خطوط کی قطری خوشبو

سچے سارے ارمانوں کی دیوار دھڑم سے گرگئی


فاطمہ نقوی February 07, 2017
[email protected]

کیا زمانہ تھا، خط آتے تھے، خط جاتے تھے، کچھ دہائی پہلے تک خطوط ہی ذریعہ تھے ایک دوسرے سے رابطے کا۔ کیونکہ فون تھے مگرکم کم گھروں میں اس لیے بڑے بڑے خط لکھے جاتے مگر اس کے بعد بھی تسلی نہ ہوتی لگتا کہ ابھی تو کچھ لکھا ہی نہیں ہے، گھر والے بچوں کو دروازے پر بار بار دوڑاتے کہ دیکھو ڈاکیہ آیا کہ نہیں۔ ڈاکیہ بھی معتبر تھا کہ جس کا انتظار سب کو رہتا، خوشامد الگ کی جاتی کہ 'دیکھو بھائی ہمارا بڑا ضروری خط آنے والا ہے، دیکھو بھول نہ جانا یاد سے دے جانا 'مگر اب کوریئر سروس میں وہ بات کہاں میں وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ کچھ خط ایسے ہوتے جو کسی کے سامنے نہ پڑھے جاتے بلکہ چپکے چپکے کتابوں میں رکھ کر تنہائی میں پڑھے جاتے اور بار بار پڑھ کر بھی تشنگی رفع نہ ہوتی۔ الہڑ مٹیاریں دل زیب وادیوں میں نیلے پربتوں میں اٹھکیلیاں کرتی پھریں کہ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دو۔ حال میرے دل کا تمام لکھ دو اور لکھنے والا اپنے قلم کو ان کی زبان دے کر تمام حکایتیں، شکایتیں لکھ دیتا۔ خط لکھتے ہی جواب کا انتظار شروع ہوجاتا۔ کہیں تو یہ ہوتا کہ:

قاصدکے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھو

ہم جانتے ہیں جو وہ لکھیں گے جواب میں

اورکہیں مایوس نا امیدی میں بھی ایک امید کی کرن جگمگاتی کہ شاید کبھی تو ہمارے لکھے کو اعتبار ملے گا اور جواب آئے گا۔

وہ ایک خط جو تو نے کبھی لکھا ہی نہیں

میں روز بیٹھ کے اس کا جواب لکھتی ہوں

اورکبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ جواب آتا دل خوش کن تصورات سے بھرچکا ہے۔ لفافہ کھولنے سے پہلے ہی دھڑکن بڑھ جاتی ہے کہ کیا لکھا ہوگا۔ مگر ہوتا کیا ہے کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ وہ بھی مرا ہوا۔

خط میں میرے ہی خط کے ٹکڑے تھے

اور میں سمجھا کہ میرا جواب آیا ہے

سچے سارے ارمانوں کی دیوار دھڑم سے گرگئی، خط لکھنے اور پڑھنے والے کی ہزار خوشامدیں کی جائیں پھر وعدے و عہد لیے جاتے کہ دیکھو کسی کو بتانا نہیں کہ کہیں بھید نہ کھل جائے رسوائی دامن گیر بن جانے ، ہمیں تو خطوط سے آشنائی ہماری ٹیچر مس آمنہ نے کروائی۔ اﷲ ان کو غریق رحمت کرے۔ عجیب آزاد مرد تھیں اور سورمی عورت تھیں انھوں نے خطوط غالب پڑھا پڑھاکر ان دنوں تو خطوط سے ہمیں بیزار ہی کردیا تھا۔ ہم سوچتے کہ اب کہاں یہ زمانہ کہ لمبے لمبے خطوط لکھے جائیں۔ یہ کیا کہ خط لکھنے بیٹھ گئے اورکوئی کام نہیں تھا۔ اس کے سوا مگر وہ استاد ہی کیا جو شاگرد کی سن لیں ان کا تو لیکچر جاری رہتا کہ دیکھوکیا لکھنے کا انداز ہے جیسے روزمرہ کی باتیں ہورہی ہیں۔

برجستہ اسلوب اورسادگی میں بھی پرکاری نظر آتی ہے۔ لگے کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے مگر ہماری سمجھ میں ایسی باتیں اس وقت کہاں آتیں۔ ہمیں تو ان خطوط پر تبصرہ کرنا ہی بے کارکی مشقت لگتا تھا کہاں ہم معانی و مفہوم پر دھیان دیتے۔ ہمارا تو یہ کہنا تھا کہ جو بات دو لفظوں میں فون کے ذریعے کہی جاسکتی ہے ان پرکیوں الفاظ ضایع کیے جائیں۔ہماری پہلے کبھی کسی نے سنی تھی جو اب یہ ممتحن یا ٹیچرز ہماری سنتے۔ ہمیں تو اپنے خطوط، اشعار کی تشریح کرنی تھی ،اسی لیے ہم تو بڑے بے زار تھے خطوط سے۔ شکر ہے کہ ایس ایم ایس کا زمانہ آیا۔ مختلف موبائل فونز کے ایزی کال ریٹس سامنے آگئے، ای میل کی سہولت فراہم ہوگئی تو پھر کہاں کے خطوط اورکہاں ان کا انتظار اب تو ہر چیزصرف ایک بٹن دبانے کی دسترس پر حاصل ہے۔

اسکائپ، ویڈیوکالز نے تو دنیا کو اس طرح آپس میں جوڑ دیا ہے کہ واقعی لگنے لگا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے جہاں سب ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہیں اب آنے والی نسل تو شاید خطوط سے واقف ہی نہ ہوتی کہ یہ ہوتے کیا ہیں مگر اﷲ بھلا کرے ان قطری خطوط کا انھوں نے دنیا کو پھر اس جہاں میں پہنچادیا جب خطوط بڑی اہمیت کے حامل تھے مگر صاحب یہ قطری خطوط سب کچھ تو ہوسکتے ہیں مگر اہم ہونا ناممکن کیا دوستی نبھائی جارہی ہے ایک کے بعد ایک خط منظر عام پر آرہاہے۔ لگتا ہے نئی نسل کو خطوط غالب سے تو چھٹکارا مل جائے مگر ان کی جگہ خطوط قطری پڑھنے کو ملیں گے۔ اب طالب عالم ہوشیار ہوجائیں، امتحانات میں سوالات کچھ اس قسم کے آئیں گے۔

قطری خطوط کے سیاق و سباق سے آگاہ کریں'' قطری خطوط کی اہمیت پاناماکیس کے تناظر میں لکھیں؟ حکمرانوں کو قطری خطوط کے ذریعے کیا فوائد حاصل ہوئے، قطری خطوط کیوں لکھے گئے؟ قطری خطوط کے خلاف عمران کا رد عمل کیسا تھا ، تبصرہ کیجیے؟ قطری خطوط لکھتے وقت جو زبان و بیان استعمال کیے گئے اس پر سیر حاصل تبصرہ کریں۔

قطر جو دنیا میں اپنی کچھ اور وجوہات کی بنا پر جانا اور پہچانا جاتا تھا مگر ان قطری خطوط نے تو قطر کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا، مگر لگتا ہے پاکستان کے عوام اور سیاست دانوں نے ان خطوط کو سنجیدہ نہیں لیا ان کے نزدیک یہ بیکارکی مشقت ہے جس نے بھی ان خطوط کو لکھوایا ہے اس نے لکھنے والے کے لیے اچھا نہیں کیا۔ یہ کسی مزاحیہ خطوط کی ایک سیریز لگتی ہے جو کہ لکھنے والے کے لیے بدنامی کا باعث ہی بن رہا ہے مگر کیا کریں۔ بے چارے قطری اخلاق ومروت میں جڑی قوم دوستی نبھائے جارہے ہیں۔

تم جو اتنے خطوط لکھ رہی ہو میرے جرائم میں شریک ہوگیا نہ جانے کس شاعر نے یہ شعر کہا تھا مگر یہاں یہ مثال پوری ہورہی ہے ادھر ہم ہیں کہ ان خطوط کی پاس داری میں شکار کی پابندی ہونے کے باوجود ان حکمرانوں کو خوب کھل کر کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان کے استقبال کی تیاریاں کرتے ہیں وہ لوگ جو کہ اپنے ملک میں قانون بناتے ہیں مگر ان کے آنے پر قانون کی دھجیاں بکھرتی ہیں۔ دست بستہ خدمت میں کھڑے ہوکر اعلان کرتے ہیں جودل چاہے وہ شکار کیجیے۔ہماری تاب ومجال کہاں جو ہم آپ کوکسی بات کے لیے انکار کرسکیں ہماری ان خدمات کے سلسلے میں آپ نے ہمارے لیے جو کچھ کیا ہے یہ تو اس کا عشر وعشیر بھی نہیں، آپ نے پانامہ کیس جیسے مقدمے میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔

اس کے لیے ہمارے دل فرش راہ ہیں، بھلے پاکستانی عوام ان خطوط کو کچھ نہ سمجھیں مگر ہماری دعا ہے کہ یہ خالی کارتوس شاید چل جائیں اور ہم اس بے ہودہ لیکس کے چنگل سے نکل جائیں ۔ قطری نے اتنی جرأت تو کی کہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہیں یہ ہی کافی ہے ہمارے لیے، مگر کاش کوئی ان قطریوں کو سمجھادے کہ یہ پاناما کیس خطرناک کھیل ہے ۔کیونکہ حقیقت چھپ نہیں سکتی، چھپانے سے ایسا نہ ہو دودھ کا دودھ پانی کا پانی اور خطوط کے خطوط الگ ہوجائیں۔ ویسے تو سب کو ہی پتا ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں مگر یہ تو ہوا کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ کس طرح سے دولت چھپائی جاتی ہے کس طرح اڑائی جاتی ہے مگر جو گڑھے مردے اکھیڑنے پر آتے ہیں تو پھر سارے فرعون دریا کی تہہ میں سے بھی باہرآجاتے ہیں۔ ڈرو اس وقت سے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں