اردو میں انگریزی کی آمیزش کا رجحان
اردوزبان کا آغاز کب، کہاں اورکس طرح ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف محققین نے اپنے طور پر دیے ہیں۔
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
برسوں پہلے اردو زبان کی قدرومنزلت کو داغ جن الفاظ میں بیان کرگئے ہیں، اسے آج تک نہ کوئی جھٹلاسکا ہے اور نہ جھٹلاسکے گا۔ ہاں لیکن اس خوبصورت زبان کو دیگر زبانوں خصوصاً انگریزی کے ساتھ خلط کرکے ایک نئی ''گلابی اردو'' بولنے کی کوشش ضرورکی جاتی ہے،کیونکہ ہم اب تک غلامی کے دورکی باقیات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ خود کو مغربی تہذیب میں رنگ کر ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھنے لگے ہیں۔ ہم اپنے گھروں، دفاتر، اسکول، کالجوں، جامعات غرض ہر جگہ انگریزی کی اس طرح اپنی زبان میں آمیزش کرتے ہیں کہ خود انگریزی بھی شرما جائے۔
چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
ایک نوجوان اپنے موبائل فون پرکچھ ان الفاظ میں محو گفتگو ہے۔''یار پلیز! تو ٹینشن نہ لے سب سیٹ ہوجائے گا۔ میں ہوں ناں!'' ایک ٹی وی ڈرامے میں ایک لڑکی اپنی ماں سے مخاطب ہے ''مما!آئی وش کہ میرے بال بھی آپ جتنے لمبے ہوجائیں اورشائنی ہوتے۔''
ریڈیوکے ایک معروف میزبان اپنے سامعین کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے فرماتے ہیں ''جن لسنرز نے ابھی ابھی ریڈیوکو ٹیون اِن کیا ہے میں ان کو بتاتا چلوں کہ ہمارا آج کا ٹاپک ہے۔'' پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، کیونکہ یہ وہی زبان تو ہے جو ہم اورآپ روزانہ استعمال کرتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا بالکل احساس نہیں ہوتا کہ اس طرح ہم اپنی قومی زبان کی کس قدر توہین کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں زیادہ ترقصور ذرایع ابلاغ کا ہے جس پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں زبان کی ایسی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ بیشتر پروگراموں کے نام یا تو انگریزی میں ہوتے ہیں یا پھرآدھے تیتر،آدھے بٹیرکی مانند نہ اردوکے کہلائے جاسکتے ہیں نہ انگریزی کے۔ اگر خوش قسمتی سے کسی پروگرام کا نام اردو میں رکھ بھی لیا جائے تو اس میں پیش کیے جانے والے مواد میں غلامی کے دورکی یاد کو اتنے خلوص اور حسن وخوبی سے پیش کیا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ حالانکہ اردو زبان بہت ہی وسیع ہے اور اردو زبان میں بلاوجہ انگریزی الفاظ کی آمیزش کی بظاہرکوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہوکر اس عمل سے خود کوکچھ بلند ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس طرح ہم اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن دنیا کو نہیں۔
قدرت اللہ شہاب اپنی معروف تصنیف ''شہاب نامہ'' میں رقم طراز ہیں ۔''قاہرہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ مصرکی انقلابی حکومت نے حاجیوں کی آمد ورفت کے لیے نہایت اعلیٰ درجے کے انتظامات کر رکھے ہیں، حاجیوں کو لے کر ہر روز سفر کرتے تھے ہر تیسرے روز ایک سمندری جہاز بھی جدہ کے لیے روانہ ہوتا تھا۔ وزارت خارجہ کا جو افسر ان انتظامات کی دیکھ بھال پر مامور تھا وہ میری درخواست دیکھ کر بڑا چیں بچیں ہوا۔'' آپ پاکستانی ہوکر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہو؟ اس نے میری جواب طلبی کی۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے عربی نہیں آتی اس لیے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی۔
''آپ کی اپنی زبان کیا ہے؟'' افسر نے پوچھا۔ ''اردو''۔ میں نے جواب دیا۔ ''پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا رشتہ کیا ہے؟'' افسر نے طنزیہ پوچھا۔ میرے لیے اس کے سوا اورکوئی چارہ نہ تھا کہ میں یہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے۔ میرا یہ اقبال جرم سن کر افسر مطمئن ہوگیا اور بولا۔ ''اس صورت میں بہتر یہی تھا کہ آپ اپنی درخواست اردو میں لکھتے۔''
اردو زبان کا آغاز کب، کہاں اور کس طرح ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف محققین نے اپنے طور پر دیے ہیں لیکن کسی ایک بات پر سب کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ مولانا سلیمان ندوی اس کا مولد سندھ کو قرار دیتے ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی نے اردوکا ابتدائی گھر حیدرآباد دکن کوکہا ہے۔ تاہم متعدد محققین نے دہلی کو اور اس کے قرب و جوار کے علاقے کو اردوکا مولد و مسکن کہا ہے۔
برصغیر میں صوفیائے کرام نے ہی اس زبان کو حقیقی دوام بخشا۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ ان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ یہ پورے ہندوستان کی زبان ہے، لیکن جب انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوؤں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہوئے ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی سفارش کی تو پھر مسلمانوں نے بھی اردو کو بطور قومی تشخص قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو منظم کیا۔ اسی لیے بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ''پاکستان کی پہلی اینٹ جس نے رکھی وہ اردو زبان ہی ہے۔ بقول صہبا اختر :
اب کا نہیں ہے یہ صدیوں کا ساتھ ہے
تشکیل ارض پاک میں اردو کا ہاتھ ہے
لیکن افسوس کہ ہم اپنی اس زبان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کررہے ہیں جو ہماری محسن ہے۔ جب کہ انگریزی کی جو آمیزش نظر آتی ہے وہ بالکل ہی نامناسب ہے۔ ایک آزاد قوم جو اپنا تشخص رکھتی ہے اس کا قومی زبان کے سلسلے میں یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے بظاہر آزادی تو حاصل کرلی لیکن درحقیقت ذہنی طور پر ہم غلام ہیں۔ ہماری قوم کا مجموعی طور پر رویہ یہ ہے کہ ہم قومی زبان بولنے والوں پر ان لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جو اپنی زبان بھی صحیح نہیں بول سکتے ہماری ذہنی پسماندگی کا حال یہ ہے کہ ہر اس شخص کو بڑا قابل سمجھتے ہیں جو انگریزی میں بات چیت کرتا ہے خواہ وہ غلط انگریزی ہی بول رہا ہو ہمارا یہ رویہ ہماری ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔
کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ خالصتاً قومی زبان کو ذریعہ تعلیم نہیں بناتی لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ محض نظر کا دھوکہ ہیں ان سرابوں کو پانے کی جستجو میں ہم اپنی اصل منزل سے دور بھٹکتے جا رہے ہیں ہم اپنی تہذیب وتمدن روایت واقدار اور زبان کو یکسر فراموش کر رہے ہیں اور اب تو صورتحال اس نہج پر آچکی ہے کہ اچھی خاصی اردو بولتے بولتے ہم اچانک درمیان میں انگریزی کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو اس انگریزی لفظ کا متبادل اردو لفظ معلوم نہیں ہوتا جو یقیناً ہمارے لیے شرم کا مقام ہے۔
ڈاکٹر ایچ فی سورلے کے مطابق ''زبان عام طور پر لوگوں کو پہچاننے کی کلیو ہوتی ہے۔'' تو جب ہم اپنی پہچان ہی رفتہ رفتہ مٹاتے جا رہے ہیں تو پھر دنیا میں ہمیں ہمارا مقام کیسے مل سکتا ہے۔