جرگہ
الفاظ اوران کے معنی جامد و ساکت نہیں رہتے
KARACHI:
الفاظ اوران کے معنی جامد و ساکت نہیں رہتے۔ وقت کے ساتھ ان کی تشریح یا تو مثبت آتی ہے یا منفی یا پھرایسا بھی ہوتا ہے وہ الفاظ صرف تاریخ کے حوالے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔یوں تو سندھی میں آج جو ''وڈیرو'' کی تشریح ہے وہ منفی ہے مگر ماضی میں ایسا نہ تھا۔
''وڈیرو'' معنی بڑا۔پنچایت کا بڑا جس کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا تھا اور پھر وڈیروں نے جوں جوں بدلتے زمانے کے ساتھ اس لفظ کی پاسداری توڑی تو دیکھیے پھرآج اس لفظ کی معنی کِس تناظرمیں آپ کے پاس ہیں۔وقت کے ساتھ وڈیرہ آج ہیرو سے وِلن بن گیا۔جرگوں کا ماجرہ بھی کچھ اسی طرح سے ہے۔تاریخی اعتبار سے وہ فطری طور پر ظہور پزیر ہوئے اور پھر اپنے فیصلوں میں زن دشمن پیدا ہوئے۔بھلا کرے وزیرِ قانون جناب زاہد حامد کا وہ) (Alternative dispute resolution جوکہ اپنی معنی میں عدالتی نظام سے باہر تنازعات کو طے کرنے کا طریقہ کارہے۔
جس کو ثالثیArbitration بھی کہا جا سکتا ہے۔یوں کہیے کہ صْلح وصفائی کروانا۔کیا کبھی ایسی صْلح و صفائی میں عورت کو ''کاری'' قرار دیا گیا ہے مگر ''جرگہ'' میں ایسا ہوا ہے۔جِرگوں میں کیا اچھا یا کیا بْرا ہو ا ہے یا عدالتوں میں کیا اچھا یا کیا بْرا ہو رہا ہے کتنے کیسز التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔کتنی بار نظریہ ضرورت کا سہارا لیا گیا ۔اس سے ہٹ کر جس امرکی ہمیں ضرورت ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جس سے کورٹس میں کیسز التواء میں نہ پڑیں۔ باقی توکورٹس کے اندر Adversary system ارتقاء کی وہ منزل ہے جس نے عدالتی نظام کو شفاف بنایا۔بیس بیس، پچیس سالوں کے تجربے سے بنے جج یا وکیل سائنسی انداز میں بڑے بڑے اداروں سے قانون کی ڈگریاں لے کر وکیل یا جج آئین کی روح کو سمجھتے ہوئے، انسانی حقوق کے علمبردار یہ وکیل یا جج اورکہاں''وڈیرو''کہاں ''قبائلی شرفاء''۔
حیرت تو اِس بات کی ہے کہ لگ بھگ ساڑھے تین سو اراکین پر مشتمل اِس ایوانِ زیریں میں کْل مِلا کر 23 ممبران نے زاہد حامد کے پیش کیے ہوئے اِس بِل کو منظورکیا۔یوں کہیے کہ کورم بھی پْورا نہ تھا اور دوسری حیرانی اِس بات کی ہے کہ آپس میں گتھم گتھا دو پارٹیاں یعنی پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کی رضامندی سے یہ بِل منظور ہوا۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ آئین کے آرٹیکل 10 Aاور4کے ٹکراؤ میں ہے؟کیا یہ پاس کیا ہوا بِل آئین میں موجود بنیادی حقوق سے ٹکراؤ میں ہے؟اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کیا لفظ ''جرگہ'' اور اْس کا پارلیمنٹ کے اندراعتراف خود پارلیمنٹ کے تصور کی نفی نہیں کرتا؟خود جمہوریت کے تصورکی نفی نہیں کرتا؟پاکستان بنا تو FATAکے شرفاء نے قائد اعظم کے سامنے یہ گزارش رکھی کہ جناب ہم قبائلی لوگ ہیںاور ہمیں اپنے قبائلی طرزِزندگی میں رہنے دیں۔ جناح صاحب کے سامنے افغان بارڈر پر صدیوں سے رہائش پذیر اِن قبیلوں کی تاریخ سامنے آگئی۔وہ جگہیں، وہ تضاد سامنے آگئے۔ بات اتنی پیچیدہ و حساس تھی کہ ان کو جب انگریز بھی اپنا نظام نہ دے سکے تو قائداعظم کیسے اْن کو law Anglosaxon جو کہ پوری مہذب دنیا میںاب رائج ہے دے سکتے تھے۔
