی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ مودی کے بارے میں خدشات کا اظہار ہندوستان کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کیا تھا جب کہ ٹرمپ کے بارے میں اسی قسم کے خدشات کا اظہار سابق امریکی صدر اوباما نے کیا تھا۔

مودی اور ٹرمپ دونوں میں تعصب کا عنصر مشترک بھی ہے اور نمایاں بھی۔ نریندر مودی کے دروازے مسلم پناہ گزینوں کے لیے قطعی بند ہیں مگر بنگلہ دیشی ہندوؤں کے لیے اس کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ یہی حال ٹرمپ کا بھی ہے جسے مسلم پناہ گزینوں سے سخت نفرت ہے لیکن جس کے دل کے دروازے شام کے عیسائی پناہ گزینوں کے لیے ہر وقت کشادہ ہیں۔ سوالات سے مودی بھی کتراتے ہیں اور ٹرمپ بھی سوالات سے گھبراتے اور جان چھڑاتے ہیں۔ نیوزکانفرنسوں سے دونوں ہی گریزاں ہیں مگر ٹوئیٹ دونوں ہی کا من پسند مشغلہ ہے۔ دوستانہ انٹرویوزدینے کا دونوں ہی کو بڑا شوق ہے۔

ریڈیو مودی کا پسندیدہ ذریعہ ابلاغ ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ٹرمپ بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑیں اور انھیں بھی ریڈیوکے ذریعے اپنے عوام سے خطاب کرنے کی لت پڑ جائے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جولیئن اسانج نے کلنٹن اور ٹرمپ کا دلچسپ موازنہ کرتے ہوئے اول الذکرکو گنوریا اور آخر الذکرکو کولرا کی بیماری سے تعبیر کیا ہے۔

مسلمانوں سے ٹرمپ اور مودی کی دشمنی میں ایک فرق نمایاں ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کی دشمنی قطعی اور واضح ہے جب کہ مودی کی مسلم دشمنی اس کی دوغلی پالیسی کے تابع ہے۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا مودی اسلام کے قلعے پاکستان کا پانی روک کر اسے تباہ وبرباد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جب کہ دوسری جانب مسلمان ملکوں سے اس حد تک تعلقات بڑھا رہا ہے کہ ایک مسلم ریاست کے سربراہ کو اس نے 26 جنوری کو ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر بطور چیف گیسٹ مدعو کیا تھا۔ کاش ہماری وزارت خارجہ میں اتنی صلاحیت ہوتی کہ وہ دنیا کے برادر مسلم ممالک کو مودی کا اصل مکروہ چہرہ دکھا سکتی۔

مگر ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے تین سال سے زائد کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہماری وزارت خارجہ کو ایک وزیر خارجہ بھی میسر نہیں آسکا اور ہمارے وزیر اعظم اوپن ہارٹ سرجری کرانے کے بعد وزارت عظمیٰ کے بھاری بوجھ کے علاوہ وزیر خارجہ کی اضافی ذمے داری کا بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں جب کہ پانامہ لیکس کا دباؤ اس کے علاوہ ہے۔ادھر وطن عزیز میں سیاسی درجہ حرارت میں بھی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے معاملے میں حکمراں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جاری محاذ آرائی اب پارلیمان کے ایوان میں بھی داخل ہوچکی ہے اور دونوں جماعتوں کے ارکان نے غیر پارلیمانی رویہ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف زبانی حملوں سے تجاوز کرتے ہوئے ہاتھا پائی کا ایک نیا غیر پارلیمانی ریکارڈ قائم کرکے دکھادیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اپنے استعفے تک کی پیشکش کردی۔ کاش باہم متصادم ہونے والوں نے یہ سوچا ہوتا کہ:

دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

گردوپیش کے حالات اور داخلی صورتحال کا تقاضا ہے کہ قومی اتحاد اور ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور ملک میں عدم استحکام کی خواہاں تمام قوتوں کو یک جہت ہوکر ناکام بنایا جائے اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے فوراً سے پیشتر ایک لائق و فائق کل وقتی وزیرخارجہ کا تقررکیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ تمام اہم اور Main Stream سیاسی جماعتوں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد عسکری اورسیاسی قیادت کے باہمی تعاون سے ایک Pragmatic اور Dynamic خارجہ پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ اپنے ازلی دشمن بھارت کی عیارانہ Isolation پالیسی کو مکمل طور پر ناکام بنایا جاسکے۔ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ حالیہ ملاقات اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس اہم ملاقات میں ملکی سلامتی کے حوالے سے غوروخوض کیا گیا اور خطے کی صورتحال کے علاوہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے عالمی منظرنامے کا بھی بھرپور انداز میں جائزہ لیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا ازحد ضروری ہے کیونکہ ملک و قوم کی بقا اور سلامتی اس میں مضر ہے۔

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی اور یہ اعلان بھی کردیا کہ افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان کے شہریوں کو سخت چھان بین کے بعد ہی امریکا میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی وزارت داخلہ بھی حرکت میں آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حال ہی میں کچھ مذہبی شخصیات کو حفاظتی تحویل میں لیے جانے کا اقدام بھی ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤکے تحت کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو تن تنہا کرنے کی بھارتی مذموم سازش اور مودی سرکار کے ساتھ بڑھتی ہوئی امریکی پریم کہانی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ کو کافی سنگین چیلنجز درپیش ہوں گے، جس کے لیے ہمارے سفارت کاروں کو انتہائی چابک دوستی اور غیرمعمولی ذہانت ومہارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں ہم آہنگی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ وقت پکار رہا ہے۔

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی

دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں