فلم بینی کی یادیں تیسرااورآخری حصہ

ہمارے ایک قلمی دوست نے فلم بینی کے حوالے سے کچھ یاددہانی کرائی ہے


Shabbir Ahmed Arman February 07, 2017
[email protected]

ہمارے ایک قلمی دوست نے فلم بینی کے حوالے سے کچھ یاددہانی کرائی ہے، جونذر قارئین ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملزکی کالونی اسٹیل ٹاؤن میں بھی دو سینما تھے۔ایک اوپن ائیرسینما دربار تھا جس کی نشستیں سیڑھی نما تھی جس کا پردہ دیوار پر مشتمل تھا، ٹکٹ کی قیمت ایک یا دوروپے تھی، یہ اب توڑدیا گیاہے،دوسرا سینما اسٹیل ٹاون آفیسرکلب میں واقع تھا یہاں بھی دیوار پر فلمیں دکھائی جاتی تھیں، یہ سینما روسی ماہرین کے لیے وقف تھا، ان کے جانے کے بعد اسے پاکستانی عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا، اگر چہ یہ اب بھی سلامت ہے مگر بے روح ہے یعنی بند ہے۔

اسٹیل مل آفیسرکلب کے نیوزلیٹر میں اس سینما کا اشتہار شایع ہوا کرتا تھا جس میں فلموں کے ناموں کا اعلان کیا جاتا تھا۔ میں ( منیر احمد ) اس نیوز لیٹرکا ایسو سی ایٹ ایڈیٹر تھا ۔ منیراحمد مزید بتاتے ہیں کہ ملیرچھاؤنی میں واقع پکاڈلی سینما انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کے لیے بنوایا گیا تھا، اس زمانے میں جنگ میں شرکت کرنے والوں کوکراچی سے بذریعہ سمندری جہاز بھیجا جاتا تھا۔ 1975 سے 1978کے عرصے میں جب میرا قیام ملیرکینٹ میں تھا، شہر سے دور جہاں سے شہر جانے کے لیے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا تھا کہ کتنی دیر لگے گی ؟ واپسی میں کیسی خواری ہوگی ،ایسے میں اس سینما کا وجود ایک نعمت ہی لگتا تھا ، اسے دیکھتا توکوئٹہ کا عصمت سینما یاد آجاتا اور یہ مزید اچھا لگنے لگتا، پکاڈلی سینماکے پرانے لکڑی کے دروازے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے یا کوئٹہ میں 1935 میں آنے والے زلزلے کے بعد سبزرنگ کے تھے، وہی سیٹوں کا انداز، چھوٹے چھوٹے سے اس کے ٹکٹ ، یہ سینما تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان بھر سے آئے ہوئے فوجیوں کی تفریحی کے لیے بنایا گیا تھا، یہاں کئی فلمیں دیکھیں، مشہور متنازع پنجابی فلم ''خطرناک '' اورمنورظریف کی ''منجھی کتھے ڈھا واں'' دیکھی تھیں، چھٹی کا دن اتوار یہاں آرام سے گزرجاتا تھا، ہر چندکہ یہ سینما اب افتاد زمانہ کی نذرہوچکا ہے لیکن میری نظرکے سامنے ہمیشہ رہتا ہے اس لیے کہتا ہوں زندہ باد پکاڈئی سینما ۔

اسی طرح میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کتاب لیاری کی ادھوری کہانی کے مصنف رمضان بلوچ نے بتایا کہ جاوید جبارکی پاکستانی انگریزی فلم Beyond The Last Mountainsجسے اردو زبان میں مسافرکے نام سے بھی پیش کیا گیا تھا ۔اس فلم میں ایک مزدورلیڈرکا بھی کردار تھا، اس فلم میں مزدورلیڈرکا گھر لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین بلاک Aگلی نمبر 2 میں دیکھا گیا تھا ، اس فلم کے ہیروعثمان پیرزادہ تھے ۔اس مضمون کے دوسرے حصے میں ہم نے سینما گھروں کے عروج و زوال کا تزکرہ کیا تھا مزید یہ کہ ایک دور ایسا بھی گزراہے کہ فلم بین ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے سینما کے آگے بستر لگا کرکھڑکی کھلنے کا انتظارکیا کرتے تھے۔

اس کے باوجود بھی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ سینماؤں پرٹکٹ لینے والا بھی نظر نہیںآتا تھا۔ نئے سینما گھر تعمیر ہونے سے اوران میں انگریزی اور انڈین فلمیں ریلیز ہونے سے سینما انڈسٹری کی جان میں کچھ جان آگئی ہے لیکن پرانے سینما گھروں میں اب بھی ویرانی کے آثار نمایاں ہیں۔ اس جانب نہ پہلے توجہ دی گئی تھی اور نہ اب سنجیدگی سے غوروفکرکیا جارہا ہے، اگرچہ نئی پاکستانی فلموں کا معیار بہتر ہے لیکن پروڈکشنز ڈراموں جیسا ہے جب کہ اچھی کہانی بھی فلم بینوں کا دل جیتنے میں ناکام ہے ۔

کہانیوں میں رومانوی یکسانیت ہے، سچی بات یہ ہے کہ ویڈیوکو فروغ دینے والے بھی یہی سینما مالکان تھے۔ اس لیے کہ ویڈیو پرآرام سے فلم دیکھ لی جاتی تھی اور فلم بین اس عذاب سے بچے رہتے تھے، جوانھیں سینماؤں پر جاکر برداشت کرنا پڑتا تھا، اگر سینما مالکان فلم بینوں کی مشکلات کو دورکرلیتے اور انھیں سہولیات فراہم کرتے تو ویڈیوکا یکسر خاتمہ ہوجاتا کیونکہ چھوٹی اسکرین بڑی اسکرین کا مقابلہ ہرگزنہیں کرسکتی، مگر ایسا نہیں کیا گیا اور بالآخر وہ دور آہی گیا جب سینما مالکان یہی کہتے رہ گئے کہ آ بھی جاو بالما تیرا انتظار ہے ۔