لیکن پھر بھی کیا ہوا۔ ستر سال سے ہم اْن کو اپنے آئین کے تابع نہ کر سکےFATA کو خیبر پختونخوا کا حصہ جو بنانا پڑتا۔ہوسکتا ہے کہ زاہد حامد کے اِس بِل میں وہ کچھ اجزاء نہ ہوں جو جرگہ میں ہوتے ہیں مگر جس لفظ کا انھوں نے چناؤ کیاتو بات جا کر قبیلے پر پہنچی ہے۔
قبیلے سے قدیم تک، قدیم سے جبلت تک،جبلت سے وحشت تک۔یوں تو یہ دو الفاظ ''جر گہ''اور ''پنچایت'' بھی آپس میں ٹکراؤ رکھتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ زاہد حامد پاناما کو جرگہ میں لے جا نا چاہتے ہیں۔وہ عدالتوں کہ اِس آئینی نظام کو رْسوا کرنا چاہتے ہیں تو پھر
پڑیئے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
(غالبؔ)
جب ''جرگہ'' صحیح ہے تو حکیموں سے علاج بھی صحیح ہے۔چاہے نیم حکیم ہی سہی۔ ریل گاڑی کیوں بیل گاڑی پر سفر کیجیے۔زاہد حامد ذرا ایسا بِل بھی لائیے جو ایوانِ زیریں کو اِس بات کا پابند بنائے کہ وہ حکیموں و طبیبوں کے پا س جائیں نہ کہ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں اور ڈاکٹروں سے معائنہ کروائیں۔ تو میاں صاحب کی کلائی میں پڑیHarrodsدکان سے خریدی ہوئی کروڑوں کی مالیت کی گھڑی اْتروائیں۔ٹھیک ہے! عدالتوں سے باہر تصفیہ ہونا چاہیے اور ہوتا ہے خود اس سے عدالتوں کا وقت بچتا ہے جو کسی اور بھلے کام پر استعمال ہو گا مگر جب وزیرِ قانون یہ کہے کہ عدالتی نظام سْست ہو گیا ہے یا کام نہیں کر رہا ہے لہذا ''جرگہ''چاہیے تورونا آتا ہے۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
(غالبؔ)
حامد صاحب کے مسئلہ کی رْوح میں اگر اتر جائیں تو جمہوریت پر ہی قْفل لگانا پڑجائے گا اور آئین کو زنجیروں سے جکڑنا ہوگا۔ایوانِ زیریں کے اوپر ہے ایوانِ بالا یقیناً یہ بِل قانون کی شکل نہیں اختیارکر پائے گا۔کب ہمیں عقل آئے گی، یہ کثیر القومی،کثیر اللسان ملک پاکستان، بچے بوڑھے خواتین،کثیرالمذاہب کا پاکستان، ماڈرن قبائلی و پنچایتی مختلف طرزِ عمل پر زندگی بسر کرنے والوں کا پاکستان جتنا جتنا آئین کے محورکے گِرد گھومے گا اْتنا ہی مضبوط ہو گا۔اس کی شرح نَمو بڑھے گی۔انصاف آپ کو دہلیز پر ملے گا۔ روزگار، تعلیم وصحت عام ہوگی۔ وحشت کو وحشت سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جا سکتا۔قانون کے ایک ادنیٰ شاگرد ہونے کے ناتے میرا کامِل یقین ہے کہ اکثر جرائم کرنے والے یا تو ذہنی طور پر متوازن نہیں ہوتے یا معاشرہ ان کو مجبور کرتا ہے، تو سزا بھی اْسی طر ح کی دی جائے کہ وہ صحت مند بنیں اور واپس آکر اسی معاشرے میں اپنی نئی زندگی کا آغازکریں، تو خود معاشرے کے اندر پڑے ایسے تضاد ات کا بھی تدارْک کیا جائے جس سے جْرم کم ہو۔عورتوں کی تعلیم کو لازمی بنایا جائے، عورتوں کے ووٹ دینے کے حق کو محفوظ کیا جائے۔انھیں ووٹ دینے سے روکنے والوں کو روکیں۔ اب آپ فوجی عدالتیں تو بنائیں اور اْن کی بنیادی وجوہات کو نظر انداز کر دیںجنہوں نے مذہبی دہشتگردی کو ہوا دی۔ یعنی قاتل توپکڑا گیا مگر جس نے قاتل کو قاتل بنایا وہ آزد گھوم رہا ہے، جرگہ و قبیلہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ ''جرگہ'' جہاں ایک بھی عورت اِس کا حصہ نہیں ہوتی۔ جرگہ جو سچ کو صرف مرد کی آنکھ سے دیکھتا ہے، عورت کی آنکھ سے نہیں۔ تبھی تو ''سقراط'' کہتے تھے۔
''صحیح بات کے لیے غلط الفاظ کا چْناؤ روح میں شیطان پیدا کردیتا ہے۔''
آج کا جرگہ ہو یا آج کا ''وڈیرہ سائیں'' پاکستان کے روشن مستقبل کے سامنے وہ روڑے ہیں جنھیں ہٹانا پڑے گا۔
رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہوگئے