خوش گمانیوں کے شیش محل
احتساب کا شکنجہ صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب اور پھر سارے ملک میں پھیل جائے گا۔
تقریباً دو سال قبل نیشنل ایکشن پلان کے تحت جب ریاست کے اہم مقتدرحلقوں کی جانب سے کراچی میں کارروائیاں شروع کی گئیں تو یہ تاثر پیدا ہو چلا تھا کہ یہ کارروائیاں اب رُکنے والی نہیں ہیں ۔دہشتگرد ی اور کرپشن کے خلاف کئی ایک فیصلے اور اقدامات کیے گئے۔ شہرکوکسی حد تک امن کی جا بنایا گیا۔ شہریوں نے امن وسکون کاسانس لیا مگر کچھ فیصلوں سے حکومت ِسندھ مضطرب دکھائی دینے لگی۔ خاص کر جب ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کرکے کرپشن کی کھوج لگانے کی کوششیں کی گئیں۔ایم کیوایم کے ساتھ جو ہوا اُس کی تو توقع سب کو تھی لیکن سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ہرگز یہ معلوم نہ تھا کہ اِس آپریشن کی آڑ میں اُس کی کچھ کرتا دھرتاؤں کی خلاف بھی محاذکھول دیاجائے گا۔
سندھ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے گئے اور وہاں سے فائلیں اُٹھائی گئیں تو رینجرز اورصوبائی حکومت آمنے سامنے آگئے۔سابق وزیرِ اعلیٰ بہت برہم اور سیخ پا ہوئے اور مزاحمتی بیانات دینے شروع کردیے۔رفتہ رفتہ یہ سرد جنگ بڑھتی چلی گئی اور جب ڈاکٹرآصف حسین اور پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کو دبئی سے گرفتارکیاگیا تو صبرکا پیمانہ لبریزہوچکا۔ پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری بھی چپ نہ رہ سکے اور اُن کی زبان اور منہ سے آگ اورلاوا اُگلنے لگا۔اُنہی دنوں اسلام آباد ائیرپورٹ سے ماڈل گرل ایان علی کو پانچ لاکھ ڈالرغیرقانونی طور پر لے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا، تو اِس واقعے نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور محترم نے ایسی خوفناک اور اشتعال انگیز تقریر کر ڈالی کہ جس کی تاب نہ لاکر وہ خود بے چارے غریب الوطنی پر مجبور ہو گئے اور اُس وقت تک پاکستان واپس نہیں آئے جب تک کہ حالات اُن کے لیے سازگار نہ ہوگئے۔
سندھ رینجرز کی کارروائیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اُس کا دائرہ کار اب مزید وسیع ہوگا اور کسی کو بھی نہ بخشا جائے گا۔ اُسی کو دیکھتے ہوئے عوام ایسی خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں میں رہنے لگے کہ اب یہاں سخت، بے لاگ اور بے رحم احتساب ہونے ہی والا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ہمارے کئی صاحبِ فہم وفراست دانشور اور تبصرہ نگار ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے دکھائی دیے کہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعی کچھ ہونے والا ہے۔ کرپشن اور غیر قانونی طور پر مال بنانے والے اب بچ نہیں پائیں گے۔
احتساب کا شکنجہ صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب اور پھر سارے ملک میں پھیل جائے گا۔ سندھ کے بعد پنجاب کی بھی باری آنی ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اُسی طرح چلائے اور روئے گی جس طرح آج سندھ کی حکومت شور مچا رہی ہے۔ مگر افسوس اُس خوش گمانی پر جو ادھوری کی ادھوری رہ گئی۔احتساب کا شکنجہ پنجاب کی حدود میں کیا داخل ہوتا سندھ ہی میں وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کرسکا۔ ڈاکٹر عاصم کوگرفتار ہوئے اب دوبرس ہونے کو ہیں ۔ اُن پر چارسوارب روپے سے زائد کرپشن کاالزام لگایا گیا لیکن تاحال کوئی سزا نہیں دی گئی۔ شروع شروع میں کچھ اعترافی بیانات بھی سامنے آئے لیکن اُن کی صحت وصداقت کی اہمیت اِس لیے بھی نہ رہی کیونکہ وہ شایدکسی خوف اوردباؤ کے تحت لیے گئے ہوں۔بہت سی جی آئی ٹی بنائی گئیں لیکن انجام نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا۔
عذیر بلوچ بھی ہنوزگرفتار ہیں لیکن اتنے آرام وسکون سے ہیں کہ پہلے شاید کبھی نہ رہے ہوں۔کوئی آہنی ہاتھ اُن سے وہ اہم رازاُگلوا نہیں سکا جس کی خاطر اُنہیں گرفتارکیاگیا تھا۔ یہ دونوں حضرات بھی آنے والے دنوں میں ناقص اورکمزور پروسیکیوشن کے سبب اُسی طرح رہا ہوکر دیار غیر کو نکل جائیں گے جس طرح آج ہماری ماڈل کوئین ایان علی ملک کی اعلیٰ وعرفہ عدالتوں سے کلین چٹ حاصل کرکے اپنے سرپر فتح یابی اور سرخروئی کا تاج سجاکراور اِس ملک کے عدل و قانون کا تمسخر اُڑاکرکسی بھی وقت بھی اُڑان کے لیے تیاردکھائی دے رہی ہیں۔
اِس ملک میں پہلے بھی نہ کوئی احتساب ہو پایاہے اور نہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ کچھ دنوں شور اُٹھتا ہے اور پھروقت کی دھول میں گم ہوجاتا ہے۔ 12مئی 2007ء کوکراچی میں جس طرح خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، اُس کی تحقیقات اب دس سال گزرجانے کے بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑی ہے۔ بلدیہ فیکٹری میںآگ لگانے والے آج بھی مادرپدرآزاد ہیں، کوئی قانون کی گرفت اُنہیں پکڑ نہیں سکتی۔تھائی لینڈ سے پکڑ کرلایاجانے والااہم ملزم عبدالرحمن عرف بھولااپنے اعترافی بیان سے بھی منحرف ہوچکاہے جس کے بعد جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لیے انصاف کی رہی سہی اُمید بھی خاک میں مل گئی ہے۔لیاقت علی خان سے لے کر جنرل ضیاء، اکبر بگٹی اورمحترمہ بینظیر بھٹوتک کسی کے قاتل پکڑے نہیں گئے۔
سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید اور ہفت روزہ تکبیرکے ایڈیٹر صلاح الدین کے قاتل آج بھی دندناتے پھرتے ہیں اور لیکن کوئی عدالت اُنہیں قرار واقعی سزا نہیں دے سکتی اور تو اور سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کس طرح ملکی قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک میڈیکل رپورٹ پر علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں کہ کوئی اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔وہ جب تک یہاں رہے۔
اُن کا ادارہ اُنہیں بچاتا رہا۔ موجودہ حکومت نے جب جب اُنہیں اپنے شکنجے میںگھیرنا چاہا تو اُسے خود اپنی بچاؤکی فکر لاحق ہونے لگی۔سیاستدانوں کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا کوئی ایسوسی ایشن نہیں ہوتی اِسی لیے وہ کبھی اڈیالہ جیل میں پھانسی پر لٹک رہے ہوتے ہیں یا اٹک کے قلعے میں اپنے نصیبوں کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے با اثر لوگوں پر ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتے یا پھر ڈالتے ہوئے خوفزدہ ہوتے ہیں، اگرکوئی سرپھرا یہ جرأت رندانہ دکھانے کی کوشش بھی کرے تو اُسے ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کی قابل ہی نہیں رہتا۔
عدالتیں انصا ف کے لیے ثبوت و شواہد کی محتاج ہوتی ہیں۔ قتل سے انکار نہیں ہوتا لیکن قاتل کو سزا دینے کے لیے ٹھوس ثبوت چاہیے ہوتے ہیں۔اَسی طرح کرپشن اور مالی بدعنوانی ثابت کرنے کے لیے بھی مستند شواہد کا ہونا ضروری ہے۔فرضی خطوط اور اخباری تراشوں پر فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا۔یکم نومبر سے ہماری سپریم کورٹ پاناما کیس کی شنوائی کررہی ہے۔ تین ماہ ہوچکے ہیں اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ محض مبہم اور مشکوک باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر فریق خود کو درست سمجھ رہا ہے۔ میاں صاحب پر اُن کے موجودہ دور کی کسی کرپشن کا کوئی کیس اب تک درج نہیں کیا گیا۔ پاناما کیس کا تعلق بھی اُن کے سابقہ ادوار یا پھر جلاوطنی کے زمانے سے ہے۔قطری شہزادے کی کرم نوازیاں اُنہیں بھاری پڑگئی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کو بھی کسی سعودی شہزادے نے بہت نوازا تھا لیکن وہ قوم کو اِس حوالے سے کچھ بھی بتانے کے روادار نہیں ہیں۔اُنہیں کوئی عمران خان یا آزاد اورخود مختار عدلیہ بھی طلب نہیں کرسکتی۔ احمد رضاقصوری کے والد کے قتل کے الزام میں ایک ذوالفقارعلی بھٹو تو پھانسی چڑھ سکتا ہے لیکن نوابزادہ طلال بگٹی کے والد کے قتل کے ملزم کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا۔ ہمارا یہی متضاد اور امتیازی رویہ اور سلوک ہمیں اب تک عدل وانصاف کی نعمتوں سے محروم کیے ہوئے ہے۔''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس'' جیسے مقدس اور زریں اُصولوں سے ہم جب تک چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے ایسی ہی ناانصافیوں کا گلہ اورشکوہ کرتے رہیں گے۔یہاں نہ کبھی کسی کا صحیح معنوں میں احتساب ہو پائے گا اور نہ کسی بڑے اور بااثرمجرم کوکوئی سزا دی جا سکے گی۔ہماری توقعا ت اورخوش گمانیوں کا شیش محل ہر بار یونہی مسمار ہوتا رہے گا۔