ہمارے فلم بینوں کا معیار بھی عجیب سا رہا ہے کبھی کہتے تھے کہ ہماری فلمیں معیاری نہیں ہیں اورکبھی یہی فلم بین ہر کامیاب پاکستانی فلم کوکسی نہ کسی بھارتی فلم کا چربہ کہنے لگے تھے ۔ ٹھیک ہے ماضی میں بہت سی فلمیں چربہ ہوا کرتی تھیں لیکن سن 1980ء کے دہائی میں چربہ سازی میں 75فیصد کمی آگئی تھی جس کا ثبوت وہ پاکستانی فلمیں ہیں جنھیں دیکھ کر بھارتی فلم انڈسٹری آج بھی متاثرہے اور ان فلموں کے ہو بہو چربے بناتی رہی ہے۔ گانے تک چرا لیے گئے ہیں ، ہنوزیہ سلسلہ آج تک دکھائی دیتا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری فلمیں معیاری ہوا کرتی تھیں جب کہ آج بھارتی فلمیں پہلے کے نسبت کچھ زیادہ ہی عریانی وفحاشی کی علامت ہیں یا پھر انگریزی فلموں کی نقل ہیں۔

بدقسمتی سے 1990ء کی دہائی میں ہمارے یہاں قومی زبان اردو میں فلمیںبننا نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں، ہر فلم علاقائی زبان میں بنائی جارہی تھی جو ماردھاڑ سے بھر پور تھیں یہی سے پاکستان فلم انڈسری کا زوال شروع ہواتھا ۔ پاکستان کے بڑے بڑے اداکار اور اداکارائیں بے روزگاری سے بچنے کے لیے علاقائی فلمیں کرنے لگے تھے ۔ غیر معیاری فلموں کی وجہ سے ان کا امیج بھی خراب ہونے لگا تھا۔ اسی دور میں اس وقت کی مقبول اداکاروں اور اداکارائیں فلم لائن سے الگ ہوئے اورگوشہ نشینی اختیار کر گئے یا کرگئیں،انھی حالات وواقعات کی روشنی میں ہفت روزہ نگارکے مدیر اورنگار پبلک ایوارڈ کے خالق الیاس رشیدی نگار ایوارڈکا اجرا بند کرنے پر مجبورہوئے تھے ، لیکن عقل سے پیدل فلمسازوں اور ہدایتکاروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور بلآخر پاک فلم انڈسٹری زوال پذیرہوئی اورآج تک اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔

فلم بین چیختے رہے، چلاتے رہے کہ خدارا پاکستانیت کی سوچ کو فروغ دیں، تشدد اورماردھاڑ کی دنیا سے باہر نکل آئیں اور قومی حالات کے پیش نظراصلاحی، معاشرتی اورحب الوطنی کے موضوع پر فلمیں بنائیں، عوام کو اپنی فلموں کے ذریعے سیدھا راستہ دکھائیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، جس کے نتیجے میں بہت سے فلم اسٹوڈیوز ویران ہوگئے ، بہت سے فنکارکنارہ کش ہوگئے، بہت سے تخلیق کار بے روزگارہوگئے ، بہت سے ہنرمندگھر بیٹھ گئے۔

سینما مالکان نے اپنے کاروبارکو جاری رکھنے کے لیے ملک میں بھارتی فلموں کی درآمد کے لیے مہم چلائی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ، پاک فلم انڈسٹری کے کچھ سینئر فلم سازوں، ہدایت کاروں نے ہمت نہ ہاری حالات سے آج بھی وہ مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی فلموں کو سینماؤں میں جگہ نہیں دی جاتی،انھیں نقصان پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

سنجیدہ فلم بین سی ڈی پر پرانی پاکستانی فلمیں دیکھ کر اپنا شوق پوراکررہے ہیں۔اچھی اورمعیاری فلم تفریح کا ایک سستا ذریعہ ہے اور فلم بین طبقہ زیادہ ترغریب عوام پر مشتمل ہے دن بھرکی تھکاوٹ اور ذہنی پریشانی کے بعد جب سکون بہم پہنچانے اورتفریح کے غرض سے فلم بین سینما کا رخ کرتے ہیں تو ٹکٹ کی قیمت ان کے دسترس سے باہر ہوتی ہے مجبورا وہ گھر بیٹھے پہلے وی سی آرپراپنی پسند کی فلمیں دیکھتے تھے۔ اب وہ ڈی وی ڈی پر سی ڈی کے ذریعے دیکھتے ہیں ۔ مذکورہ بالا یہی وہ وجوہات ہیں جو پاک فلمی صنعت کی زوال کا سبب بنے ہوئی ہیں ۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے آگے بڑھے اورسینئر فلمسازاور ہدایتکار بھی میدان عمل میں اترآئیں ۔ نئے باصلاحیت چہروں کو بھی سامنے لائیں ، سینئر اداکار اور اداکارائیں جو اس وقت دستیاب ہیں انھیں بھی نئی نسل سے روشناس کرائیں، اولڈ از گولڈ، سینما مالکان بھی اچھی اورمعیاری پاکستانی فلموں کو جگہ دیں۔ سینماؤں کے ٹکٹ کی قیمت اتنی رکھی جائے کہ ایک غریب آدمی بھی آسانی سے خریدسکے تو پھرکوئی وجہ نہیںہمارے سینما گھر پھر سے آباد نہ ہوں، پردیسی فلمیں ہماری ثقافت کا نعم والبدل نہیں ہوسکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں